Quantcast
Channel: ایکسپریس اردو
Viewing all 30795 articles
Browse latest View live

مسلم لیگ (ن) کا چیئرمین نیب کیخلاف ویڈیو اسکینڈل کی پارلیمانی تحقیقات کا مطالبہ

$
0
0

 اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) نے چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کی مبینہ ویڈیو کی پارلیمانی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

اسلام آباد میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ہمیں انصاف نہیں ملا لیکن ہم چاہتے ہیں چیئرمین نیب کو انصاف ملے ، انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے، ان پر اپوزیشن کے خلاف کارروائی اور حکومتی کرپشن بچانے کے لیے دباؤ ڈالا رہا ہے، سارے معاملے کے پیچھے وزیر اعظم ہاؤس کا ہاتھ ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: چیرمین نیب کے خلاف اسکینڈل میں منظم گروہ ملوث ہونے کا انکشاف

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پہلے دن سے نیب کے بارے میں تحفظات ہیں کہ حکومت نیب کو استعمال کر رہی ہے اور نام نہاد احتساب کے پیچھےعمران خان کا ہاتھ ہے، ان سوالات کی کڑیاں بھی ملنا شروع ہوگئی ہیں، ہمارے وزیر اعظم اور نیب کا اصول ہے الزام لگا دیا تم مجرم بن گئے، جب تک گناہ ثابت نہ ہو وہ شخص بے گناہ ہوتا ہے، آج تک کے حقائق بتاتے ہیں دال بالکل کالی ہے، حالات سنگین ہیں اس میں چیئرمین نیب، وزیر اعظم ہاؤس، وزیراعظم اور ان کے مشیر ملوث ہیں۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ چیئرمین نیب کی مبینہ ویڈیو چلانے والے ٹی وی کے مالک طاہر خان وزیراعظم کے مشیر اور دوست ہیں، یہ وہی طاہر خان ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی الیکشن مہم کو فنڈ کیا اور ان کی میڈیا کمپین بھی چلائی، قومی اسمبلی کے رول 244 بی کے تحت چیئرمین نیب کے معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دی جائے اور رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے، خواجہ آصف کمیٹی کی تشکیل کے لیے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں گے، حکومت کا کمیٹی سے بھاگنا ثابت کرے گا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

دوسری جانب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا ہے کہ چیئرمین نیب کی وڈیو وزیراعظم کے دوست کے چینل سے نشر ہوئی، پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو وزیراعظم اور چیئرمین نیب سے سوالوں کے جواب لے۔

 

The post مسلم لیگ (ن) کا چیئرمین نیب کیخلاف ویڈیو اسکینڈل کی پارلیمانی تحقیقات کا مطالبہ appeared first on ایکسپریس اردو.


وارم اپ میچ؛ پاکستان کا افغانستان کو جیت کیلیے 263 رنز کا ہدف

$
0
0

برسٹول کے کاؤنٹی گراؤنڈ میں جاری وارم اپ میچ میں پاکستان نے افغانستان کو جیت کے لیے 263 رنز کا ہدف دے دیا جواب میں افغان کھلاڑیوں کی بیٹنگ جاری ہے۔

انگلینڈ میں کرکٹ کے میگا ایونٹ کا آغاز 30 مئی سے ہوگا لیکن اس سے قبل تمام ٹیمیں پریکٹس کے لیے وارم اپ میچز کھیل رہی ہیں، اپنے پہلے میچ میں پاکستان کا ٹاکرا افغانستان سے ہورہا ہے جہاں پاکستان کی پوری ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 48 ویں اوور میں 262 رنز پر پویلین لوٹ گئی۔

قومی ٹیم کی جانب سے امام الحق 32، فخرزمان 19، حارث سہیل 1، محمد حفیظ 12 ، شعیب ملک 44، سرفراز احمد 13، عماد وسیم 18، حسن علی 6 اور شاداب خان ایک رنز بناکر آؤٹ ہوئے جب کہ بابراعظم 112 رنز کی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوئے جس میں 10 چوکے اور 2 چھکے شامل تھے۔

The post وارم اپ میچ؛ پاکستان کا افغانستان کو جیت کیلیے 263 رنز کا ہدف appeared first on ایکسپریس اردو.

حسن علی نےعامر اور وہاب کی شمولیت کو خوش آئند قراردیا

$
0
0

حسن علی نے ورلڈکپ اسکواڈ میں تجربہ کار بولرز محمد عامر اور وہاب ریاض کی شمولیت کو ٹیم کےلیے خوش آئند قرار دے دیا۔ 

آئی سی سی کے اکاونٹ سے جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں انہوں نے کہا ہے کہ ماضی میں دونوں سینئرز کی کارکردگی دیکھی ہے، وہاب ریاض ورلڈکپ میں بولنگ کا تجربہ رکھتے اور محمد عامر ورلڈکلاس بولر ہیں،سینئرز کی شمولیت سے نوجوان بولرز کو محمد حسنین اور شاہین آفریدی بہت فائدہ ہوگا، محمد عامر اور وہاب ریاض کے مقابلے میں میرا تجربہ بھی کم ہے۔

 

The post حسن علی نےعامر اور وہاب کی شمولیت کو خوش آئند قراردیا appeared first on ایکسپریس اردو.

پی پی پی کا ایف آئی اے سے چیرمین نیب کی ویڈیو کے فرانزک ٹیسٹ کا مطالبہ

$
0
0

لاہور: پاکستان پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب کی ویڈیو کا ایف آئی اے سے فرانزک ٹیسٹ کرایا جائے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے چیئرمین نیب اسکینڈل کی مبینہ آڈیو اور ویڈیو ٹیپس کی فرانزک جانچ اور حقائق عوام کے سامنے لانےکا مطالبہ کر دیا۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی آفس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی مبینہ ویڈیو کے سامنے آنے سے ان کی اخلاقی پوزیشن خراب ہوئی ہے لیکن ان کی قانونی پوزیشن پر کوئی فرق نہیں پڑا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس خاتون نے چیئرمین نیب کو پھنسایا ہے۔

اعتزازاحسن کا کہنا تھا کہ ہمارے جج صاحبان کو بولنے کی بہت عادت ہو گئی ہے اس لئے چیئرمین نیب نے پہلے میڈیا سے گفتگو کی اور کہا کہ ہم حکومت کو گرتا نہیں دیکھنا چاہتے، ایسے بیانات سے چیئرمین نیب اپنی جانبداری پہلے ہی ثابت کرچکے ہیں، اور حالیہ ویڈیو میں بھی بظاہر چیئرمین نیب کی اپنی آواز لگتی ہے لیکن جب تک یہ بات حتمی طور پر ثابت نہ ہو جائے تب تک چیئرمین نیب کو شک کا فائدہ ملے گا اس کے لئے ایف آئی اے کے ذریعے ان ٹیپس کا فرانزک کروانا چاہیئے۔

ایک سوال کے جواب میں اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت کو اس کے اپنے کاموں کی وجہ سے ٹف ٹائم ملنے والا ہے کیونکہ یہ حکومت اپنی دشمن آپ ہے، مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے تو کہا ہے کہ انہوں  نے حکومت کو گرنے نہیں دینا اور ضرورت پڑی تو اپنے اراکین کو حکومت کی حمایت کا کہا جائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مریم نواز اور (ن) لیگ والے جانتے ہیں کہ موجودہ معاشی زبوں حالی اور مسائل میں ان کا اپنا بڑا ہاتھ ہے اسی لئے (ن)لیگ موقع ملنے پر بھی عمران خان کی جگہ نہیں سنبھالنا چاہتے کیونکہ موجودہ حالت سنبھالی نہیں جائے گی۔

 

The post پی پی پی کا ایف آئی اے سے چیرمین نیب کی ویڈیو کے فرانزک ٹیسٹ کا مطالبہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ورلڈکپ کے دوران حارث سہیل کے سوا کسی کی فیملی ساتھ نہیں ہوگی

$
0
0

ورلڈکپ کے دوران قومی کرکٹرز کو فیملی ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

انگلینڈ کیخلاف ون ڈے سیریز کے دوران کھلاڑیوں کے بیوی بچوں کو ہمراہ رکھنے پر کوئی ممانعت نہیں تھی، بعد ازاں قومی ٹیم کے منیجر طلعت نے سب کو آگاہ کردیا کہ وہ ورلڈکپ کے دوران فیملیز کو ساتھ نہیں رکھ سکتے،اگر کسی کھلاڑی کے بیوی بچے انگلینڈ میں رہنے کو ضروری سمجھتے ہیں تو ان کو سفر اور قیام طعام کا بندوبست خود کرنا ہوگا۔

ذرائع کے مطابق صرف حارث سہیل کو ذاتی وجوہات کی بناپر فیملی ساتھ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے،پی سی بی کے اس فیصلے کا مقصد ہے کہ کھلاڑی اپنی بھرپور توجہ طویل ورلڈکپ کے مقابلوں پر مرکوز رکھیں۔

The post ورلڈکپ کے دوران حارث سہیل کے سوا کسی کی فیملی ساتھ نہیں ہوگی appeared first on ایکسپریس اردو.

آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ایرانی وزیر خارجہ کی ملاقات

$
0
0

 راولپنڈی: پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ تمام اطراف سے خطے کو تصادم سے دور رکھنے کی کوششوں کی ضرورت ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایران کے وزیرخارجہ جاوید ظریف نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملاقات کی، ملاقات میں باہمی دلچسبی کے امور اور خطے کی صورتحال پر بات چیت کی گئی، اور ایرانی وزیر خارجہ نے خطے میں امن و استحکام کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔

اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمرجاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے، خطے کو تمام اطراف سے تصادم سے دور رکھنے کی کوششوں کی ضرورت ہے۔

 

The post آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ایرانی وزیر خارجہ کی ملاقات appeared first on ایکسپریس اردو.

تحریک انصاف سندھ میں ایک اور صوبہ بنانے کے خلاف ہے، وزیراعظم

$
0
0

کراچی: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ  پی ٹی آئی کے نئے بلدیاتی نظام کے تعارف کے بعد سندھ میں کسی تقسیم کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان سے سندھ میں تحریک انصاف کے اتحادی جماعتوں کے وفد نے ملاقات کی، وفد میں ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور پاکستان تحریک انصاف کے فردوس شمیم نقوی، خرم شیر زمان، حلیم عادل شیخ ، فیصل واؤڈا، اشرف قریشی، ارباب غلام رحیم، نندکمار، نصرت سحر عباسی، صدرالدین شاہ راشدی اور دیگر نے شرکت کی۔

ملاقات میں سندھ کی مجموعی و سیاسی صورتحال، سندھ میں وفاقی حکومت کی جانب سے جاری مختلف تر قیاتی منصوبوں اور اتحادی امور پرتبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کاکہنا تھا کہ تحریک انصاف سندھ میں ایک اور صوبہ بنانے کے خلاف ہے،  پی ٹی آئی کے نئے بلدیاتی نظام کے تعارف کے بعد سندھ میں کسی تقسیم کی ضرورت نہیں رہے گی۔

The post تحریک انصاف سندھ میں ایک اور صوبہ بنانے کے خلاف ہے، وزیراعظم appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹرمپ کا ایران کشیدگی کے تناظر میں عرب ممالک کو ہتھیار فروخت کرنے کا اعلان

$
0
0

 واشنگٹن: صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کی منظوری کے بغیر مشرق وسطیٰ میں خطرناک جنگی اسلحہ بھیجنے اور امریکی فوجی دستوں کی تعیناتی کی منظوری دے دی۔  

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تناؤ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں خطرناک جنگی اسلحے کی ترسیل کی منظوری دے دی ہے جس کی مالیت 8.1 ارب ڈالر بنتی ہے۔

علاوہ ازیں صدر ٹرمپ نے خطرناک جنگی اسلحے کے ساتھ ساتھ مزید امریکی فوجی دستے بھی مشرق وسطیٰ میں تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت 1500 سے زائد امریکی اہلکار بھیجے جائیں گے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دونوں متنازع فیصلے کانگریس کی منظوری کے بغیر اور اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے دی ہے۔ امریکا میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد سے صدر ٹرمپ کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیں : ایرانی دھمکیوں کے پیش نظر امریکی بمبار طیارہ قطر پہنچ گیا

دوسری جانب وائٹ ہاؤس ترجمان کا کہنا ہے کہ جزیرہ نما عرب کے مختلف ممالک کو امریکی فوجی اہلکاروں کے ساتھ  پیٹریاٹ میزائل اور لڑاکا جنگی جہاز کی فروخت کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امریکا کے اسٹریٹیجک مفادات کا تحفظ ہے۔

واضح رہے کہ ایران کی دھمکیوں کے بعد امریکا پہلے ہی قطر میں اپنے فوجی کیمپ میں ایک درجن  بی-52 ایچ اسٹریٹوفورٹریس طیارے اور ایک طیارہ بردار بحری بیڑا بھی بھیج چکا ہے۔

The post ٹرمپ کا ایران کشیدگی کے تناظر میں عرب ممالک کو ہتھیار فروخت کرنے کا اعلان appeared first on ایکسپریس اردو.


مریم اورنگزیب کا ملک محمد احمد خان کے بیان سے اظہار لاتعلقی

$
0
0

 اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے ن لیگ کے رہنما ملک محمد احمد خان کے چیئرمین نیب جاوید اقبال کے استعفیٰ سے متعلق بیان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے ن لیگ کے رہنما ملک محمد احمد خان کے بیان سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک محمد احمد خان صاحب نے جو کہا، وہ ان کی ذاتی رائے ہے اور ان کی رائے پارٹی موقف نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا چیئرمین نیب سے استعفیٰ کا مطالبہ

مریم اورنگزیب نے کہا کہ شہباز شریف اور سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی چیئرمین نیب سے متعلق واضح پارٹی موقف بیان کرچکے ہیں، چیئرمین نیب کے واقعہ سے متعلق پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جو سارے معاملے کی تحقیق کرے۔

واضح رہے کہ لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک احمد خان نے چیئرمین نیب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کے خلاف ہائی کورٹ جانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

The post مریم اورنگزیب کا ملک محمد احمد خان کے بیان سے اظہار لاتعلقی appeared first on ایکسپریس اردو.

عید کے بعد 3 وفاقی وزرا تبدیل کئے جائیں گے، شیخ رشید

$
0
0

 لاہور: وفاقی وزیر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ عید کے بعد وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں کا ٹریلر چلے گا اور 3 وفاقی وزیروں کی تبدیلی ہوگی۔

ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران شیخ رشید نے کہا کہ عید کے بعد وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں کا ٹریلر چلے گا، 3 وفاقی وزیروں کی تبدیلی ہوگی۔

اس سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرریلوے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ماس ٹرانزٹ کیلیے ریلوے کا کوئی رول نہیں ہے، ہم نے دونوں طرف سے ٹریک کو کلئیر کرکے دینا ہے، ایک ہفتے میں دو تین مرتبہ کراچی گیا ہوں، 43 میں سے 34 کلو میٹر کلئیر کر دیا گیا ہے، 30 مئی تک جی کمپنی لوکوموٹو ٹھیک کرنے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے جب کہ 7 ہزار بھرتیاں قرعہ اندازی سے کی جائے گی۔

وزیرریلوے نے کہا کہ عید کیلیے 3 اسپیشل ٹرینیں چلے گی اور فوج کے ساتھ معاہدہ ہوگیا تو 6 ٹرینیں چلے گی، عید کے روز سفر کرنے والے کو 50 فیصد ڈسکاونٹ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت مجھے نشانہ بنا رہی ہے، دنیا میں ایڈز ختم ہورہی ہے سندھ میں ایڈز پھیل رہی ہے، شہباز شریف کو این آر او کے بھیک مانتے دیکھا ہے،  (ن) لیگ چاہتی ہے ان کے کیس ختم ہوجائے، ان کی چیخیں نکل رہی ہیں، زرداری اور نواز دونوں ملے ہوئے ہیں، الیکشن ملک کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں اگر یہ زیادہ چیخیں تو شاید انہیں ضمانتں بھی نہ ملیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ مودی ایک ہندو دت کا نیا فلسفہ ہے اس نے ایک مسلمان کو سیٹ نہیں دی، اس نے سیکولر ویژن کو ختم کردیا ہے جب کہ انڈیا امریکہ کی گود میں چلا گیا ہے، مودی پاکستان کو اندر سے توڑنے کی کوشش کرے گا لیکن اگر جنگ ہوئی تو یوپی سی پی کا مسلمان باہر نکلے گا، کشمیری نے جینا مرنا ہے آج کشمیری اپنے جزبے کی طرف دیکھ رہا ہے۔

The post عید کے بعد 3 وفاقی وزرا تبدیل کئے جائیں گے، شیخ رشید appeared first on ایکسپریس اردو.

افغانستان میں ممتاز عالم دین کے قتل کا سراغ نہ مل سکا

$
0
0

کابل: افغانستان میں معروف عالم دین اور نیشنل علما کونسل کے رکن مولوی سمیع اللہ ریحان خطبہ جمعہ دیتے ہوئے بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے۔ 

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مشرقی علاقے میں مسجد تقویٰ میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے بم دھماکے میں مولوی سمیع اللہ ریحان جان بحق اور 19 نمازی زخمی ہوئے گئے تھے۔ مولوی ریحان حکومت نواز تھے اور ٹیلی وژن چینلز کے مذہبی پروگراموں میں پر باقاعدگی سے شرکت کرنے کی وجہ سے کافی مقبولیت رکھتے تھے۔

مولوی سمیع اللہ ریحان کی بم دھماکے میں ہلاکت پر افغان صدر اشرف غنی نے بھی مذمت کی تھی اور تحقیقاتی اداروں کو ملزمان کا تعین کر کے سخت سے سخت سزا دینے کی ہدایت کی تھی تاہم پولیس واقعے کے 24 گھنٹے بعد بھی دھماکے کی نوعیت تک کا پتہ لگانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ مولوی ریحان کے مداحوں اور علاقہ مکینوں نے پولیس کی سست روی کیخلاف شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔

حکومت نواز ہونے اور معتدل مزاجی کے باعث مولوی سمیع اللہ ریحان طالبان کی ہٹ لسٹ میں تھے اور اس سے قبل بھی ان پر کئی بار حملے ہوچکے ہیں تاہم وہ محفوظ رہے تھے۔ طالبان سمیت کسی بھی شدت پسند جنگو جماعت نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جس سے مسجد میں دھماکے کا معمہ مزید پراسرار ہو گیا ہے۔

The post افغانستان میں ممتاز عالم دین کے قتل کا سراغ نہ مل سکا appeared first on ایکسپریس اردو.

عابد علی کی جگہ جنید خان کیوں احتجاج کررہے ہیں؟

$
0
0

جنید خان کو ورلڈ کپ سے پہلے آزمائشی طور پر اہم سیریز کےلیے ٹیم میں شامل کیا گیا۔ روٹیشن پالیسی کے تحت انہیں انگلینڈ کے خلاف دو میچز میں موقع دیا گیا لیکن بدقسمتی سے کارکردگی صفر رہی۔ جنید خان دو میچز میں مجموعی طور پر اٹھارہ اوورز میں 142 رنز کے عوض صرف دو وکٹیں ہی حاصل کرسکے۔ اب موصوف منہ پر سیاہ پٹی باندھ کر احتجاج کر رہے کہ انہیں ورلڈ کپ سے باہر کیوں کیا گیا؟

مانا کہ انگلینڈ سے سیریز کے دوران باقی بولر بھی کچھ خاص نہیں کرسکے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تمام بولروں کو باہر بٹھا دیا جائے یا ایک مرتبہ پھر بے جان بولنگ اٹیک سے ورلڈ کپ کےلیے میدان میں اترنے کی غلطی کی جائے۔ اس سیریز کا مقصد ہی اپنے ہتھیاروں کی جانچ پڑتال تھی کہ کون کتنا مؤثر ہے اور انگلینڈ کی سرزمین پر کتنا سودمند ہوسکتا ہے۔

ورلڈکپ کے حتمی اسکواڈ میں فہیم اشرف اور جنید خان کی جگہ محمد عامر اور وہاب ریاض کو شامل کیا گیا ہے۔ عامر کو بے شک پچھلے کچھ میچز میں وکٹیں زیادہ نہیں ملیں لیکن ان کی فی اوور رنز دینے کی اوسط پانچ کے قریب ہے جو کہ بہت ہی عمدہ ہے۔ انگلینڈ کی موجودہ کنڈیشنز ایسی ہیں کہ جو بولر بلے بازوں کو بور کرنے کی مہارت رکھتا ہے، وہی کامیاب ہوگا۔ اب ظاہر ہے عامر اس شعبے میں جنید خان سے بہت بہتر ہے۔

جہاں تک وہاب ریاض کا تعلق ہے تو وہ ماضی قریب میں قومی ٹیم سے کچھ عرصہ دور رہے ہیں۔ تاہم وہاب ریاض کی کارکردگی بڑے ٹورنامنٹ میں ہمیشہ ہی متاثر کن رہی ہے۔ 2011 کے ورلڈ کپ میں جب سیمی فائنل مقابلے میں بھارت کے خلاف انہیں شعیب اختر پر ترجیح دی گئی تو انہوں نے انڈیا کے ہوم گراؤنڈ میں تباہ کن بولنگ سے اپنا انتخاب درست ثابت کیا۔

اسی طرح 2015 کے عالمی کپ میں آسٹریلیا سے کوارٹر فائنل میچ میں ان کا تاریخی اسپیل کون بھلا سکتا ہے۔ وہاب ریاض نے قومی ٹیم کے کم اسکور کے باوجود آسٹریلیا کو بالعموم اور شین واٹسن کو بالخصوص ناکوں چنے چبوائے۔ کون نہیں جانتا کہ وہاب ریاض جب شین واٹسن کے گرد گھیرا تنگ کرچکے تھے، اس موقع پر راحت علی اہم کیچ ڈراپ نہ کرتے تو نتیجہ کیا نکلتا۔

وہاب ریاض اور محمد عامر کا ٹیم میں شامل ہونا درست فیصلہ ہے جس سے نہ صرف بولنگ کا بے جان شعبہ مضبوط ہوگا بلکہ ٹیل اینڈرز میں شاداب خان اور وہاب ریاض کی موجودگی سے بوقت ضرورت قیمتی رنز بھی مل سکتے ہیں۔

سلیکشن کمیٹی نے وہاب ریاض اور محمد عامر کی شمولیت کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا ہے۔

کیا ہی بہتر ہوتا کہ مجموعی طور پر پچھتر سال کے دو بابوں میں سے کسی ایک کو بھی باہر بٹھا دیتے۔ آصف علی کو بطور مڈل آرڈر بیٹسمین شامل کیا گیا ہے اور مذاق یہ کہ ان کی جگہ اوپنر کی بلی چڑھادی گئی۔

احتجاج تو عابد علی کو کرنا چاہیے جنہیں دو چہیتوں پر قربان کر دیا گیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ محمد حفیظ اور شعیب ملک پاکستانی ٹیم کے وہ خوش قسمت ستارے ہیں جو بغیر کسی خاص آب و تاب، دنیائے کرکٹ کے افق پر موجود رہے ہیں۔ سلیکٹرز ان سے امیدیں لگائے اب بھی منتظر ہیں کہ نجانے کب یہ ٹوٹے ہوئے تارے چاند بن جائیں۔ اسی امید نے ایک مرتبہ پھر ایک مستند بلے باز اور اوپنر عابد علی کو ٹیم سے باہر کردیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post عابد علی کی جگہ جنید خان کیوں احتجاج کررہے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنے والے گروہ کے خلاف ریفرنس دائر

$
0
0

 لاہور: چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو بلیک میل کرنے والے گروہ کے خلاف ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کردیا گیا۔

نیب لاہور نے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سمیت دیگر لوگوں کو بلیک میل کرنے والے گروہ کے خلاف احتساب عدالت میں دائر کردیا ہے۔ ریفرنس 630 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں فاروق نول اور طیبہ گل کو مرکزی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

ریفرنس کے متن میں کہا گیا ہے کہ طیبہ گل اور فاروق نول کے خلاف نیب کو 6 شکایات موصول ہوئیں، ملزمان نے سادہ لوح شہریوں سے 2 کروڑ 44 لاکھ 50 ہزار روپے کا فراڈ کیا۔ ملزمان کیخلاف 36 گواہان نے نیب کو بیانات قلمبند کروائے۔ ایڈمن جج جواد الحسن نے ملزمان اور تفتیشی افسر کو 17 جون کےلیے نوٹسس جاری کردیے۔

The post چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنے والے گروہ کے خلاف ریفرنس دائر appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیائے کرکٹ میں نام کمانے والے وہ کھلاڑی جو اپنے ملک کو ورلڈکپ نہ جتواسکے

$
0
0

دنیائے کرکٹ میں نام کمانے والے وہ 10 کھلاڑی جو اپنے ملک کو ورلڈکپ نہ جتواسکے۔

آئی سی سی کی طرف سے ایک روزہ کرکٹ میں دنیا کے 10 ٹاپ کھلاڑیوں کی فہرست سامنے آ گئی، اپنے غیرمعمولی کھیل کی وجہ سے کروڑوں شائقین کے دلوں میں اترنے جانے والے یہ عظیم پلیئرز اس حوالے سے بدقسمت بھی رہے کہ اپنے کیریئر کے دوران کوئی بھی ورلڈ کپ اپنی ٹیموں کو نہ جتوا سکے۔ ان میں 3 پلیئرز کا تعلق جنوبی افریقہ، 2 کا تعلق پاکستان اور انگلینڈ جب کہ بھارت، سری لنکا اور ویسٹ اندیز کا ایک، ایک کھلاڑی شامل ہے۔

ان کھلاڑیوں میں انگلینڈ کے گراہم گوچ، این بوتھم، پاکستان کے وقار یونس، شاہد آفریدی، بھارت کے گنگولی، ویسٹ انڈیز کے برائن لارا، جنوبی افریقہ کے لانس کلوزنر، جیک کلیس، اے بی ڈویلیئرز اور سری لنکا کے کمارا سنگاکارا شامل ہیں۔

انگلینڈ کے گراہم کوچ نے ورلڈ کپ 1992ء میں انگلش ٹیم کی کپتانی بھی کی اور ان کی ٹیم فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہی تاہم ٹائٹل مقابلے میں انگلینڈ ٹیم کو پاکستان کے ہاتھوں 22 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، کوچ کو عالمی کپ کے مجموعی طور پر تین فائنل کھیلنے کا اعزاز بھی حاصل ہے لیکن بدقستمی سے وہ ایک بار بھی اپنی ٹیم کو عالمی کپ نہ جتوا سکے۔ انگلینڈ ہی کے این بوتھم کا شکار دنیا کے ممتاز آل راﺅنڈر میں ہوتا تھا، یہ بھی ورلڈ کپ 1992ء کے فائنل کھیلنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔

اسی طرح پاکستان کے وقار یونس کا شمار دنیا کے تیز ترین خطرناک بولرز میں ہوتا تھا،1992 کے ورلڈ کپ میں زخمی ہونے کی وجہ سے گرین شرٹس کا حصہ نہ بن سکے۔ اسی طرح صرف 37 گیندوں پر سنچری بنا کر عالمی شہرت رکھنے والے شاہد آفریدی بھی اس اعزاز سے محروم رہے، گو ان کی ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ میں شاندار پرفارمنس کی وجہ سے گرین شرٹس پہلی بار چیمپئن بننے میں کامیاب رہا لیکن یہ عظیم آل راﺅنڈر بھی ایک روزہ ورلڈ کپ کا ٹائٹل پاکستان کو نہ جتوا سکے۔

بھارت کے سابق کپتان سارو گنگولی نے 1999، 2003 اور 2007 میں اپنی ٹیم کی نمائندگی کی، انہوں نے 2003 ورلڈ کپ میں نہ صرف بھارتی ٹیم کی قیادت کی بلکہ 3 سینچریاں بھی بنائیں لیکن بلیو شرٹس عالمی کپ نہ جیت سکا، بھارت کی ٹیم دوسری بار 2011 کے ورلڈ کپ میں دھونی کی کپتانی میں عالمی چیمئن بنی۔

اسی طرح ویسٹ انڈیز کے برائن لارا کا شمار دنیا کے عظیم بیٹسمینوں میں ہوتا ہے، ویسٹ انڈیز کو تین ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے لیکن لارا ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کا حصہ نہ بن سکے۔ جنوبی افریقہ کے لانس کلوزر، جیک کلیس، سری لنکا کے سنگاکارا اور اے بی ڈویلیئرز بھی ٹیم میں رہتے ہوئے اپنی ٹیم کو ورلڈ کپ نہ جتوا سکے۔

The post دنیائے کرکٹ میں نام کمانے والے وہ کھلاڑی جو اپنے ملک کو ورلڈکپ نہ جتواسکے appeared first on ایکسپریس اردو.

وزیراعظم کی نیب کو بلیک میل کرنے کی مذمت کرتا ہوں، بلاول بھٹو زرداری

$
0
0

لاڑکانہ: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نیب کو بلیک میل کر رہے ہیں جس کی مذمت کرتا ہوں۔

لاڑکانہ میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹوزرداری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے رتو ڈیرو میں بچوں سمیت سیکڑوں افراد کے ایڈز مبتلا ہونے کے مسئلے پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ایچ آئی وی اور ایڈز میں بہت فرق ہے، ایچ آئی وی کا علاج نہ ہو تو دس سال بعد ایڈز کا مسئلہ ہوسکتاہے، لاڑکانہ اور رتوڈیرو میں ایچ آئی وی کی وبا نہیں ہے، ہر کسی کو آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ خود کو ایچ آئی وی سے بچا سکے۔

بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ ایچ آئی وی سزائے موت نہیں اس کا علاج ہوسکتاہے اور علاج موجود ہے، اس کیلیے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو انڈومنٹ فنڈبنانےکی ہدایت کی ہے، بیماری کی زد میں آنےوالوں کیلیے علاج کی سہولت پہنچانی ہوگی تاکہ یہ نہ پھیل سکے، ایچ آئی وی کے متاثرین کو زندگی بھرعلاج کی سہولت دی جائے گی۔

پی پی پی رہنما نے بڑھتی مہنگائی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت کی نالائقی کا بوجھ عوام اٹھا رہے ہیں، حکومت ٹیکس کمی کی وجہ سے گیس بجلی کے بل بڑھا رہی ہے، نیب گردی اور ایف آئی اے کا نظام چلنے سے تاجر خوفزدہ ہیں۔

چیرمین نیب کے خلاف ویڈیو اسکینڈل کے بارے میں بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ اس ویڈیو پر حکومت، وزیراعظم، ان کے عملے اور معاونین خصوصی کی مذمت کرتا ہوں، ہم پہلے سے کہتے آرہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نیب پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور زور زبردستی و دھمکی سے چلا رہے ہیں، لیکن اب وہ نیب کو بلیک میلنگ کرنے کی حد تک پہنچ گئے ہیں، وزیراعظم کی نیب کو بلیک میلنگ کی سیاست کی مذمت کرتا ہوں ، کیا یہ محض اتفاق ہے کہ صرف 2 چیلنز پر یہ خبر نشر ہوئی جنہیں وزیراعظم کے معاونین خصوصی چلاتے ہیں، نیب کا قانون آمر کا بنایا گیا کالا قانون ہے، جاوید چوہدری کو دیے گئے انٹرویو پر چیرمین نیب کے خلاف قانون کارروائی کے لیے وکلا سے مشورہ کررہے ہیں۔

اپوزیشن کے ساتھ افطار ڈنر سے متعلق سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ حکومت صرف ایک ہی افطار کی مار تھی، وزیراعظم ہاؤس سے چیخوں کی آوازیں آرہی ہیں۔

The post وزیراعظم کی نیب کو بلیک میل کرنے کی مذمت کرتا ہوں، بلاول بھٹو زرداری appeared first on ایکسپریس اردو.


مشکلات کے دن ختم، آنے والا سال استحکام کا سال ہوگا، مشیر خزانہ

$
0
0

 اسلام آباد: مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ مشکلات کے دن ختم ہونے والے ہیں اور آنے والا سال استحکام کا سال ہوگا۔

وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار، وزیر توانائی عمر ایوب، مشیراطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان، وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مشیرخزانہ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ جب حکومت آئی تو قرضہ 31 ہزار ارب سے بڑھ چکا تھا، گردشی قرضہ 38ارب تھا، زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے کم تھے، غیرملکی قرضہ 100 ارب ڈالر ہوچکا تھا، مالیاتی خسارہ 2 اعشاریہ 3 کھرب تھا۔

مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ حالات کو بگڑنے سے روکنے کیلئے اقدامات اٹھائے،  صورتحال کنڑول کرنے کے لئے دوست ممالک سے 9 اعشاریہ 2 ارب ڈالر لئے گئے، شرح سود کو مینج کیا، درآمدات کو کم کیا گیا، سرکلر ڈیبٹ میں 12 ارب روپے ماہانہ کمی لائی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اختلافات سے ہٹ کر یہ سوچنا چاہیے پاکستان کے لئے کیا بہتر ہے، مشکلات کے دن ختم ہونے جا رہے ہیں، ملک 6  سے 12 ماہ میں ملک استحکام کی طرف جائے گا، چین اور ترکی کے ساتھ تجارت بڑھانے کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں، آئی ایم ایف پروگرام میں جائیں نہ جائیں استحکام کے لیے خود ہی کچھ اقدامات کرنےچاہییں، اگر ہم ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ریونیو بڑھانا ہو گا۔

مشیرخزانہ نے بتایا کہ بجٹ میں ایسے فیصلے کریں گے جو ملک کو پائیدارترقی کی راہ پر ڈالے، آئندہ بجٹ میں مالی کفایت شعاری ہوگی اور حکومتی اخراجات کم سے کم رکھنے کی کوشش کریں گے، مالی کفایت شعاری میں سول اور فوج ایک ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ملک کے لئے سب سے پہلی چیز اس کی سرحدوں کی حفاظت ہے۔

حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ بجٹ میں 925 ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام دیا جا رہا ہے، بجٹ میں کمزور طبقہ کی حفاظت کریں گے اگر بجلی کی قیمت بڑھی بھی تو 300 یونٹ والوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا، احساس پروگرام کی رقم میں دگنا اضافہ کیا جا رہا ہے، کامیاب جوان پروگرام میں 100 ارب روپے رکھے جارہے ہیں، پسماندہ علاقوں کیلئے 50ارب روپے رکھیں گے۔

مشیر خزانہ نے بتایا کہ چئیرمین ایف بی آر کو اگلے سال کے بجٹ میں 5500 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف دے رہے ہیں،  کوشش ہو گی جو لوگ پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ان پر ڈالیں گے تو ٹیکس نہیں دیتے، حکومت نے نئے ذرائع سے ٹیکس نادہندگان کا ڈیٹا حاصل کیا ہے 28 ممالک سے 1لاکھ 52 ہزار پاکستانیوں کا ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے،  پاکستان میں صرف 20 لاکھ افراد،  10 فیصد اکاؤنٹ ہولڈر ٹیکس دیتے ہیں، 1 لاکھ رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے آدھی ٹیکس دیتی ہیں۔

حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام پر تنقید کرنے والوں کو کچھ پتا نہیں، کون سی حکومت ہے جو آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئی؟ آئی ایم ایف کا پروگرام معاشی اصلاحات کیلئے ہوتا ہے اور یہ ادارہ ممبرز ممالک کو قرضہ دینے کیلئے ہی بنایا گیا ہے جہاں سے سب سے کم شرح سود پر قرضہ ملتا ہے، آئی ایم ایف ایمنسٹی طرح کی اسکیموں کے حق میں نہیں، آئی ایم ایف بورڈ اگلے چند ہفتوں میں قرضے کی منظوری دے گا،  جب تک قرضہ کی منظوری نہیں ملے گی تفصیلات کا تبادلہ نہیں کرسکتے۔

The post مشکلات کے دن ختم، آنے والا سال استحکام کا سال ہوگا، مشیر خزانہ appeared first on ایکسپریس اردو.

فرانس میں خاتون 35 لاکھ یورو کے زیورات طیارے میں بھول گئی

$
0
0

لندن/ پیرس: فرانس میں ایک خاتون طیارے میں 35 لاکھ یورو ( ساڑھے 59 کروڑ پاکستانی روپے) کے زیورات چھوڑ کر چلی گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فرانس میں ایک خاتون قیمتی زیورات سے بھرا اپنا بیگ طیارے میں چھوڑ کرچلی گئی، خاتون جب  جنوبی فرانس میں نیس کے ایئرپورٹ سے باہر آئی تو اسے پتا چلا کہ وہ اپنا بیگ اور کوٹ جہاز میں ہی بھول آئی ہے، اس نے فوراً پولیس سے رجوع کیا تاہم پولیس حکام نے اتنی بھاری مالیت کے زیورات بھولنا مذاق سمجھا۔

فرانسیسی پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش میں پتا چلا ہے کہ تقریباً 35 لاکھ یورو مالیت کے زیورات جیولری ڈیزائنرز نے کینز فلم فیسٹول میں شریک برطانوی گلوکارہ ریٹا اورا کو پہننے کے لیے بھجوائے تھے۔

اس ضمن میں خاتون کو ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ گلوکارہ کو زیورات پہنچائیں تاہم خاتون زیورات طیارے میں ہی بھول گئیں جس پر حکام نے زیورات سے بھرا بیگ اسی طیارے کے ذریعے لندن کے لوٹون ایئرپورٹ اور وہاں سے ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچا دیا جہاں تمام جیولری ڈیزائنرز کو ان کے متعلقہ زیورات واپس مل گئے۔

The post فرانس میں خاتون 35 لاکھ یورو کے زیورات طیارے میں بھول گئی appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان میں پھیلتا خطرناک ایچ آئی وی وائرس

$
0
0

دس سالہ سلیم رتوڈیرو کا رہائشی ہے۔ یہ قصبہ صوبہ سندھ میں لاڑکانہ شہر سے 28کلو میٹر دور واقع ہے۔ سلیم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے۔ شادی کے دس سال بعد دن رات دعائیں مانگنے پر اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹا عطا فرمایا۔ یوں گھر کے سونے آنگن میں بہار آ گئی۔

ماں باپ اپنے بیٹے پر فدا ہونے لگے۔سلیم کا باپ کسان ہے۔ وہ اپنی تھوڑی سی زمین پر اناج اگاتا اور اسے بیچ کر گذر بسر کرتا ہے۔چند ماہ قبل سلیم بخار اور جسمانی درد میں مبتلا ہو گیا۔ وہ اسے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے دوا دی اور بچے کو انجکشن بھی لگایا۔ فارغ ہوکر باپ بیٹا گھر واپس آ گئے۔ ان کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس عمل کے باعث ایک موذی آفت نے انہیں آن گھیرا ہے۔

ڈیڑہ ماہ بعد سلیم کو پھر بخار ہو گیا ۔ اس بار حملہ کافی شدید تھا۔ باپ بیٹے کو لیے پھراسی ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ اس نے دوا دی اور پھر انجکشن لگایا مگر سلیم کو افاقہ نہ ہوا بلکہ بخار کی شدت بڑھ گئی۔ باپ قدرتاً پریشان ہوگیا۔اب وہ اسے لیے ڈاکٹر عمران اربانی کے پاس پہنچا ۔یہ ڈاکٹر تجربہ کار اور جہاں دیدہ تھا۔ اس نے بچے کا معائنہ کیا تو اسے شک ہوا کہ بچہ ’’ایچ آئی وی وائرس‘‘(human immunodeficiency virus) کا نشانہ بن چکا۔ بخار ہونے کے علاوہ سلیم کی زبان پر سفید دھبے نمودار ہو چکے تھے۔جلد پر بھی سرخ دھبے واضح تھے۔ وہ خاصا کمزور بھی ہو چکا تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر نے سلیم کے خون کا نمونہ لیا اور اسے برائے معائنہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی لیبارٹری بھجوا دیا۔

چند دن بعد لیبارٹری سے رپورٹ آئی، تو انکشاف ہوا کہ سلیم واقعی ایچ آئی وائرس کا شکار ہے۔ جب بچے کے ابا کو معلوم ہوا کہ اکلوتا بیٹا ایک ناقابل علاج بیماری میں مبتلا ہو چکا تو اس کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ وہ دھاڑیںمار کر رونے لگا۔ ڈاکٹر نے اسے دلاسا دیا کہ ادویہ کی مدد سے سلیم کو صحت مند رکھا جا سکتا ہے۔ اور یہ ادویہ حکومت اسے مفت دے گی۔ یہ سن کر والد کو کچھ تسلی ہوئی مگر بیٹے کی بیماری نے اسے نڈھال اور پریشان کر دیا تھا۔

ڈاکٹر نے سلیم کے ابا سے دریافت کیا کہ کیا وہ بچے کو کسی دوسرے معالج کے پاس لے گیا تھا؟ باپ نے بتایا کہ وہ سلیم کو فلاں ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا اور اس نے اسے انجکشن بھی لگایا۔ یہ بات سن کر ڈاکٹر عمران جان گیا کہ سلیم ایچ آئی وی وائرس کا نشانہ کیونکر بنا۔وہ ڈاکٹر دراصل عطائی تھا، محض ایک کمپاؤنڈر جو کمائی کے لالچ میں آ کر انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے لگا۔ وہ ڈاکٹر بن بیٹھا اور ناخواندہ و بے شعور لوگوں کا الٹا سیدھا علاج کرنے لگا۔ پیسے بچانے کی خاطر وہ اکثر مریضوں کو ایک ہی انجکشن سے ٹیکا لگاتا تھا اور اسے صاف کرنے کی بھی زحمت نہ کرتا۔(انجکشن کے اندر ایچ آئی وی وائرس ’’28‘‘دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔)

اس نے سلیم کو جو انجکشن لگایا، اس سے پہلے ایڈز کے ایک مریض کا خون نکالا گیا تھا۔ یوں انجکشن یا سوئی کی سطح سے ایچ آئی وی وائرس چمٹ گیا۔ اور جب عطائی نے اس انجکشن سے سلیم کو دوائی کا محلول دیا تو وائرس بچے کے جسم میں داخل ہو گیا۔پولیس اس عطائی کو گرفتار کر چکی ۔ عطائی پر الزام ہے کہ وہ کئی بچوں کو ایچ آئی وی وائرس کا شکار بنا چکا۔ یوں اس ظالم ‘ لالچی اور بے حس انسان نے بہت سے معصوم اور بے گناہ بچوں کی زندگیاں جہنم بنا دیں اور انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ ایسے ہی شیطان صفت لوگ انسانی معاشروں میں کلنک کے ٹیکے جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔

دراصل جب جہاں دیدہ ڈاکٹر کے پاس بیماری کی ملتی جلتی علامات لیے کئی بچے پہنچے تو اس نے سبھی کا خون برائے معائنہ سرکاری لیبارٹری بھجوا دیا ۔یوں ڈاکٹر عمران واقعی مسیحا ثابت ہوا۔رپورٹیں آنے پر پتا لگا کہ اکثر بچوں کے بدن میں ایچ آئی وی وائرس پنپ رہا ہے۔ اس اطلاع نے رتوڈیرو ہی نہیں پورے ضلع لاڑکانہ میں تشویش و پریشانی کی لہر دوڑا دی۔ حکومت سندھ پھر مختلف بچوں بڑوں کا معائنہ کرانے لگی تاکہ معلوم ہو سکے، ضلع میں کتنے افراد ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہو چکے۔ یہ تحریر قلم بند ہونے تک ’’393 ‘‘ مریض سامنے آچکے۔ ان میں سے ’’312‘‘ بچے ہیں جو نہایت پریشان کن بات ہے۔صورت حال سے عیاں ہے کہ یہ خطرناک وائرس قوم کے مستقبل کو نشانہ بنانے لگا ہے،ان بچوں کو جنھوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔

جس کا کوئی علاج نہیں

ایچ آئی وی بنیادی طور پر چیمپنزی بندر کو نشانہ بنانے والا وائرس ہے۔ افریقہ میں بہت سے لوگ ان بندروں کا گوشت کھاتے ہیں۔ لہٰذا وہ بھی اس وائرس کا شکار ہو گئے۔ افریقی باشندوں کے ذریعے پھر یہ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ یہ وائرس انتقال خون ‘ جسمانی ملاپ اور شیرِ مادر کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہوتا ہے ۔ وائرس انسانی جسم کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے والے ٹی خلیے (T cell)مار ڈالتا ہے۔ ان خلیوں کی عدم موجودگی سے انسان پھر مختلف خطرناک امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ بیماریوں کا نشانہ بننے کی کیفیت ’’ایڈز‘‘ کہلاتی ہے۔ ایڈز کا کوئی علاج نہیں اور اس میں مبتلا انسان آخر کار سسک سسک کر قبر میں پہنچ جاتا ہے۔

یہ 1987ء کی بات ہے‘ جب پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا حامل پہلا مریض سامنے آیا۔ تب سے پاکستان میں ایسے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جو نہایت خطرناک بات ہے۔ وجہ یہی کہ یہ وائرس جس انسان کے جسم میں داخل ہو جائے تو پھر ساری زندگی اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ مریض کو تاعمر خصوصی ادویہ کھانا پڑتی ہیں تاکہ وائرس اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔ مریض جیسے ہی ادویہ چھوڑے یا انہیں لینے میں کوتاہی برتے‘ تو ایچ آئی وی وائرس چند ہفتوں میں سرگرم ہو جاتا ہے۔ یہ وائرس پھر ٹی خلیوں پر حملہ کر کے نہایت تیزی سے اپنی نقول تیار کرتا اورانسانی مامون نظام (immune system) تباہ و برباد کرنے لگتا ہے۔ تب کوئی دوا اس وائرس کا راستہ روک نہیں پاتی۔

وطن عزیز میں ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ نہایت تشویش ناک امر ہے۔ وجہ یہ کہ اکثر موذی بیماریاں مثلاً کینسر، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، امراض قلب، فالج، امراض تنفس وغیرہ ایک انسان سے دوسرے کو منتقل نہیں ہوسکتیں۔ مگر ایچ آئی وی وائرس اور ہیپاٹائٹس سی کے وائرس مریض سے صحت مند انسانوں میں منتقل ہوکر ان کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اسی لیے ایچ آئی وائی نہایت خطرناک وائرس ہے اور پاکستانی معاشرے میں اس کے پھیلنے کا مطلب ہے کہ ہمارے کروڑوں بچے بڑے اس کی زد میں آچکے ۔

انجکشن کا ناروا استعمال

دنیائے مغرب اور بہت سے مشرقی ممالک میں خواہش نفس کی تسکین سے یہ موذی وائرس مریض سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس پھیلنے کے بنیادی اسباب مختلف ہیں۔ جائز ناجائز ملاپ بھی ایک سبب ہے مگر اس کی اہمیت زیادہ نہیں۔ماہرین کے نزدیک پاکستان میں ایچ آئی وائی وائرس پھیلنے کی بڑی وجہ انجکشن کا ناروا استعمال ہے۔لہذا یہ یقینی بنانا ہر شخص کے ضروری ہے کہ ڈاکٹر یا نرس مریض پہ نیا انجکشن اور سوئی ہی استعمال کر رہی ہے۔ انجکشن کے ذریعے منشیات لینے والے نشئی اکثر ایک دوسرے کی سرنج استعمال کرتے ہیں۔ یوں ایچ آئی وائی وائرس کا شکار نشئی اپنا وائرس صحت مند انسان کے بدن میں منتقل کر دیتا ہے۔ بہت سے نشئی اپنا خون بیچ کر پیسہ کماتے ہیں۔ایسے لوگ اکثر غیر قانونی بلڈ بینک میں جا کر اپنا خون بیچتے ہیں۔ یہ بلڈ بینک غریبوں کو کم قیمت پر خون فروخت کرتے ہیں۔ یوں نشئی کا وائرس زدہ خون دوسرے انسانوں کے جسم میں بھی دوڑنے لگتا اور انہیں بھی ایچ آئی وی کا مریض بنا دیتا ہے۔

عطائی ڈاکٹر بھی ایچ آئی وی وائرس پاکستانی قوم میں پھیلانے کا بڑا ذریعہ بن چکے ۔ یہ خصوصاً دیہی معاشرے میں جابجا ملتے ہیں۔ مثلاً رتوڈیرو میں ایچ آئی وی وائرس میں مبتلا کئی مریض سامنے آئے‘ تو کمشنر ضلع لاڑکانہ نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ضلع میں چار سے پانچ ہزار عطائی سرگرم ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں، انہی کی وجہ سے دیہی سندھ میں ایچ آئی وی وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ضلع شکار پور میں بھی وائرس کا نشانہ بنے لوگ دریافت ہو چکے۔یہ عطائی لیبارٹریوں، کلینکوں، بلڈ بینکوں ،میٹرنٹی ہوموں وغیرہ کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں موت بانٹتے پھرتے ہیں۔

قبل ازیں بتایا گیا کہ یہ عطائی رقم بچانے کے لیے ایک ہی انجکشن کئی مریضوں پر استعمال کرتے ہیں۔ مگر یہ نہایت خطر ناک عمل ہے۔ ایک ہی انجکشن کے بار بار استعمال سے ایچ آئی وی ہی نہیں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے وائرس بھی مریض سے صحت مند انسان کے بدن میں منتقل ہوتے اور اس کی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ افسوس پیسے کا لالچ انسان کو حیوان بنانے لگا ہے۔بعض ماہرین کا مطالبہ ہے کہ کلینکوں میں انجکشن لگانے پر پابندی لگائی جائے تاکہ ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔

پاکستان کے دیہات میں جہالت اور غربت کا دور دورہ ہے۔ وہاں کے باسی شعور نہ ہونے پر عطائی اور مستند ڈاکٹر کے مابین تمیز نہیں کرپاتے۔ حیرت یہ ہے کہ شہروں میں بھی کئی تعلیم یافتہ عطائیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ یہ تشویش ناک صورتحال جنم لینے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اکثر پڑھے لکھے پاکستانی بھی نہیں جانتے کہ ایچ آئی وی وائرس کیا ہے، یہ کیسے پھیلتا ہے اور اس سے بچاؤ کے کیا طریقے اختیار کیے جائیں۔

افسوس کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بھی پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سرگرمی سے مہم نہیں چلائی۔ میڈیا کے ذریعے عوام کو اس وائرس کی بابت شاذونادر ہی معلومات دی جاتی ہیں۔ لہٰذا عام لوگ یہی نہیں جانتے کہ کن طریقوں سے اس خطرناک وائرس کا پھیلاؤ روکنا ممکن ہے۔ اسی باعث پاکستان میں یہ وائرس ایک سے دوسرے اور تیسرے چوتھے تک پھیلتا چلا جارہا ہے۔یہ نہایت ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام میںاس خونی وائرس سے آگاہی پھیلانے کے لیے زوردار مہم چلائیں۔

وائرس کے اعدادوشمار

وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اعدادو شمار کی رو سے پاکستان میں ’’ڈیڑھ لاکھ‘‘ سے زیادہ افراد ایچ آئی وی وائرس کے حامل ہیں۔ ان میں سے 75 ہزار صوبہ پنجاب، 60 ہزار صوبہ سندھ، 15 ہزار صوبہ خیبرپختونخواہ اور 5 ہزار صوبہ بلوچستان میں آباد ہیں۔ مگر یہ عدد زیادہ ہوسکتا ہے کیونکہ عموماً سرکاری اعدادو شمار حقیقی تصویر سامنے نہیں لاتے۔ ماہرین کی رو سے دو تا ڈھائی لاکھ پاکستانی ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہوچکے۔

دسمبر 2018ء میں اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (World Health Organization) نے پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی جو خوفناک انکشافات سامنے لائی۔ اس کے مطابق پاکستان میں ہر سال ’’بیس ہزارپاکستانی‘‘ ایچ آئی وی وائرس کا شکار بن رہے ہیں۔ اور اگر صورتحال یہی رہی، تو مستقبل میں متاثرہ افراد کی سالانہ تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ رپورٹ کی رو سے پاکستان میں وائرس میں مبتلا صرف ’’9 فیصد مریض‘‘ اپنا علاج کروارہے ہیں۔

ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ پاکستانیوں کی اکثریت غریب اور ناخواندہ ہے۔ اکثر نہیں جانتے کہ ان کے بدن میں موت پنپ رہی ہے۔ مزید براں بہت سے پاکستانی وائرس کی بابت جان بھی جائیں تو یہ خبر پوشیدہ رکھتے ہیں۔وجہ یہ کہ پاکستانی معاشرے میں ایڈز سے متاثرہ شخص کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حقیقتاً روزمرہ زندگی میں مریض کو سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لیکن ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ ہزارہا پاکستانی کرہ ارض پر بستے موت کے فرشتوں کے مانند ہیں۔ وہ جانے انجانے میں اپنی موت کا سبب دوسروں میں بھی تقسیم کررہے ہیں۔ بعض تو باغی بن کر دانستہ معاشرے کو نقصان پہنچاسکتے ہیں تاکہ کسی قسم کا انتقام لے سکیں۔ مثلاً رتوڈیرو کے رہائشی ڈاکٹر مظفر پر الزام لگا ، اس نے انتقاماً کئی بچوں میں اپنا ایچ آئی وی وائرس منتقل کردیا۔ وہ ذہنی مریض بتایا جاتا ہے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ لوگوں کو مفت علاج میسر ہے، مگر بہت کم پاکستانی اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کئی مریضوں کو علم ہی نہیں کہ حکومت مفت علاج فراہم کرتی ہے اور دیگر مریض شرم یا خوف کے مارے علاج نہیں کراتے اور سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں۔

پُر اسرار اور انوکھا وائرس

ایچ آئی وی وائرس کی دو اقسام ہیں:وائرس 1 اوروائرس -2 وائرس 1 کی مزید چودہ ذیلی اقسام (Subtypes) ہیں۔ خیال ہے کہ ایچ آئی وی وائرس 1 کی ذیلی قسم سی (C) اور ای (E) کے مریض بھارت، پاکستان،بنگلہ دیش اور سری لنکا میں موجود ہیں۔دنیا میں تین کروڑ ستر لاکھ انسان اپنے جسم میں ایچ آئی وی وی وائرس رکھتے ہیں۔ ان میں سے ’’90 فیصد‘‘ وائرس 1 سے متاثر ہیں۔ان میں سے ’’پچیس تا تیس فیصد‘‘ متاثرہ مردوزن اور بچے نہیں جانتے کہ ان کے بدن میں ایک خطرناک وائرس داخل ہوچکا۔

ایچ آئی وی وائرس خاصا پُر اسرار اور انوکھا ہے۔ وجہ یہ کہ کبھی تو وہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد انفلوئنزہ مرض جیسی علامات پیدا کردیتا ہے ۔مگر کبھی خاموش پڑا رہتا اور کئی سال بعد نظام مامون کے ٹی خلیوں کو تباہ و برباد کرنا شروع کرتا ہے۔ بہرحال ’’40 سے 90 فیصد‘‘ انسانوں کے بدن میں یہ وائرس داخل ہو، تو وہ دو سے چار ہفتوں بعد بخار، جسمانی سوجن، تھکن، سردرد اور گلے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ اکثر جسم پر دھبے پڑھ جاتے ہیں۔ یہ حالت طبی اصلاح میں’’ایکیوٹ انفیکشن‘‘( Aucte Infection )کہلاتی ہے۔عام طور پر ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ یہ کسی چھوٹی بیماری کی علامات ہیں۔ لہٰذا وہ مروجہ ادویہ سے ان کا علاج کرتے ہیں۔ کم ہی ڈاکٹر جان پاتے ہیں کہ ایچ آئی وی وائرس یہ علامات پیدا کررہا ہے۔ خوش قسمتی سے یہ بات معلوم ہوجائے، تو پھر مخصوص ادویہ سے وائرس کو برتا جاتا ہے۔

اگر بدقسمتی سے ایکیوٹ انفیکشن دور یا پہلے مرحلے میں وائرس دریافت نہ ہوسکے، تو پھر دوسرا مرحلہ جنم لیتا ہے جسے طبی زبان میں ’’کلینکل لیٹینسی‘‘(clinical latency) کہتے ہیں۔ یہ مرحلہ تین سال سے بیس سال کے درمیان رہتا ہے۔ اوسط مدت آٹھ سال ہے۔ اس مرحلے کے آخر میں بہت سے مریض بخار، وزن میں کمی، امراض معدہ اور عضلات میں درد سے دوچار رہتے ہیں۔ 50 سے 70 فیصد مریضوں کے لمفی غدود سوج جاتے ہیں۔جب مریض کے جسم میں ٹی خلیے بہت کم رہ جائیں، تو تیسرے اور آخری مرحلے یعنی ’’ایڈز‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دور میں مریض مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر رفتہ رفتہ موت کے منہ میں جانے لگتا ہے۔ اب کوئی علاج کام نہیں آتا اور جلد قبر اس کا آخری ٹھکانا بن جاتی ہے۔

شناخت اور علاج

اللہ نہ کرے کوئی ہم وطن ایچ آئی وی وائرس کا نشانہ بن جائے۔ لیکن اگر یہ وائرس کسی کے جسم میں داخل ہوچکا اور وہ اپنی علامات (بخار، تھکن، جسمانی دھبے وغیرہ) پیدا کرنے لگا ہے تو گھبرائیے مت اور فوراً سرکاری ادارے، نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے کسی سینٹر سے رجوع کیجیے۔حکومت پاکستان نے 1987ء میں یہ سرکاری ادارہ قائم کیا تھا تاکہ وطن عزیز میں ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز کا پھیلاؤ روکا جاسکے۔ ادارے کے تحت ملک بھر میں ’’35‘‘ طبی مراکز کھولے جاچکے۔ ان مراکز میں نہ صرف ایچ آئی وی وائرس کی شناخت کا ٹیسٹ مفت ہے بلکہ مریض ہونے کی صورت میں پاکستانی شہریوں کا مفت علاج بھی ہوتا ہے۔ ایسے 19 مراکز صوبہ پنجاب، 9 صوبہ سندھ، 3 صوبہ خیبرپختون خواہ، 2 بلوچستان اور 2 وفاقی علاقے میں کام کررہے ہیں۔ ان کا نام و پتا ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔یہ نہایت ضروری ہے کہ ایسے مزید طبی مراکز دیگر علاقوں میں کھولے جائیں تاکہ پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ موثر انداز میں روکا جاسکے۔

جب خدانخواستہ ایچ آئی وی وائرس انسانی جسم میں داخل ہوجائے، تو وہ ٹی خلیوں پر حملہ آور ہوکر پہلے انہیں مارتا پھر ان کی مدد سے اپنی نقول تیار کرتا ہے۔ یوں وائرس آخر کار اپنی فوج تیار کرلیتا ہے۔ ہمارا جسم یہ فوج مارنے کے لیے خاص پروٹینی مادے بناتا ہے جنہیں ضد جسم یا اینٹی باڈیز (Antibodies) کہتے ہیں۔ ایچ آئی وی وائرس ٹیسٹ میں خون میں موجود انہی اینٹی باڈیز کو شناخت کیا جاتا ہے۔ہمارا جسم ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہونے کے بعد تین سے چار ماہ میں اتنے زیادہ پروٹینی مادے (اینٹی باڈیز) بنالیتا ہے کہ وہ بذریعہ ٹیسٹ شناخت ہوجائیں۔ اسی لیے یہ ٹیسٹ اسی وقت کارآمد ثابت ہوتا ہے جب وائرس کو انسانی جسم میں بسیرا کیے تین ماہ ہوجائیں اور وہ سرگرم یعنی ایکٹو بھی ہو۔

ایچ آئی وی وائرس کی شناخت کے لیے مختلف ٹیسٹ ایجاد ہوچکے تاہم دنیا بھر میں اینٹی باڈیز کی کھوج لگانے والے ٹیسٹ ہی زیادہ کیے جاتے ہیں۔ وجہ یہ کہ یہ ٹیسٹ آسان اور کم قیمت ہیں۔ نیز نتیجہ بھی جلد مل جاتا ہے۔ اب تو اینٹی باڈیز ٹیسٹ کی ایسی کٹس ایجاد ہوچکیں جن کی مدد سے انسان گھر پر ہی وائرس شناخت کرسکتا ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ نیشنل ایڈز کنٹرول کے کسی طبی مرکز سے یہ ٹیسٹ کرایا جائے۔

بدقسمتی سے یہ خبر ملے کہ مریض کے بدن میں وائرس داخل ہوچکا، تو پھر اس کے مزید مختلف ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ ان ٹیسٹوں کی مدد سے دیکھا جاتا ہے کہ جسم میں ٹی خلیوں کی کتنی تعداد ہے۔ خون میں وائرس کی کتنی زیادہ نقول جنم لے چکیں اور یہ کہ وائرس کی قسم 1 ہے یا 2 ۔اگر قسم 1 ہے تو پھر اس کی ذیلی قسم جاننے کے لیے ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس ذیلی قسم کا جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ تبھی معلوم ہوتا ہے کہ وائرس کنٹرول میں رکھنے کی خاطر مریض کو کس قسم کی ادویہ دینی ہیں۔

جب ایچ آئی وی وائرس سے متعلق ساری بنیادی معلومات مل جائیں تو پھر علاج شروع ہوتا ہے۔ اب مریض کو ایک یا زیادہ ادویہ روزانہ کھانا ہوتی ہیں۔ جب وائرس ایک بار جسم میں داخل ہوجائے، تو پھر وہ باہر نہیں نکل سکتا اور نہ ہی اسے مارنا ممکن ہے۔ لہٰذا مریض کو ساری عمر ادویہ کھانا ہوں گی۔ تبھی وہ نہ صرف زندہ بچے گا بلکہ عام انسانوں کے مانند صحت مندانہ زندگی بھی گزار لے گا۔ روزانہ ادویہ کھانا مشکل کام ہے مگر انسان کو اپنی زندگی محفوظ کرنے کی خاطر اسے اپنانا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر ہر چار پانچ ماہ بعد مریض کے خون کے ٹیسٹ بھی لیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ خون میں اینٹی باڈیز، ٹی خلیوں اور وائرس کی نقول کی تعداد جانی جاسکے۔ اگر ادویہ موثر انداز میں کام کررہی ہیں، تو خون میں خصوصاً وائرس کی نقول بہت کم ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات وہ ٹیسٹ میں شناخت ہی نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایچ آئی وی وائرس مریض کے جسم سے اڑن چھو ہوچکا، وہ اب بھی موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا مریض صحت مند انسانوں کو وائرس منتقل کرسکتا ہے۔ اسی لیے اسے اور اس کے اہل خانہ وغیرہ کو احتیاط کرنی چاہیے کہ مریض کے بدن سے وائرس کسی اور کے جسم میں نہ جانے پائے۔

یہ واضح رہے کہ ایچ آئی وی وائرس کو کنٹرول کرنے والی بعض ادویہ ضمنی اثرات بھی رکھتی ہیں۔ ان اثرات میں یہ نمایاں ہیں: متلی آنا، ہڈیوں کا بھربھرا ہوجانا، خون میں شکر کی سطح بڑھ جانا، دل کے مسائل جنم لینا اور جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کا بڑھنا۔ اگر ضمنی اثرات شدید ہوجائیں، تو کبھی کبھی ادویہ تبدیل کرنا پڑتی ہیں۔ایچ آئی وی وائرس قابو کرنے والا علاج طبی اصطلاح میں ’’اینٹیریٹرو وائرل تھراپی‘‘ ( Antiretroviral therapy) یا اے آر ٹی کہلاتا ہے۔ اسی لیے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے طبی مراکز بھی اے آر ٹی سینٹر کہلاتے ہیں۔ ان طبی مراکز میں تھراپی کی مختلف ادویہ مفت دستیاب ہیں۔ اگر مریض ایڈز کا شکار ہوچکا، تو اسے ہسپتال داخل کرلیا جاتا ہے۔

ماضی میں ایچ آئی وی وائرس ایک ڈراؤنے خواب کی حیثیت رکھتا تھا۔ وجہ یہ کہ تب اسے کنٹرول کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے جو انسان وائرس کا نشانہ بنتا، وہ جلد یا بدیر موت کے گھاٹ اتر جاتا۔ لیکن اب مختلف ادویہ کی مدد سے موذی وائرس کو کنٹرول کرنا ممکن ہوچکا۔ لہٰذا بدقسمتی سے جو پاکستانی اس وائرس کا نشانہ بن جائے، وہ پریشان نہ ہو، بذریعہ علاج اور مناسب نگہداشت سے وہ صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔

دوران علاج یہ ضروری ہے کہ مریض اپنے ڈاکٹر سے مسلسل رابطہ رکھے۔ ڈاکٹر جو ادویہ تجویز کرے، وہی استعمال کرے۔ نسخے کے مطابق ہی دوا کھائے، ڈاکٹر جس غذا سے پرہیز بتائے، وہ استعمال نہ کرے۔ معالج کی ہدایات پر عمل کرکے مریض تندرستی کی دولت پاسکتا ہے۔آخر میں وفاقی حکومت اور خصوصاً سندھ و پنجاب کی صوبائی حکومتوں سے اپیل ہے کہ وہ عام پاکستانیوں تک ایچ آی وی وائرس کی بنیادی معلومات پہنچانے کے لیے پرنٹ، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر سرگرم مہم چلائیں۔ آگاہی عام ہونے کی بدولت ہی کروڑوں پاکستانی اس خطرناک وائرس سے بچ سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں یہ وائرس رفتہ رفتہ لاکھوں پاکستانیوں کو اپنا شکار بناکے ہمارا پاکستانی معاشرہ تباہ بھی کرسکتا ہے۔

وائرس سے بچاؤ کے طریقے

مریض کے ساتھ بیٹھنے، ہاتھ ملانے، گلے لگانے، اس کے برتن استعمال کرنے سے ایچ آئی وی وائرس صحت مند انسان میں منتقل نہیں ہوتا۔ اسی طرح مچھر اور دیگر حشرات بھی مریض کا خون چوس کر وائرس دیگر انسانوں میں منتقل نہیں کرسکتے۔یہ پانی اور غذا سے بھی منتقل نہیں ہوتا۔تاہم مریض کے وہ آلات استعمال نہ کیجیے جو اس کے جسم میں داخل کیے جائیں۔ وائرس صرف انتقال خون(Blood transfusion)، مخصوص جسمانی مادوں اور ماں کے دودھ کے ذریعے دوسرے انسانوں کے بدن میں داخل ہوتا ہے۔

پاکستان میں ایک انجکشن کے بار بار استعمال کے علاوہ انتقال خون کا عمل بھی ایچ آئی وی وائرس پھیلانے میں بڑا مجرم بن چکا۔ دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ جب کسی انسان کا خون نکالا جائے، تو کسی دوسرے کو دینے سے قبل اسے اسکریننگ ٹیسٹ سے گزارا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں دیکھا جاتا ہے کہ خون میں ایچ آئی وی وائرس، ہیپاٹائٹس سی اور بی کے وائرس اور دیگر ایسی بیماریوں کے وائرس و جراثیم تو موجود نہیں جو خون کے ذریعے پھیلتی ہیں۔

خون کا اسکریننگ ٹیسٹ انجام دینے کے لیے ایک کٹ ملتی ہے۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ بہت سی لیبارٹریاں اور بلڈ بینک پیسے بچانے کے لیے سستی اور غیر رجسٹرڈ کٹس اسکریننگ ٹیسٹ میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ کٹس عموماً خون میں پوشیدہ خطرناک وائرس اور جراثیم دریافت نہیں کرپاتیں۔ یوں خون محفوظ قرار پاتا ہے حالانکہ اس میں خطرناک ایچ آئی وی وائرس موجود ہو سکتا ہے جو صحت مند انسان کے بدن میں پہنچ کر اسے بھی چمٹ جاتا ہے۔

وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو یہ قانون بنانا چاہیے کہ تمام لیبارٹریاں اور بلڈ بینک اسکریننگ ٹیسٹ کے لیے صرف معیاری اور رجسٹرڈ شدہ کٹس ہی استعمال کریں۔ یہ نہایت افسوسناک امر ہے کہ لوگوں کی قیمتی زندگیوں سے کھیلنے والی غیر معیاری اور سستی کٹس مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ ان کٹس پر فوراً پابندی عائد ہونی چاہیے۔ معیاری کٹ دو ڈھائی سو میں ملتی ہے جبکہ سستی کٹ بیس پچیس روپے میں بھی مل جاتی ہے۔

حکومت پاکستان نے منتقلی خون کا عمل صاف شفاف بنانے کی ایک سرکاری ادارہ، سیف بلڈ ٹرانس فیوژن پروگرام بنا رکھا ہے۔ چند سال قبل ادارے کے سربراہ، پروفیسرڈاکٹر حسن عباس ظہیر نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں سالانہ تقریباً چالیس لاکھ انتقال خون کے عمل انجام پاتے ہیں اور ان میں سے ساٹھ تا ستر فیصد میں غیر معیاری و سستی کٹس استعمال ہوتی ہیں۔گویا پاکستان میں خون کا اسکریننگ ٹیسٹ انجام دیتے ہوئے معیاری کٹس استعمال ہوں، تو مریض سے ایچ آئی وی وائرس کی دوسرے شخص تک منتقلی کا عمل بہت کم ہوسکتا ہے۔ معیاری ٹیسٹ کے باعث ایچ آئی وی وائرس کا حامل خون ناکارہ قرار پائے گا۔

پاکستان میں حجام بھی ایچ آئی وی وائرس کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ہے۔ بعض حجام پیسے بچانے کی خاطر شیو کرنے یا بال کاٹنے کے دوران ایک ہی بلیڈ استعمال کرتے ہیں۔ اگر مریض کا خون بلیڈ پر لگ جائے تو پھر اس سے وائرس باآسانی صحت مند گاہکوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آپ حجام سے اصرار کریں کہ وہ نیا بلیڈ استعمال کرے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ اپنا بلیڈ خرید لیں اور حجام اسی سے خط بنائے۔

فحاشی اور منشیات کے اڈے بھی ایچ آئی وی وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں۔ ہر پاکستانی کو چاہیے کہ وہ ان اڈوں میں جانے سے پرہیز کرے ورنہ زندگی بھر کے روگ اسے چمٹ سکتے ہیں۔ فطری طریقوں سے خواہش پوری کرنے میں ہی بھلائی ہے جبکہ غیر فطری طریقے اپنانے سے انسان ہمیشہ گھاٹے میں رہتا ہے۔

The post پاکستان میں پھیلتا خطرناک ایچ آئی وی وائرس appeared first on ایکسپریس اردو.

زکوٰۃ مستحقین تک پہنچائیں

$
0
0

جوہر ٹاؤن لاہور کی ایک کوٹھی کے باہر مردوں اورخواتین کا رش لگا ہوا تھا ۔ یہ لوگ صبح سویرے ہی یہاں پہنچ گئے تھے کہ ہر سال رمضان کی تین تاریخ کو یہاں زکوٰۃ تقسیم کی جاتی تھی، کوئی وقت مقرر نہیں تھا اس لئے لوگ سویرے ہی پہنچ جاتے تھے ان میں اکثریت ان خواتین و حضرات کی ہوتی تھی،جو اپنے دیہی علاقوں سے شہروں میں ’’رمضان سیزن ‘‘ لگانے کیلئے آتے ہیں۔

رمضان آتے ہی لاہور اور دوسرے شہری علاقوںمیں گداگروں اور مانگنے والوں کی بہتات نظر آتی ہے یہ لوگ پورا مہینہ زکوٰۃ،صدقات اور خیرات اکٹھی کرکے عید سے پہلے یا بعد میں اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں، اسی کوٹھی کے باہر سے گزرتے ہوئے ایک صاحب نے حسرت سے کو ٹھی مالکان کی ’’دریا دلی ‘‘ دیکھی تو آبدیدہ ہوئے، یہ صاحب کوٹھی کے مالک کے سگے بھائی ہیں ان کی بیوی بیمار ہوئی تو پیسہ پانی کی طرح خرچ ہوا، کاروبار تباہ ہوگیا۔

اُن کا چھوٹا بیٹا جو میٹرک کا طالبعلم تھا پڑھائی چھوڑ کر کسی دکان پر ملازمت کرنے لگا، یہ صاحب اپنے بھائی کی عالیشان کوٹھی میں پہنچے اور تمام حالا ت بتا کرمدد چاہی مگر انھوں نے مالی حالات کی تنگی کا بہانہ بنا کر صاف انکارکر دیا، اب رمضان کی تین تاریخ کو انکے گھر کے باہر سینکڑوں افراد زکوٰۃ اور راشن لینے کیلئے کھڑے تھے وہ فیملی ان تمام افراد کو حسب توفیق زکواۃ اور راشن دے گی مگر انکا اپنا سگا بھائی جو کہ انتہائی نامساعد حالات کا شکار ہے انکی اس سخاوت سے محروم تھا، جبکہ انھیں علِم بھی ہے کہ انکا سگا بھائی آج کل انتہائی تنگدستی کا شکار ہے، ا سکی بیوی بیمار ہے، معصوم بچہ تعلیم چھوڑ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہے مگر انکی آنکھوں پر شائد انّا پرستی ، تکبر اور خود نمائی کی پٹی بندھ چکی تھی۔

اسی شہر لاہور میں پانچ بچیوں کی ماںایک بیوہ عورت لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے اپنا اور اپنی بچیوں کا پیٹ پال رہی ہے، اسکے جیٹھ اور دیور متمول افراد ہیں اسکے سگے بہن بھائیوں کا شمار بھی کھاتے پیتے افراد میں ہوتا ہے، ان سب کو اپنی بہن یا بھابھی کی بے کسی کا علم بھی ہے مگر انکی دریا دلی گھریلو ملازمین یا پیشہ ور بھکاریوں تک محدود ہے۔

لاہور کی ایک فیکٹری کے مالک نے ایک ہسپتال کو بیس لاکھ روپے زکوٰۃ کی مَد میں عطیہ دیا جبکہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اسکے والدین انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں،ایک بھائی کی کریانے کی چھوٹی سی دکان ہے اور اسکی بڑی بچی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک کنواری بیٹھی ہوئی ہے۔

اس قسم کے واقعات ہمارے معاشرے میں بِکھرے پڑے ہیں ہر جگہ ایسے مناظر نظر آتے ہیں، ہر سال تقریباً 60 ارب روپے زکوٰۃ کی مَد میں خرچ کئے جاتے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ کم ازکم 45 ارب روپے غیر مستحقین افراد میں خرچ کردئیے جاتے ہیں جس سے زکوٰۃ کی اصل روح ہی مجروح ہو جاتی ہے، بے حسِی اور خودغرضی کے مناظر تو عام نظر آتے ہیں مگر ہمدردی اور ایثار کے اصل مناظر دھندلکوں میں کھوتے جا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن مشکلات کی دلدل میںدھنستا جا رہا ہے۔

زکوٰۃ کا نظام اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ اگر زکوٰۃ مستحق افراد میں صحیح طریقے سے تقسیم کی جائے تو ہر سال کم از کم 3 لاکھ مستحق بچیوں کی شادی ہو سکتی ہے، پانچ لاکھ بیروزگار افراد کو کاروبارکروایا جا سکتا ہے، پندرہ لاکھ بچوں کا ایک سال کا تعلیمی خرچہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پانچ لاکھ مستحق مریضوں کو ادّویا ت فراہم کی جا سکتی ہیں۔اس رقم سے پورا سال کم از کم 2 لاکھ سفید پوش گھرانوں کی مالی کفالت کی جا سکتی ہے۔

زکوٰۃ کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر ایک سال ایک مخصوص رقم خرچ نہ ہو یعنی فالتو پڑی رہے یا اتنی رقم کا سونا پڑا رہے تو زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے (ایک سال کا تصاب تقریباً 45000/. روپے ہے اور اس سے زائد رقم پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے) ۔

اسلام میںسرمائے (نقدی، سونا،چاندی اور دوسری اشیاء) کو جامد کرنے سے منع کیا گیا ہے، سرمائے کو خرچ کرنے کا حکم ہے تاکہ یہ رقم پھیلاؤ میں رہے، اسلامی معاشرے میں معیشت کی بنیاد ہی سرمائے کی ’’سرکولیشن‘‘ پر رکھی گئی ہے اسے سمجھنا بہت ضروری ہے، سرمائے کو جمع کرنے سے منع کیا گیا ہے کہ اس طریقہ کار سے صرف فرد کو فائدہ ہوتا ہے معاشرے کو نہیں۔ اگر دولت ’’سرکولیٹ‘‘کرتی ہے تو مختلف ہاتھوں میں پہنچتی ہے جسکا فائدہ زیادہ سے زیادہ افراد کو پہنچتا ہے اگر کوئی فرد اپنی دولت،نقدی، سونے، چاندی یا دوسرے طریقوں سے جامد کرتا ہے تو پھر اُسے ایک سال بعد اپنی رقم کی زکوٰۃ ادا کرنی پڑتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر صرف سونا یا چاندی ہو مگر نقدی نہ ہو تو سونا اور چاندی فروخت کرکے زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے وگرنہ سخت گناہ گار ہوگا اور اسکے مال میں اللہ تعالیٰ کی برکت و تائید شامل نہ ہوگی بعض مفتیان حضرات نے ایسے جمع شدہ مال کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ جسکی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو۔ حضرت ابو بکر صدیقؓکے دور خلافت میں جب کچھ افراد نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کیا انکے خلاف باقاعدہ لشکر کشی کی گئی۔

اللہ کے حکم سے انحراف ممکن ہی نہیں ہے۔ جب زکوٰۃفرض ہے تو اسکی ادائیگی بھی اسی طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کا حکم دیا گیا ہے، اپنے طور پر یا اپنے گمان کے مطابق یہ فریضہ ادا نہیں ہو سکتا۔ زکوٰۃ کی رقم فلاح و بہبود کے اجتماعی کاموں میں بھی خرچ کی جا سکتی ہے کہ جیسے کچھ ادارے اپنے طور پر بہترین طریقے سے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، جماعت اسلامی کا ادارہ ’’الخدمت‘‘ یتیم بچوں کی بہترین طریقے سے کفالت کر رہا ہے یہ ادارہ اپنے طور پر مستحق افراد کی چھان بین کرکے ہر ماہ یتیم بچوں کی تعلیم کی مَد میں مخصوص رقم بنک کے ذریعے ادا کر رہا ہے، میرا ایک دوست کچھ عرصہ قبل دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال کر گیا، لواحقین میں ایک بیوہ اور چار زیر تعلیم بچے تھے، اس خاندان پر غموں اور مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، انھوں نے کسی طرح ’’الخدمت‘‘ سے رابطہ کیا۔’’الخدمت‘‘سے تعلق رکھنے والے افراد نے چھان بین کے بعد ایک مخصوص رقم بیوہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردی جو اب ہر تین ماہ کے بعد اس بیوہ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتی ہے جس سے اسکے بچوںکی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔

اس طرح ’’اخوت‘‘ بھی بے روزگار اور بے سہارا افراد کا بہترین سہارا ثابت ہو رہی ہے۔ اربوں روپے بے روزگار افراد کو قرض حسنہ کے طور پر دیئے گئے ہیں، ان افراد نے اس رقم سے چھوٹا سا کاروبار شروع کیا، ’’اخوت‘‘ نے اسلام کے عین اصولوں کے مطابق افراد کو بھیک کا عادی بنانے کی بجائے انھیں رزق کمانے کی ترغیب اور مدد دی، کہا جاتا ہے کہ قرض حسنہ کے طور پر دی گئی تقریباً تمام رقم واپس آجاتی ہے۔

شوکت خانم ہسپتال میں بھی کینسر کے مرض میں مبتلا نادار افراد کا مفت علاج ہوتا ہے۔ وگرنہ اتنا مہنگا علاج کروانا غریب تو درکنار خاصے کھاتے پیتے افراد کے بس میں بھی نہیں ہے۔

اسی طرح پاکستان میں لا تعداد ادارے بشمول ایدھی فاؤنڈیشن بھی زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کی رقم سے چلائے جا رہے ہیں، ان کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے مگر اوّلیت اسلام کے ان اصولوں کو ہی دینی چاہیے کہ جن کے واضح احکامات موجود ہیں۔ زکوٰۃ کے پہلے حقدار قریبی رشتہ دار، محلہ دار یا قریبی جاننے والے ہی ہوتے ہیں۔ اسلام میں’’تم اور وہ‘‘ کا فلسفہ موجود ہے یعنی سب سے پہلے انکی اپنی جان یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر سب سے پہلا حق اس فرد کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہو، اسکے بعد سامنے والے افراد یعنی قریبی رشتہ دار، محلہ دار اور واقف کار، اسکے بعد وہ افراد اور ادارے جو کہ آپ سے دور ہوں یعنی عام مسلمان، اسی فلسفے کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی ہماری اپنی، ہمارے تعلیمی اداروں اور عام مسلمانوں کی حالت سنور سکتی ہے۔قرابت داروںپر زکوٰۃ اور دوسری رقومات خرچ کرنے کا دو گنا اجّر ہے پہلا اجّر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا اور دوسرا اجّر عزیز رشتہ داروں پر احسان کرنے کا۔ اللہ تعالیٰ نے قرابت داری جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے کہ کُنبہ مضبوط اور خوشحال ہو پھر خاندان مضبوط ہو، قرابت داری میںحسن سلوک کی وجہ سے کوئی رشتہ دار اپنے آپ کو تنہا اور بے بس محسوس نہ کرے۔

وطن عزیز پاکستان میں ساڑھے تین کروڑ افراد حد غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ لوگوں کی بے بسی اور بے کسی کی کہانیاں سُن کر کلیجہ پھٹ جاتا ہے،اسی شہر لاہور میں پینتالیس سال کی چار بچوں کی ماں اپنے آپ کو بیچنے کیلئے سڑک کنارے کھڑی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی روٹی کا بندوبست کر سکے اور اسی شہر لاہور میں صرف رمضان میں شاہانہ افطاریوں کی مَد میں کم ازکم 120 کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں، یہ افطاریاں صرف اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے کیلئے کی جاتی ہیں صرف ان افراد کو مدعو کیا جاتا ہے جنہیں اللہ نے اپنی ہر نعمت سے نوازا ہوا ہے اور ان میں سے بیشتر افراد کا روزہ بھی نہیں ہوتا ۔

کراچی میں ایم کیو ایم ’’بزور بازو‘‘ زکوٰۃ اکٹھی کر تی تھی رقم کا بیشتر حصہ لندن اور دوسرے بیرون ممالک میں بھیجا جاتا تھا۔ زکوٰۃ کی رقم سے بانی ایم کیو ایم اور انکے ساتھی شراب اور عیش و عشرت کی محفلیں برپا کرتے تھے۔ ایم کیو ایم کی دیکھا دیکھی اور پارٹیاں بھی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کیلئے میدان میں آ گئیں۔ سب اپنے زیر اثر علاقوں سے زبردستی زکوٰۃ اکٹھی کرتی تھیں ۔ زبردستی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کا سب سے بڑا کارنامہ حکومت پاکستان سرانجام دیتی ہے۔ ہر یکم رمضان کو بنکوںمیں نصاب سے زائد رقم پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کاٹی جاتی ہے چاہیے یہ رقم صرف دس دن پہلے ہی بنک میں جمع کروائی گئی ہو ۔ لوگوں کی اکثریت یکم رمضان سے پہلے ہی اپنی رقم بنک سے نکلوا لیتی ہے یا بنک میں ’’ڈیکلریشن‘‘ جمع کروادیتی ہے کہ وہ زکوٰہ نہیں دینا چاہتے۔

رمضان نزدیک آتے ہی بے شمار ’’این جی اوز‘‘ بھی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کیلئے میدان میں آجاتی ہیں کئی ’’ این جی اوز‘‘ کمپنیوں اور مخیرحضرات کو اپنے فلاحی کاموں کی تفصیلات بتا کر رقم اکٹھی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ یہ این جی اوز محض دوماہ کیلئے مخیر حضرات کو کال کرنے کیلئے خوبصورت آواز والی لڑکیوں کو ملازمت پر رکھتی ہیں۔ انھیں تنخواہ کے علاوہ کمیشن بھی دیا جاتا ہے، زکوٰۃ کی رقم کا تھوڑا سا حصہ یہ اپنے فلاحی کاموں پر خرچ کرتی ہیں زیادہ حصہ انکی جیبوں میں جاتا ہے۔

بے شمار این جی اوز رمضان کے دِ نوں میں ’’فری افطاری‘‘کا اہتمام بھی کرتی ہیں یہ این جی اوز سڑک کنارے فٹ پاتھوں یا خالی جگہ پر بڑے بڑے بینر لگاتی ہیں کہ’’ناداروں اور بے کس افراد کی فری افطاری ’’لا تعداد غریب‘‘ افراد ان دسترخوانوں پر بیٹھے روزہ کُھلنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں جس طرح غریب اور نادار افراد کی افطاری کی تشہیر کی جاتی ہے، کوئی سفید پوش فرد وہاں روزہ کھولنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ یہ این جی اوز افطاری کے چکر میں خاصی رقم اکٹھی کر لیتی ہیں زیادہ تر پیسہ ان کے کرتا دھرتا افراد کی جیبوں میں جاتا ہے۔

زکوٰۃ، صدقات اورخیرات کا اصل مقصد مستحق افراد کی مدد اور اُنکی بحالی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے ہے اسے جرمانے کی رقم کی مانند ادا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ رقم ایسے مستحق افراد میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے کہ جو اپنی سفیدپوشی کا بھرم قائم رکھنے کیلئے کسی سے مانگ بھی نہیں سکتے۔انھی کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، اگر آج یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو ہمارے معاشرے میں طبقاتی تفریق کافی حد تک ختم ہو سکتی ہے۔

The post زکوٰۃ مستحقین تک پہنچائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

قبائلی علاقوں میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات شیڈول کے مطابق کرانے کا فیصلہ

$
0
0

پشاور: حکومت نے قبائلی علاقوں میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کی بجائے شیڈول کے مطابق 2 جولائی کو ہی کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

قبائلی علاقوں میں خیبر پختونخوا اسمبلی کی 16 نشستوں کے لیے انتخابات 2 جولائی کو ہونے جارہے ہیں اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول پر عمل جاری ہے، رواں ماہ کی 30 تاریخ کو الیکشن کمیشن امیدواروں کو انتخابی نشانات جاری کرے گا۔

دوسری جانب سینیٹ سے بل کی منظوری نہ ہونے پر اپوزیشن جماعتیں تذبذب کا شکار ہوگئی ہیں جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے وضاحت بھی مانگ لی ہیں لیکن حکومتی ذرائع نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ شیڈول کے مطابق 2 جولائی کو انتخابات کی تیاری کی جارہی ہے اور اس حوالے سے تحریک انصاف نے اپنے امیدواروں کے انٹرویو بھی شروع کردیے ہیں۔

26 ویں آئینی ترمیم کے تحت خیبرپختونخوا اسمبلی میں قبائلی اضلاع کی نشستیں 16 سے بڑھا کر 24 اور قومی اسبملی میں 6 سے بڑھا کر 12 کی جارہی ہیں۔ 26 ویں ترمیم کے محرک محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کے انتظار میں تھے کہ وہ سینٹ کا اجلاس بلاکر ترمیمی بل کی منظوری لے گئی لیکن معلوم نہیں حکومت کیوں تاخیر کررہی ہے۔ آئندہ ایک سے 2 روز میں سینٹ کا اجلاس نہ بلایا گیا تو پھر اپنا لائحہ عمل طے کریں گے اور سینیٹ اجلاس کے لیے ریکوزیشن جمع کرا سکتے ہیں۔

اے این پی کے سردار حسین بابک کا کہنا ہے کہ انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں گے یا تاخیر ہوگی حکومت واضح کرے، قبائلی عوام سمیت تمام سیاسی جماعتیں کنفیوژن کا شکار ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کو بھی اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ قبائلی اضلاع کو ان کا حق ملے۔

ضم شدہ قبائلی علاقوں میں انتخابات کے لیے امیدواروں کے چناؤ کے لیے حکمران جماعت پی ٹی آئی نے انٹرویو بھی شروع کردیے ہیں اس حوالے سے حکومتی ترجمان شوکت یوسفزئی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ قبائلی علاقوں میں انتخابات شیڈول کے مطابق 2 جولائی کو ہونے جارہے ہیں۔ قومی اسمبلی سے پاس ہونے والا بل سینیٹ سے منظور کرایا جائے گا۔

The post قبائلی علاقوں میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات شیڈول کے مطابق کرانے کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 30795 articles
Browse latest View live