Quantcast
Channel: The Express News
Viewing all 49478 articles
Browse latest View live

جعلی اکاؤنٹس کے بعد اب بیوہ خاتون کا کروڑوں روپے مالیت کا پلاٹ سامنے آگیا

$
0
0

کراچی: بے نامی اکاؤنٹس کے بعد اب ایک خاتون کی کروڑوں روپے مالیت کی بے نامی جائیداد کا انکشاف ہوا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق آئے روز کسی نہ کسی غریب فرد کے نام بنے جعلی اکاؤنٹ سے اربوں روپے کی منتقلی کا انکشاف ہوتا ہے رہتا ہے، جعلی بینک اكاؤنٹس كی وبا ابھی رکی نہیں کہ اب کراچی میں بے نامی جائیداد کا بھی انکشاف ہوا ہے، اور اس حوالے سے نیب کمبائن انوسٹی گیشن ٹیم نے شاہ فیصل کالونی کی رہاشی بیوہ خاتون کو نوٹس بھیج دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آپ کا کراچی کے پوش علاقے میں کروڑوں روپے مالیت کا پلاٹ ہے، جس کی تحقیقات کے لئے اسلام آباد طلب کیا گیا ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: فالودہ بیچنے والا ارب پتی بن گیا

کراچی کے علاقے شاہ فیصل کی رہائشی بیوہ خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں نیب اسلام آباد کی جانب سے ایک نوٹس موصول ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ان کا کراچی کے پوش علاقے میں 320 گز کا پلاٹ ہے جس کی مالیت 80 کروڑ سے بھی زائد ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: واپڈا اہلکار کے اکاؤنٹس سے کروڑوں روپے کی منتقلی کا انکشاف

خاتون کا کہنا ہے کہ میں بیوہ ہوں اور اس وقت اپنے بھائی کے گھر مقیم ہوں، نیب نے نوٹس میں مجھے اسلام آباد طلب کیا ہے جب کہ میرے پاس اسلام آباد جانے کا کرایہ بھی نہیں، اگر نیب نے مجھ سوالات یا تحقیقات کرنی ہے تو مجھے کرایہ دیا جائے، اگر میرا کوئی پلاٹ ہوتا تو میں کراچی کی غریب بستی میں رہائش پذیر نہ ہوتی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: مزدور کے جعلی اکاؤنٹ سے کروڑوں روپے کی منتقلی

دوسری جانب نیب ذرائع نے بتایا ہے کہ خاتون کے نام پرکراچی کے مہنگے علاقے میں تین سو بیس گز کا پلاٹ ہے، پلاٹ کڈنی ہل پارک کی زمین پر چائنہ کٹنگ کرکے نکالا گیا اور اسے گرفتار سابق ڈی جی پارکس لیاقت قائم خانی کے دور میں الاٹ کیا گیا، پلاٹ کی موجودہ مالیت اسی کروڑ سے زائد ہے۔

 

The post جعلی اکاؤنٹس کے بعد اب بیوہ خاتون کا کروڑوں روپے مالیت کا پلاٹ سامنے آگیا appeared first on ایکسپریس اردو.


بھارت سفارتکاری اور مقبوضہ کشمیر میں نارمل حالات والے  بھاشن اپنے پاس رکھے، پاکستان

$
0
0

 اسلام آباد: ترجمان دفترخارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت سفارتکاری اور نارمل حالات کے بارے اپنے بھاشن اپنے پاس رکھے۔

دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان نے بھارتی وزارت خارجہ کی وزیراعظم عمران خان کے کشمیر کے حوالے سے بیانات پر ردعمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی بیانات مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی عکاسی کرتے ہیں۔

ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹرمحمد فیصل نے کہا ہے کہ بھارتی جبر سے متاثر کشمیریوں کے لئے آواز اٹھانا ہماری عالمی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، بھارت اپنی انتہاپسندانہ نظریات اور غالبانہ بالادستی کے خواب کے وجہ سے سچ کا سامنا کرنے سے گریزاں ہے، اور اپنے بالادستی پر مبنی طرز عمل کے برعکس خود کو ایک نارمل ریاست ثابت کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت دنیا کو بتائے کہ ایک نارمل ریاست میں 80 لاکھ افراد محصور کیوں رکھے ہیں، دو ماہ سے زائد عرصے سے مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں افراد کھلے پنجرے میں بند کرکے ‘ہر چیز ٹھیک ہے’ کا تاثر اور دعوی کس کو دکھانے کیلئے ہے؟ ۔

ترجمان کا کہناہے کہ کون سی نارمل ریاست میں سیاسی اور انتہاپسند جتھوں کو گائے ذبح کے نام پر تشدد کرکے قتل کرنے کی کھلی اجازت ہے؟ کس نارمل ریاست میں ‘گھر واپسی’ اور ‘لو جہاد’ کو ہوا دی جاتی ہے؟ بھارت سفارتکاری اور نارمل حالات کے حوالے سے اپنے بھاشن اپنے پاس ہی رکھے۔

The post بھارت سفارتکاری اور مقبوضہ کشمیر میں نارمل حالات والے  بھاشن اپنے پاس رکھے، پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.

اسپیڈ اسٹار محمد حسنین ہیٹ ٹرک کرنے والے کم عمر ترین بولر بن گئے

$
0
0

 لاہور: پاکستان کے ابھرتے ہوئے اسٹار پیسر محمد حسنین انٹرنیشنل کرکٹ میں ہیٹ ٹرک کرنے والے سب سے نوجوان کھلاڑی بن گئے۔

19 سالہ فاسٹ بولر نے یہ کارنامہ سری لنکا کے خلاف  پہلے ٹی ٹوئنٹی میں  سر انجام دیا، محمد حسنین نے  اننگز کے 16 ویں کی آخری گیند پر راجا پکسایا کو چلتے کیا تو اپنے اگلے اوور کی ابتدائی دو گیندوں پر دو کھلاڑیوں کو آؤ ٹ کرک ہیٹ ٹرک مکمل کی۔

نوجوان بولر نے اپنے 4 اوورز کے کوٹے میں 37 رنز کے عوض 3 وکٹیں حاصل کیں اور وہ اس میچ میں قومی ٹیم کی جانب سے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر بھی قرار پائے۔

محمد حسنین آج ٹی ٹوئنٹی کیریئر کا دوسرا میچ کھیل رہے تھے ،انہوں نے ٹی ٹوئنٹی ڈیبیو رواں سال 5 مئی کو انگلینڈ کے خلاف کارڈف کے میدان پر کیا تھا۔

The post اسپیڈ اسٹار محمد حسنین ہیٹ ٹرک کرنے والے کم عمر ترین بولر بن گئے appeared first on ایکسپریس اردو.

ایم کیو ایم کے سابق ایم این اے سلمان مجاہد بلوچ کو قتل کی دھمکی

$
0
0

کراچی: ایم کیو ایم کے سابق ایم این اے سلمان مجاہد بلوچ کو مبینہ طور پر نامعلوم افراد نے جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ایم کیو ایم کے سابق ایم این اے سلمان مجاہد بلوچ کو نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر جان سے مارنے کی دھمکی دی، نامعلوم ملزمان سلمان مجاہد بلوچ کی گاڑی پر دھمکی آمیز خط اور پسٹل کی گولیاں پھینک کر فرار ہوگئے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: سلمان مجاہد بلوچ کو پارٹی سے نکال دیا گیا

ایکسپریس سے خصوصی بات کرتے ہوئے سلمان مجاہد نے بتایا کہ ان کا ڈرائیور کسی کام سے گیا ہوا تھا جب وہ واپس گھر آیا تو ڈبل کیبن گاڑی کے عقبی حصے میں ایک پرچہ پڑا ہوا تھا جس میں پستول کی دو گولیاں بھی لپٹی ہوئی تھیں، پرچے  پر تحریر تھا کہ ’’ سلمان بلوچ تجھے جلد ہی علی رضا عابدی کے پاس بھیج دیں گے ‘‘۔

سابق ایم این اے نے مزید بتایا کہ واقعے کے فوری بعد ایس ایس پی جنوبی شیراز نذیر اور دیگر حکام کو آگاہ کردیا ہے، جب کہ واقعے کے حوالے سے گذری تھانے میں درخواست بھی جمع کرادی ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: سلمان مجاہد بلوچ پر خاتون سے زیادتی کا الزام

دوسری جانب تھانہ گزری کے  ایس ایچ او رضوان حیدر کا کہنا ہے کہ سابق ایم این اے کی جانب سے درخواست موصول ہوئی ہے جس میں واقعے کے حوالے سے باضابطہ طور پر آگاہ کیا گیا ہے کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ہے، سلمان مجاہد کی مدعیت میں ملزمان کے خلاف دھمکی دینے کا مقدمہ درج کیا جائے گا، اس حوالے سے اعلیٰ حکام سے مشاورت جاری ہے اور واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائے گی۔

ایس ایچ او رضوان حیدر نے مزید بتایا کہ ڈرائیور کا بیان قلمبند کرکے گاڑی کے روٹ پر موجود کیمروں کی سی سی ٹی وی فوٹٰجز بھی حاصل کی جائیں گی ، جو بھی ملوث ہوا اسے گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: اسلحہ دکھانے پر سلمان مجاہد بلوچ کے خلاف مقدمہ 

The post ایم کیو ایم کے سابق ایم این اے سلمان مجاہد بلوچ کو قتل کی دھمکی appeared first on ایکسپریس اردو.

اوورسیز پاکستانیوں کیلیے سامان لانے سے متعلق نئی سہولت متعارف

$
0
0

 کراچی: پی آئی اے نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے اضافی سامان وطن لانے سے متعلق ایک نئی اسکیم متعارف کرادی۔

پی آئی اے انتظامیہ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر اوورسیز پاکستانیوں کے لیے نئی اسکیم متعارف کرائی گئی ہے، شیڈول فلائٹ سے 4 گھنٹے قبل اضافی سامان کی بکنگ پر پچاس فیصد تک رعایت ملے گی۔

اضا فی سامان کی نئی اسکیم سے اوورسیز پاکستانیوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا، پی آئی اے انتظامیہ کے مطابق برطانیہ، کینیڈا، یورپ سمیت دیگر خلیجی ممالک سے آنے والے مسافروں کو سہولت حاصل ہوگی، قومی ایئرلائن کی جانب سے کیے گئے اس اقدام سے ادارے کو ریونیو حاصل ہوگا۔

The post اوورسیز پاکستانیوں کیلیے سامان لانے سے متعلق نئی سہولت متعارف appeared first on ایکسپریس اردو.

جیل حکام کی فریال تالپور کو اے سی اور آئی پیڈ کی سہولیات دینے سے معذرت

$
0
0

 راولپنڈی: اڈیالہ جیل حکام نے فریال تالپور کو اے سی اور آئی پیڈ کی سہولیات دینے سے معذرت کرلی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اڈیالہ جیل حکام نے سابق صدر آصف زرداری کی ہمیشرہ فریال تالپور سے متعلق رپورٹ احتساب عدالت جمع کروا دی ہے، رپورٹ میں اڈیالہ جیل حکام نے فریال تالپور کو اے سی اور آئی پیڈ کی سہولتیں دینے سے معذرت کرلی ہے۔

جیل حکام نے رپورٹ میں فریال تالپور کو فراہم کردہ سہولتوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے مؤقف پیش کیا ہے کہ ایسے ملزموں کو ماضی میں آئی پیڈ دینے کی کوئی مثال نہیں ملتی اس لیے ملزمہ کو آئی پیڈ فراہم نہیں کیا جاسکتا۔

The post جیل حکام کی فریال تالپور کو اے سی اور آئی پیڈ کی سہولیات دینے سے معذرت appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمارے پاس ایسے کھلاڑی ہیں جو اکیلے میچ جتواسکتے ہیں، سرفراز احمد

$
0
0

 لاہور: قومی کپتان سرفراز احمد کا کہنا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کوئی بھی ٹیم کمزور نہیں ہوتی،شکست کے باوجودقومی ٹیم اگلے میچ میں کم بیک کرے گی،ہمارے پاس ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو اکیلے بھی میچ جتواسکتے ہیں،شائقین کو آئندہ  بھی بہترین میچز دیکھنے کو ملیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پہلے ٹی ٹوئنٹی میں سری لنکا نے پاکستان کو شکست دیدی

سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد قذافی اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس میں سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ آئی لینڈرز کے لیے آج کا دن اچھا جبکہ ہمارا برا تھا ،پہلے بھی کہہ چکا ہوں ٹی ٹونٹی ٹیم میں کوئی ٹیم آسان نہیں،سری لنکن ٹیم نے ہم سے باؤلنگ میں  بہترین کارکردگی دکھائی۔

اسے بھی پڑھیں: اسپیڈ اسٹار محمد حسنین ہیٹ ٹرک کرنے والے کم عمر ترین بولر بن گئے

کپتان کا کہنا تھا کہ عمر اکمل اور احمد شہزاد نے ماضی میں اچھا کھیلا ہے، امید ہے اگلے میچوں میں دونوں کھلاڑی اچھا کھیلیں گے،ہمارے پاس ایسے کھلاڑی ہیں جو اگلے میچوں میں ٹیم کو جتوا سکتے ہیں،احمد شہزاد کو بطور اوپنر کھلانا تھا جس وجہ سے فخر زمان کو ریسٹ کرایا،جو لڑکے ٹیم میں کھلائے ہیں ان کو پورا موقع دیا جائے گا،شاداب ایسا باؤلر ہے جس نے ماضی میں اچھا کھیلا۔

The post ہمارے پاس ایسے کھلاڑی ہیں جو اکیلے میچ جتواسکتے ہیں، سرفراز احمد appeared first on ایکسپریس اردو.

کراچی میں فائرنگ سے پی ٹی آئی رہنما قتل

$
0
0

 کراچی: عزیز آباد میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے تحریک انصاف کے علاقائی رہنما آصف ہارون کو قتل کردیا۔

ہفتے کی شام عزیز آباد کے علاقے میں مدنی مسجد کے گیٹ پر موٹر سائیکل سوار دو ملزمان نے فائرنگ کی جس کے باعث پاکستان تحریک انصاف کے ڈسٹرکٹ سینٹرل کا سابق صدر 42 سالہ آصف عرف چکلی ولد ہارون جاں بحق ہوگیا، مقتول عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلا ہی تھا کہ گھات لگائے ملزمان نے فائرنگ کردی اور فرار ہوگئے۔

اطلاع ملتے ہی ریسکیو حکام اور پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور لاش کو عباسی اسپتال منتقل کیا، پولیس نے جائے وقوع سے نائن ایم ایم کے دو خول قبضے میں کرلیے۔

ایس ایس پی سینٹرل عارف راؤ نے جائے وقوع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آصف حسین آباد کے رہائشی ہیں اور ان کا اپنا کاروبار تھا ، وقوعہ کے وقت وہ نماز پڑھ کر باہر نکلے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں ںے کہا کہ سیاسی چپقلش اور ذاتی عناد سمیت ہر پہلو سے تفتیش کی جائے گی اور جلد ہی اہم پیش رفت ہوگی۔

عارف راؤ نے بتایا کہ مقتول پہلے کھارادر میں رہائش پذیر تھا اور اب اس نے حسین آباد میں رہائش اختیار کی ہوئی تھی، آصف کے ماضی کے حوالے سے بھی تحقیقات کی جائیں گی، گولیوں کے خول فارنسک تجزیے کے لیے لیبارٹری روانہ کردیے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کارکنوں کا شارع پاکستان پر دھرنا، ٹریفک جام

دریں اثنا واقعے کے بعد شام کو پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد شارع پاکستان کریم آباد پہنچ گئی اور دھرنا دے دیا، مظاہرے کے بعد کریم آباد سے سہراب گوٹھ کی جانب جانے والا ٹریک عام ٹریفک کے لیے بند ہوگیا اور شام کا وقت ہونے کے باعث گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں جس سے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

دھرنے میں وقتاً فوقتاً پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اسلم خان، عمران شاہ، ارسلان تاج، راجہ اظہر، خرم شیر زمان اور دیگر بھی پہنچتے رہے، کچھ دیر احتجاج کے بعد خرم شیر زمان نے دھرنا ختم کرنے کا کہا تو کارکن بپھر گئے اور انھوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اس دوران تلخ کلامی کے مناظر بھی دیکھنے میں آئے بعدازاں اعلیٰ پولیس حکام سے مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا۔

The post کراچی میں فائرنگ سے پی ٹی آئی رہنما قتل appeared first on ایکسپریس اردو.


جب علی عظمت سے کلاشنکوف برآمد ہوئی، گلوکار کا دلچسپ انٹرویو

$
0
0

 اسلام آباد: کامیابی ایک لمحے میں نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے مسلسل اور کڑی محنت کرتا پڑتی ہے، دہکتی بھٹی میں تپ کر ہی کندن نکلتا ہے۔ معروف راک اسٹار علی عظمت اس کی جیتی جاگتی روشن مثال ہیں۔ ایک انٹرویو نے انہوں نے اپنے بچپن کی شرارتوں، نوجوانی کے خواب، جوانی میں کامیابی اور گلوکاری کے سفر میں آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے نوجوان باصلاحیت گلوکاروں کو ٹپس بھی دیں۔

عفت رحیم کے ویب پروگرام ’سے اِٹ آل ود عفت رحیم‘ میں علی عظمت نے مزے مزے کے واقعات سنائے کہ لاہور کی سڑکوں پر موٹر سائیکلوں پر بلند آواز سے گانے گانا اور رات بھر گھومتے رہنا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار اداکار شان کے ساتھ مٹر گشت کرتے ہوئے چارپائی پر خراٹے بھرتے چوکیدار کو جگانے کی ہر کوشش ناکام ہونے پر چارپائی کو اُٹھا کر مرکزی چوراہے پر رکھ دیا اور چھپ کر چوکیدار کے حواس باختہ حالت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

علی عظمت لڑکپن میں جھگڑالو تھے؟ اس سوال پر شرارتی مسکان کے ساتھ علی عظمت نے جواب دیا کہ بدمعاشی تو نہیں کی البتہ مجھ سے چھوٹے عمر کے کزنز مجھے اپنے جھگڑے نمٹانے کے لیے لے جاتے تھے اور میں سامنے والوں پر دوڑ کر چڑھائی کردیا کرتا تھا قبل اس کے کہ وہ مجھ پر حملہ کردیں اور یوں دھاک بیٹھ گئی کہ میں بہت بہادر ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ میں اس وقت خود کتنا ڈرا ہوتا تھا کہ کہیں پھینٹی نہ لگ جائے۔

علی عظمت ’جوپیٹر‘ بینڈ سے پہلے مقامی چھوٹے بینڈز کے ساتھ اسکول، کالجز اور نجی تقریبات میں پرفارم کرتے تھے جس کے لیے انہیں صرف 500 روپے ملتے تھے جس میں 50 روپے کا وہ انڈا پراٹھا کھالیا کرتے تھے باقی کی رقم بچالیتے اور یوں پہلی بار 30 ہزار کی ایک موٹر سائیکل بھی خریدی جس پر اہل محلہ نے کہا کہ ڈکیتیاں مارنے لگا ہے جو اتنے اچھے لباس اور جوتے پہنتا ہے اور اب تو موٹر سائیکل بھی خرید لی ہے۔

بچپن کی یادوں کو شیئر کرتے ہوئے علی عظمت گویا ہوئے کہ وہ پرانا لاہور کہیں کھوگیا ہے، ماں کے ہاتھ کے بنے کھانے، خونی رشتوں کی محبت اور دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح بہت یاد آتی ہے۔ 18 سال کی عمر میں ہی جوپیٹر بینڈ کے ساتھ ایک مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا تو خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی۔ اس شو میں پہلی بار وائرلیس مائیک استعمال ہوا تھا اور میں پرفارمنس کے دوران ہی اسٹیج سے بھاگتے ہوئے اوپر گیلری میں گیا اور اپنے ماں باپ کو بوسہ دیا۔ پہلا انعام دس ہزار ملا تھا۔

علی عظمت ایک بڑا فنکار ہونے کے باوجود اپنے ماضی پر فخر کرتے ہیں کھلے ڈھلے آدمی ہیں، یہی وجہ ہے عفت رحیم کے سوالات سے گریز کرنے کے بجائے انہوں نے کھل کر اظہار کیا اور اس سے لطف اندوز بھی ہوئے۔ ایک بار کسی سے چھینی ہوئی کلاشنکوف گھر لے آئے اور اپنے دادا کی یادگار الماری میں چھپا دی۔ دادی نے الماری کی صفائی دوران کلاشنکوف دیکھی تو گھر میں کہرام مچ گیا۔

ابتدائی زمانے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ میوزیکل بینڈ کے علاوہ کمانے کا ایک ذریعہ اور بھی تھا میں لنڈا بازار جاتا اور کپڑے، جوتے، بیجز وغیرہ نہایت کم قیمت میں لاتا اور اپنے امیر دوستوں کو مہنگے دام میں بیچ دیتا اور منافع کی رقم اماں کو دیتا تو وہ کہتیں آخر تو کرتا کیا ہے ؟ کہیں واقعی ڈکیتیاں تو نہیں مارتا لیکن جب جوپیٹر کے پہلے پروگرام میں اپنے والدین کو بلایا اور اول انعام حاصل کیا تو انہیں پتہ چل گیا کہ ان کا بیٹا کیا کرتا ہے۔

اس موقع پر عفت رحیم نے سوال داغا کہ گانا بجانا ہمارے یہاں اچھا نہیں سمجھا جاتا، جب موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا تو اہل خانہ کا ردعمل کیسا تھا؟ جس پر علی عظمت نے بے تکلفانہ انداز میں کہا رشتے داروں نے اپنے گھر آنے سے منع کردیا کہ ہم میراثیوں کو گھر نہیں بلاتے، میں نے بھی کہہ دیا کہ نہیں ملتے تو نہ ملو، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ والدین نے ہمت افزائی جاری رکھی کہ بیٹا آوارہ گردی نہیں کرتا، جرائم سے دور ہو یہی کافی ہے۔

موسیقی کا جنون علی عظمت کو لاہور سے کراچی لے آیا، کراچی کو ایک ’ویلکمنگ شہر‘ قرار دیتے ہوئے علی عظمت نے کہا کہ کراچی سب سے الگ شہر ہے اور سب کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ میں پینڈو ٹائپ بچہ تھا اور میری انگریزی بہت کمزور تھی جس پر میں شرمندہ نہیں بلکہ محظوظ ہوتا ہوں۔ شعیب منصور سے پہلی ملاقات میں ان کی تعریف کے لیے انگریزی میں دو جملے ایسے کہے جس پر میں آج تک خود پر ہنستا رہتا ہوں۔

وائٹل سائنز سے سلمان احمد کی واپسی اور جنون کی تشکیل کا ذکر کرتے ہوئے راک اسٹار نے بتایا کہ اسلام آباد میں وائٹل سائنز سے منسلک لڑکے کسی ایشو پر ایک الگ کمرے میں معاملہ نمٹا رہے تھے۔ وائٹل سائنز نے سلمان احمد کو خیرباد کہہ دیا، سلمان جسے میں پیار سے اخروٹ کہا کرتا تھا، غصے میں کمرے سے باہر آیا کہ کہا تم میرے ساتھ البم میں گانا گاؤ گے اور پھر ہم نے البم تیار کیا۔

آخر میں علی عظمت کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے لیکن مواقعوں کی کمی ہے، نوجوانوں کو شارٹ کٹ کے بجائے جدوجہد جاری رکھنا چاہیے، ٹیلنٹ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا اور ایک نہ ایک دن دنیا آپ کو قبول کرلے گی۔

The post جب علی عظمت سے کلاشنکوف برآمد ہوئی، گلوکار کا دلچسپ انٹرویو appeared first on ایکسپریس اردو.

چونیاں میں آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کرنے والی خاتون گرفتار

$
0
0

قصور: چونیاں میں آشنا اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کرنے والی خاتون کو گرفتار کرلیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چونیاں کے علاقے تھانہ کنگن پور کی حدود میں سرکٹی لاش برآمد ہونے کا معاملہ حل ہوگیا، پولیس حکام کے مطابق کنگن پور کے علاقے سے ملنے والی سرکٹی لاش نذیر نامی شخص کی تھی جسے اس کی بیوی نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر قتل کیا۔

ڈی ایس پی شمس الحق درانی نے بتایا ہے کہ کنگن پور کے علاقے آرائیاں والا میں فصل سے سرکٹی نامعلوم شخص کی لاش برآمد ہوئی تھی، جس کے بعد چونیاں پولیس ایس ایچ او کی زیرنگرانی ایک ٹیم تشکیل دے کر کارروائی کا آغاز کیا گیا، کارروائی میں ملنے والی سرکٹی لاش کی شناخت نذیر ولد شفیع کے نام سے ہوئی۔

ڈی ایس پی کے مطابق تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ نذیر کے قتل میں مقتول کی بیوی ہی ملوث تھی جس کے بابر نامی شخص سے ناجائز تعلقات تھے، مقتول نذیر ملزمان کو قتل کی دھمکیاں دیتا تھا، جس پر مقتول کی بیوی سعدیہ کنول، جابر علی، بابرعلی اور مبارک علی نے نذیر کو بیوی کے ذریعے فون کرکے بلوایا اور اسے بے دردی سے قتل کرکے اس کا سر اور بازو الگ کردیئے۔

شمس الحق درانی کا کہنا تھا کہ ملزمان نے نذیر کو قتل کرکے فصلوں میں پھینک دیا اور فرار ہوگئے تاہم پولیس نے موقع سے ملنے والی موٹر سائیکل چابی سے ٹریس کرکے ملزمان کو گرفتار کرلیا اور آلہ قتل بھی برآمد کرلیا۔

The post چونیاں میں آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کرنے والی خاتون گرفتار appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈیمنشیا؛ یاداشت کی کمی کی بیماری

$
0
0

Dementia ایک ایسی بیماری میں جس میں یادداشت نہایت کم زور ہوجاتی ہے۔ یہ بیماری Acetylcholineجو کہ ایک دماغی کیمیکل ہے، جو یادداشت کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، اس میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

اس کیمیکل میں کمی کے باعث رویہ میں تبدیلی اور یادداشت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ Dementia کسی بھی طبقے کے کسی بھی فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 5-7 لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ Dementia کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاًVitamin B12  کی کمی۔ وہ لوگ جو سبزیاں زیادہ کھاتے ہیں ان میں یہ مرض بہت عام ہے۔

اس کے علاوہ گلے کے غدود کا مسئلہ Hypothyroidism اور دماغ کی رسولیMeningioma یہ وہ وجوہات ہیں جن کو اگر ہم Treatکر دیں تو مریض کا Dementiaکا مرض ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ شراب نوشی، نیند کی گولیوں کا زیاد ہ سے زیادہ استعمال Dementia کا سبب بنتی ہے۔ کسی بھی وجہ سر میں چوٹ لگ جانا Dementia کا سبب ہے۔

Dementia کی سب سے بڑی وجہAlzheimer Diseaseہے جو مغربی ممالک میں بہت عام ہے، جب کہ ہمارے یہاں Vascular Dementiaیعنی کے دماغ کی Vesselsخون کی شریانوں کا کم زور ہو جانا، کیوںکہ ہمارے یہاں شوگر اور بلڈ پریشر کا مرض بہت عام ہے۔ اس لیے Vascular Dementiaہمارے معاشرے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ( Hydrocephalus Normal Pressure)NPH  یعنی دماغ کی نالیوں میں پانی عام مقدار سے زیادہ بھر جانا اور دماغ کا پریشر بڑھ جانا۔ NPHمیں مریض کا بھولنے کے ساتھ ساتھ چلنے میں دشواری اور پیشاب پر قابو ختم ہو جاتا ہے۔ NPH بھی ایک Treatable Cause ہے Dementia کا۔

Dementia میں یادداشت میں کمی اس طرح سے شروع ہوتی ہے کہ مریض چھوٹی چھوٹی باتیں بھول جاتا ہے۔ مثلاً گھر والوں کے نام، کوئی بھی چیز کہیں پر رکھ کر بھول جانا، گھر کا راستہ، مسجد کا راستہ، نماز بھول جانا، یہاں تک کہ اس کو پرانی ساری چیزیں یاد ہوں گی، مثلاً 65کی جنگ، 92کے ورلڈ کپ کی باتیں، لیکن وہ نئی باتیں بھول جائے گا۔یہ بیماری دماغ کے بات چیت کرنے والے حصے کو بھی متاثر کرتی ہے۔ مثلاً اپنی بات کو سمجھانے میں، اور دوسروں کی بات سمجھنے میں دشواری ہونا ، ایک ہی بات کو بار بار دہرانا۔

یہ بیماری دماغ کے اس حصے کو بھی متاثر کرتی ہے جس سے انسان روزمرہ کی چیزوں کو پہچانتا ہے۔ مثلاً چابی کو دیکھ کر چابی نہیں بولے گا، موبائل فون کو دیکھ کر موبائل فون نہیں بولے گا۔

اس بیماری میں مریض کے روزمرہ کے وہ کام جو وہ خود کرتا ہے متاثر ہوں گے مثلاً کپڑے تبدیل کرنا، کھانا کھانا، بال بنانا اور شیو کرنا۔ یہ سب متاثر ہوں گے۔جیسے جیسے یہ مرض بڑھتا ہے مریض کے اندر کچھ نفسیاتی مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً Halucination یعنی کچھ ایسی چیزیں اس کو نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں جو کہ کمرے میں موجود اور لوگوں کو نظر نہیں آتیں Visual Halucination اور Auditory Halucination کا مطلب ہے کانوں میں آوازیں آنا۔ اس کے ساتھ ساتھ Delusion یعنی مریض دوسروں پر شک کرے گا۔ٓٓ اس قسم کی علامات سے مریض پریشان ہو کر Depression کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ لوگوں کے سامنے جانے سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے آپ کو اکیلا تنہا کر لیتا ہے۔

اس قسم کے مریضوں کی دیکھ بھال بہت ہی محتاط طریقے سے کرنی چاہیے۔ خاص کر ایسے مریضوں کو گھر سے باہر نہیں جانے دینا چاہیے۔ اگر گھر سے باہر چلے بھی جائیں تو ان کے گلے میں یا ہاتھ میں ایک کارڈ یا بینڈ باندھ دینا چاہیے۔ اس پر گھر کا پتا اور موبائل نمبر درج ہونا چاہیے۔ مریض سے بات چیت کرنا، صبح سویرے دھوپ میں بٹھانا، شوگر اور بلڈ پریشر کی گولیاں باقاعدگی سے دینا اور ان سب کے ساتھ روزانہ صبح ناشتے سے پہلے کلونجی اور شہد کا استعمال مریض کے لیے خاصا مفید ثابت ہوتا ہے۔ کچھ میڈیسنز وغیرہ کے استعمال سے اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن مکمل طور پر اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے ساتھ ساتھ روزانہ 30 منٹ کی چہل قدمی، گھر والوں کا اس مریض کے ساتھ روزانہ بات چیت کا عمل جاری رکھنا، مریض کی صاف ستھرائی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

The post ڈیمنشیا؛ یاداشت کی کمی کی بیماری appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمارے زرعی سائنس داں اپنے محاذ پر سرگرم

$
0
0

پلانٹ بریڈنگ کا عمل زراعت کی دنیا میں مکمل طور پر انسان کی سوچ پر مبنی ہے۔وہ جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے اور جس انداز میں چاہتا ہے فصلوں کی نت نئی اقسام تیار کر لیتا ہے۔

یاد کریں قیام پاکستان سے قبل گندم کی قسم C-571 ہوتی تھی، مگر دراز قامت (یعنی 115 سینٹی میٹر) تھی، پلانٹ بریڈرز نے سوچا کہ اگر اس کا قد کم ہوجائے تو اس کی فصل آندھی وغیرہ کی وجہ سے گرنے سے بچ سکتی ہے۔ چناںچہ پلانٹ بریڈرز کی کوششوں سے گندم کی فصل کا قد کم ہو گیا۔ پھر اس نے سوچا کہ گندم کی فصل کی پیداوار ڈبل ہو جائے، ادھر پلانٹ بریڈرز نے سوچا تو ادھر اس کی سوچ کا ردعمل بھی سامنے آگیا اور پیداوار جو 1947 میں 7 من فی ایکڑ تھی وہ چند ہی سالوں میں 15 من فی ایکڑ ہو گئی ، پھر اس نے سوچا کہ گندم کے دانوں کے اوپر جو چھلکا نما کسار (awn) ہے۔ اس کو ختم ہونا چاہیے تاکہ گند م کی تھریشنگ اور پھر آٹا بننے کے عمل کے دوران کوئی رکاوٹ نہ بنے چنانچہ گندم کی قسم کوہ نور83- بنا ڈالی جس کو گنجی یا کونی قسم بھی کہتے ہیں، لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ گندم کی فصل کے پکنے کے دوران چڑیاں آتیں اور کھیت میں کھڑی گندم کی فصل پر لگے خوشوں سے چپکے سے دانہ نکال کر لے جاتیں، جس سے پیداوار خاصی کم ہوجاتی۔ چناںچہ دوبارہ گنجی قسم بنانے کا عمل روک دیا گیا۔ اس ساری تمہید کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کی ہر تخلیق کے پیچھے انسانی سوچ ہی کارفرما ہے۔ دنیا کے آئے دن تغیراتی موسم کے پیچھے تو قدرت کی سوچ کا عمل د خل ہے مگر اس تبدیل شدہ موسم میں فصلوں کی نت نئی اقسام کی تیاری کے پیچھے انسانی سوچ کارفرما ہے۔

لہٰذا زیادہ بارشیں ، زیادہ گرمی، یک دم ٹھنڈ، خشک سالی ۔۔۔ یہ ہیں وہ عوامل جس میں رہ کر ایک زرعی سائنس داں فصلات کی نئی اقسام تیار کرتا ہے اور کسی بھی ایک قسم کی تیاری میں 10 سے 12 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے، فیصل آباد میں واقع ایوب ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (AARI) ، پاکستان کا واحد اور سب سے بڑا زرعی ادارہ ہے۔

جہاں غذائی سرحدوں کے تحفظ کے لیے ہر سائنس داں ہمہ وقت نت نئی ٹیکنالوجی سے لیس ہوکر نہ صرف چوکس ہے بلکہ غذائی خود کفالت کے لیے اقوام عالم میں نمایاں مقام دلانے میں بھی پیش پیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان گندم، چاول، چینی، گنا، کپاس اور دیگر فصلوں میں خودکفیل بھی ہے اور پیداوار کے لحاظ سے متذکرہ فصلیں ہمارا ملک دنیا کے پہلے دس ممالک کی فہرست میں بھی موجود ہے۔

محکمہ زراعت حکومت پنجاب نے پنجاب سیڈ کونسل کے اجلاس میں ایوب ریسرچ کی طرف سے فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کی زیادہ پیداوار کی حامل33 نئی اقسام کی عام کاشت کے لیے کی منظوری دے دی ہے۔ اس موقع پر ایوب ریسرچ کے ڈائریکٹر جنرل ریسرچ ڈاکٹر عابد محمود نے کہا کہ منظور کی جانے والی یہ 33 اقسام جب عام زمینداروں اور کاشتکاروں تک جائیں گی اور ہمارے وضع کردہ طریقہ کا ر سے کاشت کی گئیں تو ان کی پیداوار میں اضافہ کی توقع نہ صرف یقینی ہے بلکہ ان کی معاشی صورت حال بھی مستحکم ہو گی۔

قارئین! ان 33 اقسام میں سے چند ایک کی وضاحت درج کی جارہی ہے تاکہ عام شہری اس امر سے آگاہ ہو سکے کہ غذائی خود کفالت کے لیے فصلوں میں نئی قسم کیسے تیار کی جاتی ہے:

٭مہک: ہلدی کی پیداوار والے بڑے بڑے ممالک میں ترکی، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، انڈیا اور چین کا شمار ہوتا ہے۔ پاکستان ہلدی پیدا کرنے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ہلدی پاکستان 212 ٹن برآمد تو کر رہا ہے مگر اعلیٰ کوالٹی کی 142ٹن کی ہلدی درآمد بھی کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مقامی طور پر ہلدی کی کوئی نئی قسم کی تیار کی جائے۔ ادارہ تحقیقات سبزیات، فیصل آباد میں اگرچہ ہلدی پر تحقیق کم ہو رہی ہے اور یہاں پر سرے سے کوئی قسم موجود بھی نہیں تھی۔

لہٰذا اعلیٰ قسم کی ہلدی کی تیاری کا کام شروع ہوا تو مہک  نے کسانوں کے ہاں بھی بہترین نتائج دیے، جس کے مطابق 25تا30 گنڈیاں (Rhizomes) فی پودا بنے اور فروخت کے قابل20تا25 گنڈیاں تھیں جن کا وزن تقریباً نصف کلو گرام کے لگ بھگ تھا اور یوں ان گنڈیوں کی اوسط پیداوار 20تا22 ٹن فی ہیکٹر رہی۔ یہ قسم زمین سے خوشبو پھیلاتے ہوئے سیدھی اوپر کو نشوونما پاتی ہے۔ ہلدی کی اس نئی اور پہلی قسم مہک کی تیاری میں غضنفر حماد، ڈاکٹر قیصر لطیف چیمہ، ڈاکٹر تصدیق حسین، ڈاکٹر اختر سعید اور محمد نجیب اللہ شامل ہیں۔

٭گولڈن جیوٹ 18- :جیوٹ یعنی پٹ سن ایک قدرتی ریشہ ہے جسے گولڈن فائبر سے بھی موسوم کیا جاتا ہے جس کی کاشت میں انڈیا، بنگلادیش، چین اور تھائی لینڈ دنیا کے نمایاں ترین ملک ہیں۔ اس وقت پنجاب میں جیوٹ کا زیرکاشت رقبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ کہ کہ مقامی پٹ سن کی بجائے قیمتی زرمبادلہ خرچ کرکے جیوٹ انڈسٹری کے لیے بیرون ممالک سے جیوٹ منگوایا جا رہا ہے، مگر اب جیوٹ میں مستقبل کا انحصار ایگرونومک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، فیصل آباد کی تیارکردہ نئی اور پہلی قسم JFC-17 پر کیا جا سکتا ہے، کیوںکہ بقیہ اقسام کی نسبت 25تا40 من اس کی پیداواری صلاحیت زیادہ ہے ، جب کہ پچھلے سال اسی لائن نے 50 من فی ایکڑ کے ہندسے کو بھی عبور کیا۔

پاکستان بھر میں پہلی کوئی قسم موجود نہ تھی اور یہ پہلی قسم ہے جو ایوب ریسرچ کے سائنس دانوں نے تیار کی ہے۔ خریف کی بقیہ فصلوں کی نسبت، دریائی علاقوں میں کاشت منافع بخش ہونے  سے بھی اس قسم کا کسان کی معاشی ترقی میں بہتری لانے میں اہم کردار ہے۔ گولڈن جیوٹ 18- کی تیاری میں حافظ محمد اکرم، ڈاکٹر نعیم خاں، ثوبیہ اعجاز اور ڈاکٹر سعید اشرف جیسے نمایاں سائنسدان شامل ہیں۔

٭جو17- / سلطان 17-   :نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ غذاؤں میں جو یعنی Barley کو بھی شامل ہونے کا شرف حاصل ہے، مگر مقام تفکر ہے کہ ملک بھر میں اس پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ادارہ تحقیقات گندم، فیصل آباد میں جو کی 3 اقسام یعنی جو83- ، جو 87- اور حیدر93- کوئی 20 سے 30 سال پہلے کی تیار کردہ ہیں مگر اب جو کی 2 نئی اقسام کی تیاری کا اعزاز بھی اس ادارے کو ملا ہے۔ ملک شام کے تحقیقی ادارے ICARDA سے جو کی کچھ لائنیں درآمد کی گئیں اور تجربات میں سے گزارا گیا۔ جہاں لائن نمبرB-09018 نے چیک ورائٹی کی نسبت23 فیصد زائد پیداوار دی۔

یاد رہے کہ حیدر 93-  کے سٹوں پر دانوں کی 6 قطاریں ہوتی ہیں جبکہ لائن نمبرB-09018 پر خوشوں پر دانوں کی 2 قطاریں تھیں اور یوں اس لیے بھی یہ لائن قابل توجہ رہی، کیوںکہ یہ بیماریوں سے پاک بھی تھی۔ جو کی ایک دوسری قسم بھی عام کاشت کے لیے منظور کی گئی۔ اس کے معاشی اشاریے بھی اپنے چیک ورائٹی سے زیادہ رہے اور اسے سلطان ستارہ یعنی سلطان2017- کے نام سے عام کاشت کے لئے سفارش کر دی گئی۔ جو کی دونوں اقسام کی تیاری میں ڈاکٹر جاوید احمد، ڈاکٹر غلام محبوب سبحانی مرحوم اور مسٹر عبداللہ شامل ہیں۔

٭پنجاب مسور2018- :ادارہ تحقیقات دالیں، فیصل آباد کی تیار کردہ پنجاب مسور2018- کی جڑیں100 سینٹی میٹر تک گہرائی میں جانے کی وجہ سے پانی کے کمی والے علاقوں میں بھی اس لائن نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ اس نئی قسم میں پنجاب مسور 2009- کی نسبت پنجاب مسور2018-  میں زیادہ پروٹین (29.2%) ہے جبکہ پکنے کے بعد اس کے دانے کا پھیلاؤ2.5 گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے 2 بندوں کی ڈش میں4 بندے آرام سے کھانا کھا لیتے ہیں۔ پنجاب مسور2018- میں ایک پھلی میں 3 دانے اور گانٹھ میں 5 پھلیوں کی وجہ سے اکائی رقبہ پر اس کی پیداوار کا بڑھ جانا یقینی ہوتا ہے۔ پانی والے علاقوں اور خشک سالی میں زیادہ پیداوار کی حامل قرار دی جانے والی اس قسم کی تیاری میں نمایاں سائنسدانوں میں چوہدری محمد رفیق، ڈاکٹر فیض، ڈاکٹر اظہر اقبال اور ڈاکٹر عزیز الرحمٰان نمایاں ہیں۔

٭پنجاب برسیم(SB-11):چارے کی یہ قسم جو اپنے چارے اور بیج کی زیادہ پیداواری صلاحیت، چارے کی اعلیٰ کوالٹی اور بھوسے کی بہترین غذائی مقدار کے حصول کے لیے ادارہ تحقیقات چارہ جات، سرگودھا کے سائنس دانوں کی عظیم کاوش ہے۔ اس کا پودا 75 سینٹی میٹر لمبا ہے جس پر فی مربع میٹر پر400تا500 شاخیں لگ جاتی ہیں۔ اس پر سبز رنگ کے چوڑے پتے لگتے ہیں جو درجۂ حرارت اور گرمی کے خلاف نیم قوت مدافعت کا حامل ہے۔

SB-11 نے قومی سطح کے تجربات میں72.76 ٹن فی ہیکٹر کے ساتھ چیک قسم کی نسبت2.9 فیصد زائد پیداوار دی۔ اس قسم کو اگر 30ستمبر کو کاشت کیا جائے تو بقیہ اوقات کاشت کی نسبت زیادہ پیداوار آتی ہے، جبکہ 14 پانیوں کی بجائے10 آبپاشیوں سے زیادہ پیداوار دیکھی گئی ہے۔ ذائقے اور ہاضمے کے اعتبار سے SB-11 یعنی پنجاب برسیم زیادہ سودمند دکھائی دی ہے۔ اس کے بیجوں کے ہزار دانوں کا وزن3.00 تا3.5گرام ہے جبکہ اس کا سبز چارہ ایک ہیکٹر سے 12,000 کلو گرام تک آجاتا ہے۔ اس کی تیاری میں نمایاں سائنسدانوں میں محمد سلیم اختر، امیر عبداللہ، محمد ریاض گوندل، ڈاکٹر سلیم ، عبدالرزاق اور شکیل حنیف شامل ہیں۔

٭نور2018- : قومی سطح کے 2014-15 کے تجربات میںK-09012 یعنی نور 2018 نے ملک بھر کے 8 مقامات سے اوسط پیداوار827 کلو گرام فی ایکڑ دی جبکہ اسی ٹرائل میں سب سے کم پیداوار تحقیقاتی اسٹیشن برائے دالیں، ٹانڈو جام سندھ کی لائن بے نظیر کے پیداوار فقط 245 کلو گرام رہی، اور اگلے برس یعنی 2015-16 میں تجربے میں شامل 12 لائنوں میں سے K-09012 نے 1357 کلو گرام پیداوار کے ساتھ پاکستان بھر میں سرفہرست رہی، جس پر PCK-09012 کی، نور2018- کے نام سے پنجاب سیڈ کونسل نے عام کاشت کے لیے منظوری دے دی۔ اس قسم کی تیاری میں ادارہ تحقیقات دالیں فیصل آباد کے سائنس داں شامل ہیں۔

٭ساہیوال گولڈ: ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کی تیار کی جانے والی مکئی کی زیادہ پیداوار کی حامل نئی قسم ہے، جسے عام کاشت کے لیے پنجاب، خیبرپختونخواہ اور آزاد جموں و کشمیر کے منظور کیا گیا ہے۔ قومی و صوبائی سطح کے مقابلوں میں نئی قسم ساہیوال گولڈ نے 20تا25 فیصد زیادہ پیداوار دی، جب کہ شدید تغیراتی موسم میں درخت کی طرح کھڑی رہنے والی یہ قسم پکنے کے دوران دیر تک ہری بھری رہتی ہے۔ درازقد ہونے کی وجہ سے اس کے چارے سے بھی اس نئی قسم کو مال مویشیوں کے لیے استفادہ کروایا جاسکتا ہے۔ دونوں موسموں کے لیے بہترین قسم ساہیوال گولڈ کی تیاری میں ڈاکٹر ارشد، میاں شفیق، عامر حسین اور اسرار محبوب شامل ہیں۔

٭  گوہر 19-: مکئی کی یہ قسم ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کے قدرتی ماحول میں تیار کی گئی مکمل دورانیے میں سفید رنگ کی یہ فصل پنجاب، KPK ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام علاقوں میں کاشت کے لیے موزوں ترین قسم ہے۔ گوہر19- نے قومی سطح پر 30.8 فیصد زائد پیداوار دی۔ چنانچہ 6جون 2018 کو ایکسپرٹ سب کمیٹی نے فیلڈ میں خود جاکر اس نئی قسم کا معائنہ کیا اور پنجاب سیڈ کونسل کو سفارشات دیں کہ گوہر19- کی پرل قسم سے 14 فیصد زیادہ پیداوار ہے اور شدید موسمی حالات میں بھی اس قسم کے پودے زمین پر جم کر کھڑے رہتے ہیں، اسے بیک وقت دانوں، چارے اور چارے کی محفوظ ذخیرہ اندوزی کے لیے بھی کاشت کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

٭سمٹ پاک: یہ مختصر دورانیے کی سفید مکئی کی قسم ہے جسے پنجاب، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے تمام علاقوں کے لیے کاشت کرنے کی منظوری دی گئی ہے اس قسم کو بھی ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کے سائنس دانوں نے اپنی طویل عرق ریزی کے بعد تیار کی ، اس قسم کو بین الاقوامی ادارہ تحقیقات گندم و مکئی، میکسیکو کے تعاون سے معاہدۂ تبادلہ اقسام کے تحت چند لائنیں درآمد کی گئیں جن میں بے شمار لائنوں میں سے سمٹ پاک لائن نے حیران کن نتائج دیے جس کے مطابق موسم بہار میں یہ قسم 90 تا100 میں پک جاتی ہے جبکہ اس کی پیداواری صلاحیت70 ٹن فی ہیکٹر ہے۔

٭پاپ ون: زیادہ پیداوار کی حامل یہ قسم ایک مکمل دورانیے کی قسم ہے جو عام کاشت کے لیے پنجاب، خیبر پختونخواہ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت و بلتستان کے علاقوں کے لیے منظور کی گئی۔ پاپ ون قسم کا دانہ اپنے سائز یا حجم  (Popping)میں گرم کرنے میں اضافہ کرلیتا ہے۔ بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول اور کھائی جانے والی پاپ کی کوئی قسم پاکستان بھر میں دستیاب نہیں تھی، جس کی درآمد کے لیے خاصا زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا تھا، لہٰذا ضرورت اس امر کی تھی کہ مقامی طور پر  ’’ پاپ کارن‘‘ کی قسم ہنگامی بنیادوں پر تیار کی جائے۔ چناںچہ یوسف والا پولز20- میں سے 4 لائنوں کو ایک مجوزہ ترتیب اور تجربات میں سے گزار کر پاکستان میں پاپ کارن میں پہلی قسم  ’’پاپ ون‘‘تیا کرلی گئی۔ یہ قسم اپنے دانے کے پھیلاؤ کی وجہ سے صارفین اور انڈسٹری دونوں کی ضرورت رہے گی۔

٭سپر گرین: چارے کی زیادہ پیداوار کی یہ قسم پکنے کے آخر تک نہ صرف سبز رہتی ہے بلکہ اس کی غذائی اہمیت بھی دوسرے چاروں سے زیادہ پائی گئی ہے۔ اسے ادارہ تحقیقات چارہ جات، سرگودھا کے زرعی سائنسدانوں نے تیار کیا ہے، جن کے مطابق چارے کی دوسری اقسام جن میں افگوئی، ایم ایس 2010- اور سرحد وائیٹ شامل ہیں سے سُپر گرین اخذ کی گئی ہے۔ چارے کی یہ قسم 10 فیصد زیادہ چارہ دیتی ہے جبکہ پودوں پر پتوں کا رقبہ اور ان کی تعداد دوسری اقسام کی نسبت زیادہ ہے۔ دیر تک سبز رہنے والی سپر گرین اپنے ذائقے کی وجہ سے جانووں میں یکساں مقبول ہے اور پنجاب کے وہ تمام علاقے جہاں پانی کی سہولیات وافر ہیں وہاں کسان اسے شوق سے کاشت کرتے ہیں۔ اس کی تیاری میں محمد سلیم اختر کے ساتھ ساتھ عبدالباسط، عبدالجبار اور غلام نبی شامل ہیں۔

٭ایف ایچ1036- : چھلی کی یہ قسم ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کے ذیلی ادارہ مکئی تحقیقاتی اسٹیشن واقع ایوب ریسرچ فیصل آباد کی تیار کردہ ہے۔ وفاقی سطح پر2017 میں اس کو 82 دوسری اقسام کے ساتھ 6 مختلف مقامات پر کاشت کیا گیا۔ FH-1036 نے اپنی چیک قسم کی نسبت16   فیصد زیادہ پیداوار دی۔ کیڑوں، بیماریوں اور گرنے کے خلاف قوت مدافعت کا حامل یہ ہائبرڈ پکنے کے بعد دیر تک کھیت میں ہرا بھرا رہتا ہے جس کی وجہ سے ضیائی تالیف کا یہ عمل بھی دیر تک جاری رہتا ہے، جو  بعدازاں دانوں کے وزنی بننے کا سبب رہتا ہے۔ اس ہائبرڈ کی تیاری میں ڈاکٹر ارشد، محمد رفیق، احسن رضا ملہی اور عامر حسین شامل ہیں۔

٭بارانی ماش: دال ماش کی یہ قسم بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ، چکوال کی تیار کردہ ہے جہاں 2012تا2016 کے دوران دال کی مقامی لائنوں سے بہتر کارکردگی دکھانے والی لائن11CM-707 کا چناؤ عمل میں لایا گیا، اپنے ابتدائی تجربات میں بہترین کارکردگی کی حامل اس لائن کو وفاقی سطح کے تجربات 2016 میں شامل کر لیا گیا۔

جہاں اپنی پیداواری صلاحیت کی بنا پر 6 مقامات پر سرفہرست رہی اور 1035 کلو گرام فی ہیکٹر پیداوار آئی ، اور مجموعی طور پر 11 پیداواری تجربات میں 11 CM-707 نے کنٹرول (چیک) ورائٹی چکوال ماش سے 16  فیصد پیداوار زیادہ دی اور ایک دوسرے چیک عروج قسم کی نسبت اس کی پیداوار 23 فیصد زیادہ رہی۔ پنجاب سیڈ کونسل نے بارانی ماش کو پنجاب کے تمام بارانی علاقوں میں کاشت کی منظوری کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسے یکم جولائی سے 15 جولائی کے درمیان کاشت کیا جائے تو زیادہ پیداوار آتی ہے۔ بارانی ماش کی تیاری میں محمد عظیم طارق، ڈاکٹر غلام ربانی اور جاوید اقبال شامل ہیں۔

٭فخر پنجاب : یہ چری یعنی سارگم چارے کا نیا ہائبرڈ ہے جو جلد پکنے، درمیانے قدوقامت کے ساتھ زیادہ پیداوار کا حامل ہے، جسے پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں کاشت کے لیے منظور کیا گیا۔ ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کی اس قسم کے پنجاب بھر میں تجربات ہوئے اور 23 من فی ایکڑ کے ساتھ اس لائن نے بہتر کارکردگی دکھائی، فخر پنجاب، پاکستان کا پہلا مقامی طور پر بننے والا ہائبرڈ ہے، اسی طرح پھلو ں میں انار کی نئی اقسام میں پرل، گولڈن، کھجور میں شاکری، شامران، زاہدی، اصیل، خودروی، حلاوی، حلینی، کپرا، بیر میں پاک وائیٹ، اومران، انوکھی ، سوفان ، بہاول ایس ایل شامل ہیں، جن کی تیاری میں مسٹر فیاض، مطیع اللہ، محمد اخلاق اور اظہر بشیر کی دن رات کی محنت شامل ہے۔

The post ہمارے زرعی سائنس داں اپنے محاذ پر سرگرم appeared first on ایکسپریس اردو.

آر ایس ایس کی نظریاتی تاریخ

$
0
0

’’ہندوستان میں آباد تمام اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو مقامی رسم و رواج اور طور طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ وہ یہاں رہتے ہوئے کھلم کھلا اپنے مذہبی عقائد کی اشاعت نہیں کرسکتے۔ اگر انہوں نے اپنے رنگ ڈھنگ تبدیل نہ کیے تو ہندوستان میں بھی اندلس کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔‘‘

ساٹھ سال قبل پیش کیے گئے درج بالا اعلان کو زبانی دعوی مت سمجھئے،یہ آج بھارت میں عملی جامہ پہن چکا۔اندلس کی طرح بھارت میں بھی مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کر دینے کے سوچے سمجھے ظالمانہ و خوفناک پلان پہ ہندو انتہا پسند عمل شروع کر چکے۔پلان بنانے والوں کا حقیقی ارادہ یہ ہے کہ سرزمین بھارت سے مسلمانوں کا وجود مٹا دیا جائے۔

اگر ایسا نہ ہو سکے تو کشمیر سمیت تمام بھارتی ریاستوں میں آباد مسلمان اتنے زیادہ خوفزدہ اور دبا دئیے جائیں کہ وہ اندلس کی طرح بھارت میں بھی اپنا مذہب،تشخص اور تہذیب و ثقافت پوشیدہ رکھنے پر مجبور ہو جائیں تاکہ اپنی جانیں ہندو انتہا پسندوں کی وحشت و بربریت سے بچا سکیں۔ یہ جملے کسی عام انتہا پسند ہندو نہیں مہادیو گوالکر کی کتاب’’Bunch of Thoughts‘‘ سے لیے گئے ہیں جو 1966ء میں شائع ہوئی تھی۔

گوالکر تیتیس سال (1940ء تا 1973ء) ہندو انتہا پسند اور متشدد تنظیم، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کا سربراہ رہا۔ اسی نے بھارت میں آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو جماعتوں کو مقبول بنایا اور انھیں ’’سنگھ پریوار ‘‘کے جھنڈے تلے جمع کر دیا۔ نریندر مودی، امیت شاہ، راجناتھ سنگھ اور دیگر انتہا پسند ہندو لیڈر اسے ’’گروگوالکر‘‘ کہتے اور اس کے نظریات پر شدومد سے عمل پیرا ہیں۔ اسی گوالکر نے 1938ء میں ناگ پور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانانِ ہندوستان کو دھمکی دی تھی:

’’اگر انہوں نے ہندوستان میں اپنا علیحدہ مذہبی، معاشرتی اور معاشی تشخص برقرار رکھا تو جس طرح ہٹلر نے جرمنی میں یہود کا صفایا کیا ہے، ہم بھی یہاں سے مسلمانوں کا صفایا کردیں گے۔‘‘

آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی دیگر جماعتوں مثلاً شیوسینا، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد، آریہ سماج، ہندو مہاسبھا وغیرہ انتہا پسند اور قوم پرست جماعتوں کا بنیادی لائحہ عمل یہ ہے کہ بھارت کو ہندو ریاست (ہندو راشٹریہ) بنادیا جائے۔ اس مذہبی ریاست میں اقلیتیں اچھوتوں جیسا درجہ رکھیں گی۔انھیں واجبی حقوق ہی مل سکیں گے۔ درحقیقت ان تنظیموں کی بھرپور کوشش ہے کہ ترغیب و تحریض یا زور زبردستی سے سبھی مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے پیروکاروں کو ہندو بنالیا جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے کئی خفیہ و عیاں منصوبے شروع کررکھے ہیں۔ سبھی ہندو تنظیمیں بظاہر سماجی بہبود کے کام انجام دیتی ہیں مگر ان کی اصل مذہبی بنیادوں پر استوار ہے۔

مذہب امن و محبت کا پیغام دیتے اور بنی نوع انسان کو خیر و فلاح کا راستہ دکھلاتے ہیں۔ مگر انتہا پسند اور ذاتی خواہشات کے اسیر انسان مذہب کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے نفرت و تشدد کا ہتھیار بنالیتے ہیں۔ اس غیر معمولی مظہر کی نمایاں مثال آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیمیں ہیں۔ یاد رہے، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) آر ایس ایس ہی کا سیاسی بہروپ ہے۔

 بڑھتی مقبولیت اور سوچ سے آگاہی

بھارت میں ہندو انتہا پسندوں اور قوم پرستوں کی بڑھتی مقبولیت برصغیر پاک و ہند میں نفرت و عدم برداشت کی آگ بھڑکا چکی۔ بھارت و پاکستان ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے۔ خطرے کی بات یہ کہ بھارت معاشی مسائل میں گرفتار ہو چکا مگر وزیراعظم مودی کی زیر قیادت ہندو انتہا پسند پھل پھول رہے ہیں۔اکثر بھارتی ریاستوں میں ان کی وجہ سے نفرت کا زہر اس حد تک پھیل چکا کہ خصوصاً مسلمان اسلامی لباس پہننے، ڈاڑھی رکھنے اور اردو بولنے سے گھبرانے لگے ہیں۔

ان پر ہر وقت یہ خوف سوار رہتا ہے کہ انتہا پسند ہندو کسی معمولی بات پر انہیں مار ڈالیں گے۔ خوف و ہراس کے عالم میں کئی بھارتی مسلمان اپنی جانیں اور مال و متاع بچانے کے لیے ہندوانہ رہن سہن اختیار کر چکے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں اقلیت پر اکثریت اتنے ظلم و ستم نہیں توڑ رہی جیسے بھارت میں لرزہ خیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس خوفناک صورتحال سے عیاں ہے ،ہمارے بزرگوں کی یہ پیشن گوئی درست ثابت ہوئی کہ اگر ہندو اکثریت حاکم بنی تو وہ مسلم اقلیت کو چین و سکون سے جینے نہیں دے گی۔

بھارتی الیکشن 2014ء میں بی جے پی نے 17 کروڑ 16 لاکھ ووٹ لیے تھے۔ اس کی اتحادی جماعتیں تین کروڑ ووٹ لینے میں کامیاب رہیں۔ گویا حکمران اتحاد نے بیس کروڑ سولہ لاکھ ووٹ لیے تھے۔ الیکشن 2019ء میں بی جے پی نے 29 کروڑ 90 لاکھ ووٹ پائے۔یوںاس کے ووٹ بینک میں ساڑھے بارہ کروڑ سے زائد ووٹوں کا اضافہ ہوگیا۔ حکمران اتحاد کل 33 کروڑ 90 لاکھ ووٹ لینے میں کامیاب رہااور اس کا مجموعی ووٹ بینک تقریباً چودہ کروڑ ووٹوں سے بڑھ گیا۔ ان اعدادو شمار سے عیاں ہے کہ بھارت میں انتہا پسند اور قوم پرست جماعتوں کی مقبولیت بڑھ رہی ہے جو بھارتی اقلیتوں اور مسلمانان پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

ان فرقہ ورانہ اور مسلم دشمن قوتوں کی حکمرانی بھارت میں مزید مستحکم ہوئی تو بھارتی و پاکستانی افواج کے مابین ٹکراؤ کا امکان بڑھ جائے گا۔وجہ یہ کہ جب سے ہندو انتہا پسند نریندر مودی کی زیرقیادت برسراقتدار آئے ہیں،بھارت میں مسلم اقلیت پر ظلم وستم کرنے کی اذیت ناک مہم جاری ہے۔جلد ہی مودی حکومت نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے مختلف خفیہ و عیاں منصوبے شروع کر دئیے۔بھارتی حکمران طبقے کا مشن یہ ہے کہ پاکستان کو اتنا کمزر کر دیا جائے کہ وہ جنگ کی صورت زیادہ عرصے مقابلہ نہ کر سکے۔ریاست جموں وکشمیر پہ قبضہ بھی اسی منصوبے کی کڑی ہے کہ پاکستانی زراعت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھنے والے دریا وہاں سے گذرتے ہیں۔مودی حکومت کئی بار ان کے پانی پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے چکی۔

دشمن کی فکر وسوچ اور چالیں سمجھنے کے لیے اس کے نظریات، فکر اور تاریخ سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔اس طرح دشمن کا مقابلہ کرنا سہل ہو جاتا ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ پاکستانی افواج اور قوم کا ہر فرد دشمن کی ذہنیت ،نظریوں اور تاریخ سے بخوبی آگاہ ہو تاکہ نظریات کی جنگ میں بھی اسے شکست دی جا سکے۔یہ آگاہی پالینے کے بعد ہی پاکستانی قوم کو احساس ہوگا کہ پڑوس میں نہایت خطرناک آئیڈیالوجی پرورش پاچکی۔ نفرت اور دشمنی پر مبنی اس ذہنیت کا مقابلہ تبھی ممکن ہے جب سبھی پاکستانی اپنی ذاتی و گروہی مفادات تج کر اجتماعی و قومی فکر اپنالیں۔ اگر وہ اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے، تو دشمن ایک دن انہیں آن دبوچے گا۔ تب اہل پاکستان کی ساری شان و شوکت، آرام و سکون اور آسائشیں خاک میں مل سکتی ہیں۔ مگر تب ہوش میں آنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔

یورپی دانشوروں کا کردار

تاریخ یہ حیرت انگیز انکشاف کرتی ہے کہ ہندو انتہا پسندی کے نظریات تشکیل دینے میں یورپی دانشوروں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ہندو انتہا پسندی کو مغربی دانشوروں ، انگریز حکومت اوربرہمن طبقے نے مشترکہ کوششوں سے تخلیق کیا۔ اس عجیب و غریب اشتراک کی داستان دلچسپ، ڈرامائی اور حیران کن ہے۔ڈھائی سو سال قبل ہندوستان میں صرف دو بڑے گروہ آباد تھے… مسلمان اور بت پرست۔ مسلمان تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔

بت پرست مذہبی، معاشرتی اور معاشی طور پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف نظریاتی گروہوں میں تقسیم تھے۔ البتہ وشنو اور شیو دیوتاؤں کے پیروکاروں کی تعدد سب سے زیادہ تھی۔ یہ دونوں بڑے فرقے عموماً ایک دوسرے سے نبرد آزمارہتے۔ ان کی باہمی لڑائیوں میں ہزارہا بت پرست مارے جاتے۔اسلامی حکمرانوں نے کبھی بت پرستوں پر یہ دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔ اسی طرح جب بھی کسی مسلمان حاکم نے بت پرستوں سے جنگ کی، تو اس کی وجوہ مذہبی نہیں سیاسی یا معاشی ہوتی تھیں۔

مغل بادشاہ، جہانگیر کے عہد سے یورپی باشندے ہندوستان آنے لگے۔ اس نے ساحلی مقامات پر انہیں تجارتی و رہائشی مراکز قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ پرتگیزیوں نے 1606ء میں مالابار (تامل ناڈو) کے ساحل پر اپنے تجارتی مراکز بنائے اورعلاقے میں عیسائیت کی تبلیغ بھی کرنے لگے۔ 1732ء میں فرانس سے ایک عیسائی (یسوعی) پادری، گیسٹن لورنٹ کورڈوکس(Gaston Laurent Cœurdoux ) تبلیغ کرنے پہنچا۔

وہ زبانوں کے تقابلی مطالعے میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ یہ پہلا یورپی ماہر ہے جس نے آشکارا کیا کہ ہندوستان کی قدیم زبان، سنسکرت لاطینی، یونانی، جرمن اور روسی زبانوں سے مماثلت رکھتی ہے۔اس کی تحقیق کو ایک اور فرانسیسی ماہر لسانیات، ابراہام دوپیرن(Anquetil Duperron ) نے آگے بڑھایا۔ دوپیرن نے ’’ہندیات‘‘ (Indology) یا ہندشناسی کے تعلیمی شعبے کی بنیاد رکھی۔ اس شعبے سے وابستہ طالب علم ہندوستان کی تاریخ، مذاہب، تہذیب و ثقافت، زبانوں اور علم و ادب کا مطالعہ کرتے ہیں۔

مغل شہنشاہ،اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کمزور ہوئی تو مختلف علاقوں میں مقامی سرداروں نے اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ اس انتشار سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور وہ جدید اسلحے کے بل بوتے پر ایک ایک کرکے مقامی حکومتیں ہڑپ کرنے لگے۔ انہیں 1765ء میں بڑی کامیابی ملی جب بنگال، بہار اور اڑیسہ میں انگریز حکومت قائم ہوگئی۔وہ ان علاقوں کے قدرتی وسائل لوٹنے لگے۔

اس لوٹ مار میں برہمن ان کے مددگار بن گئے کیونکہ وہ سابقہ مسلم حکومتوں میں اہم انتظامی عہدوں پر فائز تھے۔ انہیں انتظام و انصرام کا تجربہ تھا۔انگریز حکمرانوں کو جلد احساس ہوا کہ اگر مسلمانوں اور بت پرستوں کے مابین اختلاف پیدا کردیئے جائیں، تو مقامی آبادی آپس میں لڑمرے گی۔ اس طرح ہندوستانی نو آبادیوں میں حکومت کرنا آسان ہوجاتا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بت پرست کئی فرقوں اور گروہوں میں تقسیم تھے۔ انگریزوں نے پھر برہمن طبقے کے اشتراک سے بت پرستوں کو ایک مذہب کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ وہ متحد ہوکر طاقتور بن جائیں۔ تبھی وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرسکتے تھے۔ اس نئے مذہب کو ’’ہندومت‘‘ کا نام ملا اور اسے ماننے والے ’’ہندو‘‘ کہلائے۔

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ نفرت، جنگ اور مخالفت کے منفی خیالات و نظریات کے خمیر سے نئے مذہب کی بنیاد رکھی گئی۔ انگریزوں کی خواہش تھی کہ نئے مذہب کے پیروکار جنگجوؤں کا روپ دھار کر مسلمانوں سے برسرپیکار ہوجائیں تاکہ مقامی آبادی کی مشترکہ طاقت ان کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ برہمن طبقہ اس نئے مذہب کے ذریعے ہندوستان میں اپنا گم گشتہ اثرورسوخ اور قوت پانے کا خواہش مند تھا۔ اسی لیے وہ ہندومت کی تشکیل میں انگریز حکومت کا سرگرم مددگار بن گیا۔ولیم جونز(William Jones) نے اس مسلم مخالف حکمت عملی کا کامیابی سے آغاز کیا۔ لندن کا یہ رہائشی ماہر لسانیات تھا۔ عربی اور فارسی بھی بخوبی جانتا ۔

بنگال کی انگریزحکومت نے جونز کی خدمات حاصل کرلیں تاکہ وہ بت پرستوں کے نئے مذہب کی تشکیل میں ہاتھ بٹاسکے۔ وہ ستمبر 1783ء میں کلکتہ پہنچا اور جنوری 1784ء میں اس نے ایک تنظیم ’’ایشا ٹک سوسائٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے تحت پورے ہندوستان سے بت پرستوں کی قدیم مذہبی، علمی و ادبی کتب کے مخطوطات جمع کیے گئے۔ جونز نے سنسکرت زبان سیکھ لی۔ مقصد یہ تھا کہ کتب میں موجود مشترکہ نظریات و خیالات جمع کر کے ان کی مدد سے نیا مذہب تخلیق کیا جاسکے۔ولیم جونز پہلا یورپی دانشور ہے جس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کئی ہزار سال پہلے بیرونی قبائل نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا اور پھر وہ خصوصاً شمالی علاقوں کے بلا شرکت غیرے حکمران بن گئے۔ انہوں نے وہاں ایک نئے مذہبی و سماجی نظام کی بنیاد رکھی۔ان حملہ آور قبائل کو ’’آریا‘‘ کا نام دیا گیا۔

ایشیاٹک سوسائٹی سے کئی برہمن پنڈت، انگریز ماہرین ہند شناسی اور مستشرق وابستہ تھے۔ انھیں بھاری تنخواہیں ملتی تھیں۔ ان سے سنسکرت میں لکھی مذہبی و ادبی کتب کا انگریزی میں ترجمہ کرایا گیا۔ اسی دوران سوسائٹی کے دانشور اپنی کتب اور تقریروں کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کرنے لگے کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں ہندوؤں(بت پرستوں) پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ لاکھوں ہندو قتل ہوئے اور ان کے مذہبی مقامات (مندروں) پر قبضہ کرلیا گیا۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد سابق حکمرانوں (مسلمانوں) کے خلاف بت پرستوں میں اشتعال اور نفرت انگیز جذبات پیدا کرنا تھا۔ یہی منفی جذبات پھر انہیں مسلمانوں کے خلاف متحد و یکجا بھی کردیتے۔

اردو ہندی تنازع

جنگ آزادی 1857ء میں عام مسلمانوں اور بت پرستوں نے مل کر انگریز غاصبوں کا مقابلہ کیا لیکن کئی وجوہ کی بنا پر یہ تحریک حریت کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کے بعد انگریز اور برہمن بھرپور کوششیں کرنے لگے کہ مسلم آبادی اور بت پرست ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔اس مہم میں ایک کھشتری سرکاری افسر، راجا شیو پرشاد نے اہم کردار ادا کیا۔ ہندوستان میں عام لوگ اردو بولتے تھے جسے اس زمانے میں ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوستانی‘‘ بھی کہا جاتا۔ بولنے میں یہ ایک ہی زبان تھی ،بس مسلمان اسے عربی و فارسی رسم الخط میں تحریر کرتے، بت پرستوں میں خصوصاً اعلیٰ ذات کے برہمن و کھشتری یہ زبان لکھتے ہوئے دیوناگری رسم الخط اختیار کرلیتے جو سنسکرت کی جدید صورت ہے۔ راجا شیو پرشاد موجودہ بھارتی ریاست اترپردیش میں انسپکٹر آف اسکولز، مورخ اور ماہر لسانیات تھا۔ جنگ آزادی کے بعد اس نے مسلمانوں کے خلاف لسانی تنازع کھڑا کردیا۔

راجا شیو پرشاد نے مسلمانوں اور بت پرستوں کو لڑوانے کی سرکاری پالیسی کے تحت مطالبہ کیا کہ حکومت کی سرکاری زبان اردو نہیں ہندی (دیوناگری رسم الخط کی شکل) کو قرار دیا جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ اردو ’’حملہ آور‘‘ مسلمانوں کی زبان ہے۔ لہٰذا غیر مسلم اسے اختیار نہیں کرسکتے۔ یوں ہندوستان میں ’’اردو ہندی تنازع‘‘ نے جنم لیا۔ اس تنازع نے بھی بت پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا۔ شیو پرشاد نے تین جلدوں پر مشتمل ’’تاریخ ہندوستان‘‘ لکھی۔ اس تاریخ کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ہندوستان کے تمام بت پرست طاقتورآریا قبائل کی اولاد ہیں۔ لہٰذا انہیں مسلم طاقت کے خلاف متحد ہوکر صف آرا ہوجانا چاہیے۔ اس نے ہندوستانی مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور اقتدار کے خلاف بے سروپا اور جھوٹی باتوں کا طومار بھی باندھ دیا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف بت پرستوں کے جذبات بھڑکانا چاہتا تھا۔ مسلم رہنما، سرسید احمد خان نے کوشش کی تھی کہ راجا شیو پرشاد کی مسلم دشمنی کا مقابلہ کیا جائے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔

ہندو انتہا پسندی کا باپ

بت پرستوں کو ہندومت کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی برہمنی و انگریز تحریک میں دوسرا اہم کردار ایک برہمن سنیاسی،  دیانند سرسوتی نے ادا کیا۔ آج اسے ’’ہندو انتہا پسندی کا باپ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوامی سرسوتی ہی ہے جس نے ہندومت کو بہ حیثیت مذہب بت پرستوں میں مقبول بنایا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف صف آرا کردیا۔ اسی نے دور حاضر کے ہندو انتہا پسندوں کو وہ متشددانہ اور انتہا پسندانہ فکری و نظریاتی بنیادیں فراہم کیں جن کے سہارے انہوں نے اپنی جارحانہ حکمت عملی اور پالیسیاں بنائیں اور لائحہ عمل طے کیے۔سوامی دیانند سرسوتی کی نجی زندگی اسرار و تجّس کی تہوں میں پوشیدہ ہے۔

وہ 1824ء میں پیدا ہوا اور 1883ء میں چل بسا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی نجی معلومات خفیہ رکھتا تھا۔ جب بڑھاپا آیا تو قریبی ساتھیوں کو نجی زندگی کے بارے میں بتانے لگا۔ بعدازاں انہی ساتھیوں کی جھوٹی سچی باتوں کو بنیاد بناکر مصنفین نے سوامی سرسوتی کی سوانح عمریاں قلم بند کردیں۔ان  کے مطابق اس کا اصل نام دیارام مُل شنکر تھا۔کاٹھیاوار، گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوا۔ باپ برہمن  زمین دار، بنیا اور سرکاری ٹیکس کلکٹر تھا اور شیوامت کا پیروکار۔ علاقے میں اس کا بڑا اثرورسوخ تھا۔ گویا سوامی سرسوتی کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوا۔ باپ نے اپنے پہلے بیٹے کی مذہبی تعلیم پر خاص توجہ دی اور اسے برہمنوں کی مذہبی کتب ’’وید‘‘ پڑھائی گئیں۔

مشہور ہے کہ ایک رات پندرہ سالہ سرسوتی مندر میں پوجا کررہا تھا۔ سامنے شیو کی مورتی دھری تھی۔ اچانک چند چوہے آئے اور شیو کے سامنے سے پرشاد لے بھاگے۔ وہ مورتی پر چڑھ کر اٹکھیلیاں بھی کرتے رہے۔ یہ منظر دیکھ کر نوجوان سرسوتی حیران پریشان ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ جو خدا اپنے اوپر سے چوہے نہیں بھگاسکتا، وہ دنیا کا انتظام کیسے سنبھال سکتا ہے؟ اس واقعے کے بعد سرسوتی کا دل بتوں کی پوجا پاٹ سے اچاٹ ہوگیا۔ وہ پھر ماں باپ سے مذہب کے بارے میں باغیانہ سوال کرنے لگا جس کی بنا پر مشہور ہوگیا کہ دیارام پاگل ہوچکا۔ والدین نے اس کی شادی کرنا چاہی تو وہ 1846ء میں گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا۔دیارام پھر آوارہ گردی کرتے نگر نگر گھومنے لگا۔ وہ سچائی کی تلاش میں تھا جو اس کے بے چین من کو شانتی دے سکے۔ 1860ء میں وہ متھرا پہنچا اور وہاں وید مت کے ایک بڑے گرو، ورجے نند دندیش کا چیلا بن بیٹھا۔ اپنے گرو کی کوششوں سے دیارام ویدمت کا عالم بن گیا۔

گرو ہی نے اسے نیا نام ’’دیانند سرسوتی‘‘ بھی عطا کیا۔وید مت بہ حیثیت مذہب برہمن مت کی قدیم شکل ہے۔ ویدمت کا نظریاتی ڈھانچا چار کتب (رگ وید، سام وید، یجر وید اور اتھروا وید) سے ماخوذ ہے۔ یہ وسطی ایشیاء یورپ، مشرق وسطی اور ایران سے ہندوستان آنے والے قبائل کے مذہبی نظریات کا ملغوبہ ہے۔ ممکن ہے کہ اس میں وادی سندھ کے باشندوں کے مذہبی نظریے بھی شامل ہوں۔ چاروں وید دور جدید کے ہندومت کی قدیم ترین مذہبی کتب مانی جاتی ہیں۔ ان کا زمانہ تصنیف 1700ء قبل مسیح سے 500 قبل مسیح کے مابین بتایا جاتا ہے۔ بت پرستوں کی دیگر مذہبی کتب مثلاً اپنشدوں،پرانوں، شاستروں (منوسمرتی) اورکتب تاریخ یا اتہاس (مہا بھارت وبھگوت گیتا ، رامائن) میں کافی مواد ویدوں سے ماخوذ ہے۔

ویدوں میں ایک خدا کا تصّور ملتا ہے۔ مگر تناقص یہ ہے کہ ان میںدیوی دیوتاؤں مثلاً اندرا، اگنی، سوم، ایشور، اوشا، سوریا وغیرہ کا بھی تفصیل سے ذکر ہے۔ سوامی سرسوتی نے  یہ دعوی کیا کہ دیوی دیوتا ایک ہی خدا کے مختلف روپ ہیں۔ وید بنیادی طور پر دیوتاؤں کے حضور مناجات اور منتروں کا مجموعہ ہیں۔ ان سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ انسان کو امن و محبت سے فطری طریقے اختیار کرکے زندگی بسر کرنی چاہیے۔ ویدوں کی لیکن ایک بڑی خامی یہ ہے کہ انہی سے  ہندوستان میں ذات پات کے نظام نے جنم لیا اور برہمن طبقہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہندوستانی معاشرے میں آمر و طاقتور بن بیٹھا۔ وجہ یہ کہ وید اور ذات پات کا نظام، دونوں برہمنوں کی تخیلق ہیں جن کا تعلق حملہ آور آریا قبائل کے حکمران طبقے سے تھا۔اس نظام کے ذریعے برہمن اپنی حکمرانی کو دوام بخشنا چاہتے تھے۔

1865ء کے بعد سوامی سرسوتی نے پوری قوت سے تحریک برپا کردی کہ تمام بت پرستوں کو ویدمت اختیار کرلینا چاہیے۔اس نے ان پر زور دیا کہ وہ ایک خدا کی عبادت کریں، اپنے فرسودہ مذہبی رسوم و رواج ترک کردیں اور جدید تعلیم پائیں۔ ان نظریات سے عیاں ہے کہ سوامی سرسوتی بت پرستوں کی فکرو عمل میں مثبت تبدیلیاں لانا چاہتا تھا۔

وہ ایک بہترین مقرر اور طلسماتی شخصیت کا مالک تھا۔ اس نے جلد پیروکاروں کی بڑی تعداد اپنے گرد جمع کرلی۔ وہ پھر شمالی ہندوستان کے قریہ قریہ جانے لگا۔ وہاں وہ بت پرستی کے خلاف تقریریں کرتا اور ان کے رسوم و رواج کو تنقید کا نشانہ بناتا۔ سوامی سرسوتی کی تحریک نے مگر برہمن پنڈتوں کی صفوں میں زلزلہ پیدا کردیا۔تمام مندروں کے ناظم دراصل برہمن پنڈت تھے۔ بت پرست ان مندروں میں نقدی، زیور اور اجناس چڑھاوے کے طور پر دیتے ۔ اسی مال و متاع کی بدولت ہی برہمن نہ صرف امیر ہوئے بلکہ معاشرے میں  اثرورسوخ پیدا کرلیا۔ اگر بت پرست سوامی سرسوتی کی تحریک سے متاثر ہوکر بتوں کی پوجا کرنا چھوڑ دیتے تو مندروں میں پھر کوئی نہ آتا۔ اس طرح برہمن پنڈت کمائی کا ذریعہ کھو بیٹھتے اور معاشرے میں بھی انہیں پہلے جیسا اثرورسوخ حاصل نہیں رہتا۔

یہی وجہ ہے، برہمن رہنماؤں نے سوامی سرسوتی پر دباؤ ڈالا کہ وہ بت پرستی کی مخالفت کرنا چھوڑ دے۔ انہوں نے اس باور کرایا کہ سب سے اہم کام یہ ہے کہ بت پرستوں کو ہندومت کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا جائے تاکہ وہ طاقتور بن کر مسلمانوں اور عیسائیوں کا مقابلہ کرسکیں۔ برہمن رہنماؤں کے دباؤ کی وجہ سے ہی سوامی سرسوتی نے بت پرستی کی مخالفت بہت کم کردی۔ اب وہ برہمنی منصوبے کے مطابق اسلام اور عیسائیت پر شدید زبانی و قلمی حملے کرنے لگا تاکہ ان کے خلاف مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹے بت پرستوں کو ’’ہندو قوم‘‘ کی شکل میں متحد و یکجا کردیا جائے۔

اس نے قرار دیا کہ ہندو قوم ہندوستان کی اصل وارث ہے اور وہی مملکت میں حکمرانی کا حق بھی رکھتی ہے۔ سوامی سرسوتی پہلا بت پرست (یا ہندو) رہنما ہے جس نے کھلم کھلا اسلام، عیسائیت، جین مت اور ان مذاہب کے پیغمبروں کو تنقید و تضحیک کا نشانہ بنایا۔1875ء میں اسکی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ شائع ہوئی جسے دور جدید کے ہندو انتہا پسند اور قوم پرست مقدس قرار دیتے ہیں۔ اس میں سوامی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اسلام اور عیسائیت کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہندوؤں کو جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تاکہ مزید ہندو مسلمان یا عیسائی نہ بن سکیں۔ سوامی نے ویدمت (ہندومت) کو دنیا کا واحد الہامی اور بہترین مذہب قرار دیا۔ حضرت عیسیٰؑ اور پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق نازیبا باتیں قلمبند کیں جن سے عیسائی اور مسلم اقوام میں قدرتاً اشتعال پھیل گیا۔ غرض جو سوامی بت پرستوں کی اصلاح احوال کے لیے اٹھا تھا، برہمن و انگریز گٹھ جوڑ نے اسے مسلم و عیسائی دشمن رہنما بنا دیا۔

1875ء میں سوامی سرسوتی نے ہندومت کے فروغ کی خاطر ایک تنظیم ’’آریہ سماج‘‘ قائم کردی۔ مقصد یہ تھا کہ سماجی سرگرمیوں کے پردے میں بت پرستوں کو نئے مذہب کے دائرے میں لایا جائے تاکہ وہ مسلم و عیسائی قوت کا مقابلہ کرسکیں۔ تب ہندوستان میں عیسائی بہت کم تھے۔ اس لیے آریہ سماجیوں کی ٹکر مسلمانوں سے ہی ہوئی۔

آریہ سماجی رہنما اور مسلم علما مناظرے کرنے لگے جن میں ہزارہا لوگ شرکت کرتے۔ ان مناظروں کی بدولت نفرت اور فرقہ وارانہ فساد پر مبنی خیالات عوام میں بھی پھیلنے لگے اور دونوں اقوام کے مابین دشمنی بڑھتی چلی گئی۔1870ء کے بعد سوامی سرسوتی نے ’’شدھی تحریک‘‘ اور ’’گؤ رکھشا مہم‘‘ کا آغاز کردیا تھا۔ شدھی کے ذریعے وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانا چاہتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ تمام مقامی مسلمانوں اور عیسائیوں کے اجداد ہندو تھے۔ لہٰذا اب انہیں اپنا اصل مذہب اختیار کرلینا چاہیے۔ گؤ رکھشا مہم کے ذریعے سوامی ہندوستان میں گائے کے ذبیح پر پابندی لگوانے کی کوشش کرنے لگا۔ ان دونوں تحریکوں کی وجہ سے بھی مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین اختلافات میں اضافہ ہوا اور برہمن و انگریز حکمران طبقے کی تو پالیسی یہی تھی۔

قبل ازیں بتایا گیا کہ برہمن و انگریز حکمران طبقہ سوامی سرسوتی کو اپنا ایجنٹ بنانے میں کامیاب رہا تھا ۔مگر جب سوامی کے گرد لاکھوں پیروکار اکٹھے ہوگئے تو وہ آزاد و خود مختار بن گیا۔ طاقت پاکر احساس ہوا کہ انگریز حکومت اب اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہی وجہ ہے، وہ عیسائیت پر بھی علی الاعلان تنقید کرنے لگا۔ یہ خود مختاری انگریز آقاؤں کو پسند نہیں آئی۔انھیں احساس ہوا کہ سوامی کی سرگرمیوں سے مشنری پادریوں کو مقامی آبادی میں تبلیغ کرتے ہوئے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ چناں چہ انہوں نے گھریلو ملازمین خرید کر ان کے ذریعے سوامی سرسوتی کو زہر دے دیا۔ وہ چند ماہ بیمار رہ کر چل بسا۔

نازی جرمن آریا بن بیٹھے

سوامی سرسوتی کی موت کے بعد  برہمنی طبقہ ہندوستان میں شدومد سے ’’ہندوسپرمیسی‘‘ نظریے کی تبلیغ کرنے لگا۔ آریا سماجی رہنماؤں نے اس مہم میں اہم حصہ لیا جن میں سوامی شردھانند، پنڈت مالویہ، لالہ لاجپت رائے، بال گنگا دھرتلک نمایاں ہیں۔ انہی لیڈروں نے 1915ء میں دوسری انتہا پسند ہندو جماعت’’ہندو مہاسبھا‘‘کی بنیاد ڈالی۔ بال کرشنا مونجے، دمودر ساورکر اور بلرام ہیڈگوار اس نئی تنظیم کے نوجوان رہنما تھے۔ 1925ء میں ہیڈگوار نے تیسری انتہا پسند ہندو تنظیم’’ آر ایس ایس‘‘ قائم کردی۔ بھارت میں اسی تنظیم کو سب سے زیادہ کامیابی ملی۔آج بھارت کی اسٹیبلشمنٹ میں آر ایس ایس کے حمایتی سب سے زیادہ موجود ہیں۔

فوج، انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس میں آر ایس ایس کے حمایتی اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ ان کی وجہ سے بھی یہ ممکن ہوا کہ آر ایس ایس کا سیاسی روپ، بی جے پی اقتدار سنبھال لے تاکہ ہندو راشٹریہ بنانے اور اکھنڈ بھارت کی تکمیل کے منصوبوں پر عمل شروع ہوسکے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ’’ہندو سپرمیسی‘‘ کا منفی نظریہ یورپی ممالک میں بھی مقبول ہوا۔ البتہ وہاں اس نے ’’آریا سپرمیسی‘‘ کا روپ دھار لیا۔ یورپ میں یہ نظریہ پھیلنے کی کہانی بھی حیرت انگیز اور ڈرامائی ہے۔ ہوا یہ کہ برطانوی ولیم جونز کا یہ نظریہ کہ آریا قبائل نے تین ہزار سال پہلے ہندوستان فتح کیا تھا، دیگر انگریز و یورپی ماہرین ہند شناسی مثلاً چارلس ولکنز، کولن میکنزے، ہنری تھامس کولبروک، جین انطون دوبس، شیگل، جیمز مل وغیرہ کے ذریعے پورے یورپ میں پھیل گیا۔ اس نظریے سے فرانسیسی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک دانشور، آرتھر دو گوبینو (Arthur de Gobineau) بھی متاثر ہوا۔آرتھر دوگوبینو کا باپ فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کا اعلیٰ عہدے دار تھا۔

یہی وجہ ہے، وہ باپ سے مشرق وسطیٰ اور ہندوستان کے قصّے سنتے جوان ہوا۔ ان قصّوں نے اس پر اتنا زیادہ سحر طاری کیا کہ وہ مسلمان ہونے کا سوچنے لگا تاہم والدین اور رشتے داروں کے خوف نے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ 1848ء میں جب فرانسیسی عوام بادشاہت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو گوبینو شاہی مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر سرگرم ہوگیا۔ تبھی اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ فرانسیسی بادشاہ طاقتور آریا قبائل کی اولاد ہیں۔ وہ عوام سے زیادہ قابلیت، لیاقت و ذہانت رکھتے ہیں اور اسی لیے انہیں حکمرانی کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔

گوبینو اس طرح نظریہ نسل پرستی کی ترویج کرنے لگا… یہ کہ بعض انسانی نسلیں دیگر نسلوں سے ممتاز و منفرد ہیں۔سفید فام سپرمیسی کا نظریہ بھی اسی نظریے سے ماخوذ ہے۔ گوبینو کا نظریہ جرمنی میں بہت مقبول ہوا۔ حتیٰ کہ ایڈلف ہٹلر کی نازی پارٹی نے اسے اپنا منشور بنالیا۔ صرف آریا نسل کے جرمن ہی پارٹی کے رکن بن سکتے تھے۔ جب ہٹلر برسراقتدار آیا، تو وہ جرمنی میں مقیم غیر آریائی نسلوں مثلاً یہود، خانہ بدوشوں، سیاہ فاموں پر ظلم و ستم کرنے لگا۔ یہود اس لیے خاص نشانہ بنے کہ ہٹلر سمجھتا تھا، امریکا و برطانیہ میں مقیم یہودی بنیوں کی سازشوں ہی سے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست ہوئی ۔ بہرحال آریا سپرمیسی کے بطن سے جرمن قوم پسندی کے جراثیم پیدا ہوئے۔

اسی قوم پسندی نے آخر کار ایڈلف ہٹلر کو دوسری جنگ عظیم شروع کرنے پر اکسا دیا۔ہٹلر نے پہلے جرمنی اور پھر یورپی ممالک میں آباد یہود و غیر آریائی نسلوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے۔ اس کا یہ پلان تھا کہ جرمنی سے ان کا صفایا کردیا جائے۔ آج آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند جماعتیں بھی مذہبی و قومی سپرمیسی کے جنون میں مبتلا ہوکر بھارت سے خصوصاً مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہیں۔یہ نسل کشی روکنے کی خاطر  پاکستان ہی کو کچھ کرنا ہو گا ۔سپرپاورز کو تو چھوڑئیے، مسلم حکمران اپنے اپنے معاشی وسیاسی مفادات کے اسیر بن کر  کٹر آرایس ایس لیڈر،مودی کی چاپلوسی کرنے میں محو ہیں۔ بقول شاعر مشرقؒ

حرم پاک بھی،اللہ بھی، قران بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی،ہوتے جو مسلمان بھی ایک

The post آر ایس ایس کی نظریاتی تاریخ appeared first on ایکسپریس اردو.

 ہمارے ملک میں دیکھنے کو کیا نہیں

$
0
0

موریطانیہ مغربی افریقہ کا ایک غریب مسلمان ملک ہے جس کے دو تہائی سے بھی زیادہ حِصے پر صحرا کا راج ہے۔ یہاں صرف گرم مرطوب آب و ہوا کا لق ودق صحرا ملتا ہے۔ اسی طرح گرین لینڈ جو شمالی یورپ کا ملک ہے، چند جنوبی حصوں کے علاوہ سارا کا سارا برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ ایسے ملکوں کے بارے میں سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے کہ یہاں ایڈونچر یا سیروسیاحت کے کیا ذرائع ہوں گے؟ یہ ممالک وہ ہیں جہاں سیاحت برائے نام ہے۔

جب کہ اس کے برعکس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وہ سب کچھ موجود ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارا ملک دنیا کے جس خِطے میں واقع ہے وہ خدا کی طرف سے تمام نعمتوں سے مالامال ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کو اللہ تعالٰی نے متنوع جغرافیہ اور انواع و اقسام کی آب و ہوا دی ہے جو ہماری سیاحت کی اساس ہے۔

پاکستان میں مختلف لوگ، مختلف زبانیں، ثقافتیں اور علاقے ہیں جو پاکستان کو بہت سے رنگوں کا گھر بنا دیتے ہیں۔ یہاں ریگستان، سرسبزوشاداب علاقے، میدان، پہاڑ، جنگلات، سرد اور گرم علاقے، خوب صورت جھیلیں، برف پوش چوٹیاں، تاریخی عمارتیں، جزائر اور بہت کچھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2012 میں پاکستان نے اپنی طرف 1 ملین سیاحوں کو مائل کیا۔ امن و امان کے مسئلے کے وجہ سے پاکستان کی سیاحت بہت متاثر ہوئی لیکن اب حالات بڑی حد تک معمول پر آچکے ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں لوگوں نے پاکستان کا رُخ کیا ہے۔

پاکستان میں سیاحت کو سب سے زیادہ فروغ 1970ء کی دہائی میں ملا جب ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور دیگر صنعتوں کی طرح سیاحت بھی اپنے عروج پر تھی۔ بیرونی ممالک سے لاکھوں سیاح پاکستان آتے تھے اور بہت خوب صورت یادیں لے کر واپس جاتے تھے۔ کراچی کی شاہراہیں لوگوں کو حیران کرنے کے لیے کافی تھیں اور کراچی کی گلیوں میں ہپیز کی بہتات نظر آتی تھی۔ انگریزوں کا درۂ خیبر تک جانا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت پاکستان کے سب سے مقبول سیاحتی مقامات میں درہ خیبر، پشاور، کراچی، لاہور، سوات اور راولپنڈی جیسے علاقے شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر خوب صورت علاقے بھی دنیا بھر میں متعارف ہوئے اور سیاحت تیزی سے بڑھی۔ بہت سے سیاح آئے اور انہوں نے اس ملک کے کونے کونے میں پھیلے حیرت ناک مناظر کو دنیا تک پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں سیکڑوں سیاحتی مقامات دریافت کیے جا چکے ہیں بلکہ روزانہ کی بُنیاد پر ہو رہے ہیں۔

شمالی علاقہ جات کی سیاحت بھی اپنے عروج پر ہے۔ شمالی علاقوں میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا کے علاقے اندرونی و بیرونی سیاحوں میں یکساں مقبول ہیں۔ پاکستان کے شمالی حصے میں قدرت کے بے شمار نظارے موجود ہیں، جب کہ مختلف قدیم قلعے، تاریخی مقامات، نیشنل پارک، عجائب گھر، آثارقدیمہ، وادیاں، جھیلیں اس کے علاوہ ہیں۔ آئیں ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں بڑے چھوٹے سیاحتی مقامات اور ہماری ثقافت پر۔

پاکستان کے تمام خطوں اور صوبوں میں سیاحت کے مختلف رنگ پائے جاتے ہیں۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کی ثقافت، کھانوں، لباس اور رنگ ڈھنگ کا مختلف ہونا ہی انہیں خاص بناتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کی سیاحت پہاڑوں اور وادیوں کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہاں ایک طرف حسین و جمیل سوات اور کُمراٹ کی وادیاں ہیں جنہیں لوگ مشرق کا سوئٹزرلینڈ کہتے ہیں تو دوسری جانب وادی کیلاش ہے جو اپنے تمام تر منفرد رسومات اور اسرار و رموز سمیت ایک معما بنی ہوئی ہیں۔ ایسی وادی دنیا کے کسی خطے کسی کونے میں نہیں ہے۔ شمال مغرب میں چترال کی خوب صورت وادی ہے جہاں ایک ہی علاقے میں تقریباً بارہ چھوٹی بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اسی طرح صوبے میں مذہبی سیاحت کی بھی کافی جگہیں ہیں جن میں خوب صورت اور قدیم مساجد کے ساتھ ساتھ بدھ مت کی خانقاہیں، قدیم یونیورسٹیاں اور اسٹوپوں کے کھنڈرات بھی شامل ہیں۔ یہ صوابی، مردان، تخت بھائی، پشاور اور سوات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں سے کئی قدیم مخطوطات، نسخے، سِکے، پتھر کی مورتیاں اور برتن و زیورات وغیرہ نکالے جا چکے ہیں۔

اسی طرح یہاں پشاور جیسا زرخیز تاریخ رکھنے والا شہر واقع ہے جو بیک وقت کئی ادوار کا امین ہے۔ یہاں ایک طرف جمرود و بالا حصار جیسے قلعے سر اٹھائے کھڑے ہیں تو دوسری جانب برطانوی راج کے دور کی یاد تازہ کرتا کُننگھم ٹاور بھی ایستادہ ہے۔ مسجد مہابت خان، پشاور میوزیم، کپورحویلی، طورخم بارڈر، درہ خیبر، سیٹھی ہاؤس اور قصہ خوانی بازار بھی دیکھنے کے قابل ہیں۔

بات کی جائے اگر خوب صورتی کی تو خیبر پی کے کی خوب صورتی رنگ برنگی جھیلوں کے بغیر ادھوری ہے۔ بلاشبہ پاکستان کی حسین ترین جھیلوں میں سے ایک ’’ماہوڈنڈ جھیل‘‘ کو اگر وادی سوات کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا جو ضلع سوات کی تحصیل کالام سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر ’’وادیٔ اوشو‘‘ میں واقع ہے۔

جھیل کے بیچوں بیچ ایک گھنا خوب صورت جنگل ہے اور ان میں بھاگتے دوڑتے اٹھکیلیاں کرتے پونیز (چھوٹی نسل کا ایک خوب صورت گھوڑا)، یہ نظارہ آپ پاکستان میں کہیں اور نہ کرسکیں گے۔ جھیل کے ارد گرد سرسبز گھاس پر لگے دودھیا خیمے کسی چھوٹے سے اُزبک قصبے کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اردگرد کے پہاڑ، سانپ کی طرح رینگتی بل کھاتی ندیاں اور اُس پر صُبح کا دھندلکا، یہ جھیل فطرت کے حسن کا ایک ادنیٰ سا نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ ناران کی جھیل سیف الملوک، دیر بالا میں واقع کٹورا جھیل، لولوسر، آنسو، کنڈول، دودی پت سر، درل اور پیالہ جھیل بھی اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ وادی سوات میں کئی مقامات پر بلند آبشاریں بھی ہیں۔

خیبر پختونخواہ میں بہت زیادہ بلندوبالا چوٹیاں نہیں ہیں لیکن یہاں سوات اور چترال کے سرسبز پہاڑ بہت جاذب نظر ہیں۔ بڑی اور مشہور چوٹیوں میں ترچ میر، مکڑا پیک، ملکہ پربت، فلک سر، بونی زوم، سارہ غر، موسیٰ کا مصلیٰ، میرنجانی اور مُکشپوری شامل ہیں۔ نتھیا گلی، باڑہ گلی، مالم جبہ، ایوبیہ، ٹھنڈیانی، بھوربن، اور گھوڑاگلی یہاں کے وہ ہِل اسٹیشن ہیں جہاں سارا سال سیاحوں کا رش رہتا ہے۔ حکومت کی طرف سے مالم جبہ میں سکی ریزارٹ جب کہ ایوبیہ و پٹریاٹا میں چیئر لفٹ اور کیبل کار کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

کھانوں کی بات کی جائے تو خیبر پی کے اپنے قہوؤں، روش، ٹماٹر کڑاہی، خشک میوہ جات، دنبے اور چپلی کبابوں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ یہ پکوان اس صوبے کا ٹریڈ مارک ہیں جو چترال سے ڈیرہ اسمٰعیل تک دست یاب ہیں۔ گوشت یہاں کے پکوانوں کا بنیادی جُز ہے جس کے بغیر پختون کھانے ادھورے ہیں۔ ٹرک آرٹ، پشاوری چپل اور خشک میوہ جات یہاں کی وہ سوغاتیں ہیں جو سیاح حضرات خوشی خوشی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

ہیر سیال اور صاحباں کے پنجاب کی بات کریں تو یہاں کی سیاحت تاریخ، روحانیت اور ثقافت کے گرد گھومتی ہے۔ یہ صوبہ جہاں آپ کو حسین اور ٹھنڈے پہاڑی مقامات پیش کرتا ہے وہیں لق و دق صحرا اور زرخیز میدان بھی اس کی خاصیت ہیں۔ پنجاب کے لینڈ اسکیپ کا تنوع ہی خوب صورتی ہے۔ یہاں پہاڑ، دریا، میدان، سطح مرتفع، چشمے، صحرا، جھرنے سب موجود ہیں۔ اس کے چھتیس اضلاع میں کئی قدیم، تاریخی و خوبصورت جگہیں واقع ہیں جنہیں کھوجنا ایک شخص کی بات نہیں ہیں۔

یہاں مری، کوٹلی ستیاں اور فورٹ منرو جیسے سرد اور پُرفضا ہل اسٹیشن موجود ہیں جو ہر سال لاکھوں سیاحوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ ان ہل اسٹیشنز کے پہاڑوں پر کئی قیمتی جنگلات موجود ہیں جہاں متعدد جنگلی حیات بھی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح یہاں لال سوہانرہ، چِنجی اور کالا چٹا نیشنل پارک موجود ہیں جہاں جنگلی حیات کے شوقین حضرات اپنے ذوق کی تسکین کے لیے جاتے ہیں۔

پنجاب کی تاریخی عمارتوں (محلات و قلعے) اور درگاہوں کو اگر یہاں کی سیاحت کی بنیاد قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ بڑے بڑے اور عظیم صوفیاء و شعرا جیسے حضرت علی ہجویریؒ، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ، حضرت شاہ رکن عالمؒ، حضرت مادھو لعل حسینؒ، حضرت خواجہ غلام فرید کوریجہؒ، حضرت شاہ شمس تبریزؒ، حضرت سلطان باہوِؒ، حضرت سخی سرورؒ، حضرت بابا بلھے شاہؒ اور ان جیسی کئی اور بزرگ ہستیاں پنجاب کی دھرتی میں آرام فرما رہی ہیں جن کے خوب صورت اور منفرد مقبروں کی نقاشی اور لکڑی کا کام لاکھوں لوگوں کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں۔ عرس کے دنوں کے علاوہ بھی یہاں ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے۔ بہت سے سیاح خصوصاً انہیں دیکھنے دور دور سے آتے ہیں۔ اور اب تو بین الاقوامی سیاح بھی یہاں پاکستان اور خصوصاً پنجاب کا کلچر دیکھنے اور روحانیت کا تجربہ کرنے آتے ہیں۔

راولپنڈی سے 22 میل دور، شمال مغرب میں ٹیکسلا کا قدیم شہر واقع ہے جو بدھ مت کی ثقافت کا امین ہے۔ کہتے ہیں کہ باختر کے یونانی حکم راں دیمریس نے گندھارا کا علاقہ فتح کرکے ٹیکسلا کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی اور یہ بدھ تعلیم کا مرکز تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چین سیاح ہیون سانگ یہاں آیا تھا۔

اس نے اپنے سفرنامے میں اس شہر کی عظمت و شوکت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں گوتھک اسٹائل کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، دس ہزار سکے (جن میں بعض یونانی دور کے ہیں)، فن تعمیر کے نایاب نمونے، زیورات، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے گئے ہیں۔ ٹیکسلا کے آس پاس کئی اسٹوپے، بُدھ مندر اور خانقاہوں کے کھنڈرات بکھرے ہوئے ہیں۔ اس شہر کے کئی مقامات کو 1980ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

پنجاب میں کئی معروف اور غیرمعروف قلعے موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ قلعے سیکڑوں سالوں کی تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ جہاں کچھ قلعے صحرا کی وسعتوں میں گْم ہیں وہیں کچھ چٹانوں پہ دریا کنارے براجمان ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں میوزیم یا جیل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان میں سے زیادہ تر قلعے عوام الناس کے لیے کھلے ہیں جبکہ کچھ نجی تحویل میں بھی ہیں۔ لاہور کا شاہی قلعہ، چولستان کا دیراوڑ فورٹ، اٹک کا قلعہ اٹک، جہلم میں روہتاس فورٹ، قلعہ مؤ مبارک رحیم یارخان، قلعہ روات راولپنڈی، چوآسیدن شاہ میں واقع نندنہ کا قلعہ، ملتان کا قلعہ کہنہ قاسم ار سیالکوٹ فورٹ وہ مشہور و معروف قلعے ہیں جہاں ایک دنیا سیروسیاحت اور تحقیقی مقاصد کے لیے جاتی ہے۔ ان سب کے علاوہ چولستان کی وسعتوں میں تقریباً 19 سے 21 چھوٹے بڑے قلعے گم ہیں جو مٹی اور پتھر کے مختلف ڈیزائنوں سے مزین تھے۔ اِن میں سے کچھ تو زمین کے اندر دفن ہو چکے ہیں جب کہ باقی بھی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ ان میں باڑہ، بجنوٹ، بھاگلہ، اسلام گڑھ، جام گڑھ، خیرگڑھ، خان گڑھ، لیارہ، مروٹ، میر گڑھ، موج گڑھ، ماچھکی، مریدکوٹ، نواں کوٹ اور پھولرہ کے قلعے شامل ہیں جو صحرائے چولستان کے اندر تقریباً ایک جتنے فاصلے پر واقع ہیں۔

محلات کا ذکر کیا جائے تو جنوبی پنجاب کا شہر بہاولپور اس میدان میں سب سے آگے ہے۔ اپنے آٹھ خوب صورت محلات کی وجہ سے یہ شہر ”نوابوں کا شہر” بھی کہلاتا ہے۔ یہاں واقع نورمحل، دربار محل، نشاط محل، فرُخ محل، گلزار محل اور صادق گڑھ پیلس فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اسی طرح شاہی قلعے کا شیش محل بھی اپنی مثال آپ ہے۔

پنجاب کی سیاحت میں پانچ دریاؤں کا کردار بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جو کسی جسم میں موجود شریانوں کی طرح بہتے ہیں۔ ان دریاؤں پر موجود بند، بیراج، ہیڈورکس، انکے قریب واقع مچھلی فارم اور تحفظِ آبی حیات کے منصوبے خاصی کشش رکھتے ہیں۔ مرالہ، چشمہ، پنجند، تریموں، سدھنائی، سلیمانکی، جناح، تونسہ کے مقامات پر بہت سے لوگ فیملی سمیت پکنک منانے آتے ہیں۔

پنجاب کا دل کہلائے جانے والے لاہور شہر کی تو کیا ہی بات ہے۔ اس شہر کی ثقافت، تاریخ، خوب صورتی، پارک، چائے خانے، عجائب گھر، مساجد، کھیل کے میدان، باغ اور کھانے آپ کو اس کا گرویدہ بنانے کے لیے کافی ہیں۔ ایک لاہور شہر میں دیکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ انسان یہاں آرام سے اپنا ہفتہ گزار سکتا ہے۔ بادشاہی مسجد سے لے کہ مسجد وزیر خان، شاہی حمام، قدیم لاہور کے دروازوں، سُنہری مسجد، پوسٹ آفس، مینار پاکستان، شالامار باغ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، ٹولنٹن مارکیٹ، لاہورمیوزیم، ریلوے اسٹیشن، قائد اعظم لائبریری، انارکلی، قطب الدین ایبک، نورجہاں، جہانگیر، آصف و دائی انگہ کے مقبرے، تک ایک ایک عمارت سے تاریخ ٹپک رہی ہے، جب کہ اسی شہر میں دوسری طرف آرمی میوزیم، نیشنل ہسٹری میوزیم، ایفل ٹاور، قزافی اسٹیڈیم، لاہور فوڈ سٹریٹ اور عرفہ کریم ٹاور جیسی جدید تراش خراش کی حامل عمارتیں بھی موجود ہیں۔

لاہور کی فوڈ اسٹریٹ جو اپنی مثال آپ ہے آپ کو پنجاب کے تمام تر روایتی ذائقوں سے روشناس کرانے کے لیے کافی ہے۔ خالص دیسی پنجابی خوراک جس میں ساگ، مکھن، لسی، آلو کی سبزی، پالک پنیر، تندوری چکن، چرغہ، ہریسہ، بونگ پائے اور نہاری شامل ہے، آپ کو پنجاب میں ہر جگہ ملے گی لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے شہروں کی خاص سوغاتیں ہیں جن میں گوجرانوالہ کے چِڑے، چنیوت کا کُنہ گوشت، ملتان کا سوہن حلوہ اور چانپیں، خوشاب کا ڈھوڈھا، قصوری فالودہ اور اندر سے، خانپور کے پیڑے، جنوبی پنجاب کے آم اور چِلڑے اور بھلوال و سرگودھا کے کِنو اپنی مثال آپ ہیں۔ پنجابی کھانے اپنی لذت کے باعث پاکستان سے باہر بھی مقبول ہیں۔خوب صورت پنکھے، کھیس، دریاں، لانچے، مٹی کے برتن، پراندے، چوڑیاں اور دیگر گھریلو دستکاریاں یہاں کی سوغاتیں ہیں۔

ذکر کریں گلگت بلتستان کا تو یہاں سیاحت پہاڑوں کی مرہونِ منت ہے۔ قراقرم اور ہمالیہ کے بلند پہاڑی سلسلے اس خطے کی سیاحت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر سال کئی کوہ پیما اور پہاڑوں کے جنون میں مْبتلا جوشیلے سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

یہاں کی آبادی 11لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جب کہ اس کا کُل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے۔ اردو کے علاوہ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سمیت کئی بلند اور دشوار گزار پہاڑی درے بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ قطبین سے باہر دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشیئر بیافو، بالتورو اور باتورہ بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔

یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ یہاں قراقرم ہائی وے کی تعمیر سے سیاحت کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ شاہراہ قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع وہ عظیم راستہ ہے جو وطنِ عزیز کو چین سے ملاتا ہے۔ اسے ”قراقرم ہائی وے” ، این-35 اور ”شاہراہِ ریشم” بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔ دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، عطاآباد جھیل، کئی قدیم کُندہ چٹانیں، قبرستان، یادگاریں، نانگا پربت اور راکاپوشی کی چوٹیاں، متعدد گلیشیئرز اور معلق پُل اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ یوں یہ شاہراہ دنیا کے ان راستوں میں سے ایک ہے جن کی سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔

خپلو، شِگر، التت اور بلتت کے قلعے بھی گلگت بلتستان کی سیاحت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آغا خان فاؤنڈیشن نے ان کے اندر میوزیم اور ہوٹل بنا رکھے ہیں جنہیں دیکھنے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور تاریخ کے ان شاہ کاروں سے اپنی تشنگی مٹاتے ہیں۔

یہاں پانچ چوٹیاں ایسی ہیں جو آٹھ ہزار میٹر سے بھی زیادہ بلند ہیں ان میں کے-ٹو، نانگا پربت، گیشربروم اول، براڈ پیک اور گیشر بروم دوم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ راکاپوشی، میشہ بروم اور سالتورو کانگڑی بھی مشہور چوٹیاں ہیں۔

گلگت بلتستان کو اگر جھیلوں کا گھر کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہ ہو گا۔ یہاں جگہ جگہ سبز و نیلے پانی کی خوب صورت جھیلیں واقع ہیں جو ہر سال پاکستان کے گرم علاقوں سے سیاحوں کو مقناطیس کی طرح کھینچ کر لے آتی ہیں۔ مشہور جھیلوں میں عطا آباد، شیوسر، ست پارہ، شنگریلا، اپر کچورہ، بورِت، راما، رَش، کرومبر اور خالطی جھیل شامل ہیں۔

یہاں کے دسترخوان پر ممتو، دیرم فٹی، نمکین چائے، چیری، خوبانی، بادام، اخروٹ، یاک کا گوشت اور مولیدا اہم مقام رکھتے ہیں۔ اس خطے میں بہت سے نایاب نسل کے جانور بھی پائے جاتے ہیں جن میں بھورا ریچھ، مارموٹ، مارکوپولو شیپ، مارخور اور آئیبیکس شامل ہیں۔ یہ علاقہ پورے ملک میں قیمتی پتھروں، رسیلے پھلوں اور لکڑی کی پیداوار کے لیے جانا جاتا ہے۔

شاہ لطیف بھٹائی کا صوبہ سندھ، برِصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی سندھ دھرتی اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموئے ہوئے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں (7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادی سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ موہن جوداڑو کے کھنڈر بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے، جنہوں نے پانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادی سندھ کو علمی، فنی اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔

سندھ میں سیاحت کے بہت سے مقامات موجود ہیں۔ خاص کر وادی سندھ کی تہذیب کا زیادہ تر حصہ موجودہ سندھ میں ہی واقع جن میں موہن جو دڑو قابل ذکر ہے۔ موہن جودڑو کے کھنڈرات آج بھی سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں سیاحوں اور تاریخ سے محبت کرنے والوں کو دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں۔

اسی طرح خیرپور کا خوب صورت ”فیض محل” اور ٹھٹھہ کہ ”شاہجہانی مسجد” بھی فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔

سندھ دھرتی کی سیاحت یہاں موجود آثارِقدیمہ کے کھنڈرات اور صوفی اِزم کی مرہونِ منت ہے۔ یہاں موجود حضرت لعل شہباز قلندر رح، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رح، حضرت عبداللہ شاہ غازی رح، حضرت سچل سرمستؒ، منگھو پیر اور بی بی جمال خاتون کے مزاروں پر ہر سال لاکھوں زائرین آتے ہیں۔ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والی قوالی اور دھمال تو اب پوری دنیا میں مشہور ہے۔

بہت سے لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ شدید ترین گرم صوبے سندھ میں ایک ہِل اسٹیشن بھی ہے جسے سندھ کا مری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ضلع دادو میں واقع ”گورکھ ہل اسٹیشن” ہے جو کوہِ کیرتھر میں 5700 فیٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ سردیوں میں یہاں کا درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔

سندھ میں واقع رانی کوٹ کے قلعے کو ”دیوار سندھ” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا قلعہ ہے۔ اس کے علاوہ تالپور دور میں بنایا گیا کوٹ ڈیجی کا قلعہ بھی یہیں خیرپور کے قریب واقع ہے۔

سندھ کا تیسرا بڑا شہر سکھر، سیاحت کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے۔  یہاں مسلم فنِ تعمیر کے علاوہ ہندومذہب سے جڑی چند مشہور جگہیں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں جن میں دریائے سندھ پر واقع مشہور سکھر بیراج، سادھو بیلو کا مندر، اروڑ، ایوب برج، لینس ڈاؤن برج، سکھر کا گھنٹہ گھر، سات سہیلیوں کے مزار اور معصوم شاہ کا مینار شامل ہیں۔

جنوبی سندھ میں جائیں تو ٹھٹھہ میں پاکستان کی دوسری بڑی تازہ پانی کی جھیل ”کینجھر” واقع ہے جس کے بیچوں بیچ سندھی لوک داستان کے کردار نوری جام تماچی دفن ہیں۔ ٹھٹھہ کی ہی ایک اور جھیل ”ہالیجی” ہے جو کراچی سے 82 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں قومی شاہراہ پر واقع ہے۔ یہ ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ یہاں پرندوں کی سوا دو سو کے قریب اقسام ریکارڈ کی گئی تھیں۔ ہالیجی جھیل کو دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانوی حکام نے محفوظ ذخیرہ آب کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ منچھر، ہاڈیرو اور ہمل جھیل بھی سندھ کے مشہور سیاحتی مقامات میں گنی جا سکتی ہیں۔

مکلی اور چوکھنڈی کے قبرستان بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مکلی قبرستان ٹھٹھہ کے قریب ہی واقع ہے جس میں لاکھوں قبور موجود ہیں اور تقریباً آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علماء، فضلا، فقہا، محدِثین، شعرا، مغل نواب، فلسفی اور جرنیل سپرد خاک ہیں۔ یہاں کی قبروں کی خاص بات اُن کے دیدہ زیب خدوخال اور نقش و نگار ہیں جو نہ صرف اہلِ قبر کے زمانے کی نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اُس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل ہے۔

سندھ کے مشرقی کونے میں دنیا کا زرخیز صحرا، تھرپارکر واقع ہے۔ لق و دق صحرا پر مشتمل یہ علاقہ بارش کے موسم میں اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ یہاں واقع کرونجھر کا پہاڑ، نوکوٹ کا قلعہ، بھودیسر کی مسجد اور نگرپارکر کے مندر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تھر جائیں تو بارش میں ناچتے ہوئے مور کو ضرور دیکھیں۔

مِنی پاکستان کراچی بھی لاہور ہی کی طرح جدید اور قدیم عمارتوں کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔ یہاں کی بیشتر پرانی عمارتیں برطانوی دور کی ہیں جن میں فریئر ہال، کراچی پورٹ ٹرسٹ بلڈنگ، میری وید ٹاور، ایمپریس مارکیٹ، قائد اعظم ہاؤس، ڈی جے سائنس کالج اور سینٹ پیٹرک چرچ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حبیب بنک پلازہ، بن قاسم پارک، مہوٹہ پیلس، کراچی پورٹ، دو دریا، نیشنل میوزیم آف پاکستان، پورٹ گرینڈ، منوڑا ٹاور، بحریہ کو میری ٹائم میوزیم، پاکستان ایئرفورس میوزیم، ہاکس بے، کلگٹن اور یراڈائز پوائنٹ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

کراچی کے کھانوں میں کراچی بریانی، بن کباب، حلیم، کھیر اور مختلف اقسام کی مچھلی بہت مشہور ہیں۔ سندھ کے دیگر مشہور ذائقوں میں شکار پور کا اچار، حیدرآباد کی زعفرانی بریانی، لاڑکانہ کے امرود اور ڈہرکی و گھوٹکی کی ٹھڈائی شامل ہیں۔

سندھ کی سب سے مشہور سوغات سِندھی اجرک، کام والی قمیضیں، دری/کھیس، حیدر آباد کی چوڑیاں، شکارپوری اچار اور ہالہ کے برتن ہیں۔

بلوچستان، جو بلحاظ رقبہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، ہر قسم کی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے تاہم چوںکہ یہ خطہ زیادہ تر خشک اور ریگستانی علاقے پر مشتمل ہے اور یہاں حکومتوں کی بھی کوئی خاص توجہ نہیں رہی ہے اس لیے اس خطے میں سیاحت کے نظام کو فروغ نہ مل سکا۔ بلوچستان کے متعلق آثارقدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی موجود تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات ملے ہیں۔ مہر گڑھ علم الآثار میں جدید زمانہ پتھر کا ایک اہم مقام ہے جو بلوچستان کے ضلع دھادر میں واقع ہے۔ معلوم تاریخ کے حساب سے یہ جنوبی ایشیا کا پہلا علاقہ ہے جہاں گندم اور جو کی پہلی بار زراعت کی گئی۔ صرف مہر گڑھ ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے اور بھی کئی مقامات پر مختلف ادوار کے آثار قدیمہ ملے ہیں۔

بلوچستان کی سیاحت کی بات کریں تو یہاں دیکھنے سے تعلق رکھنے والی بیشتر جگہیں جنوب میں ساحل کے قریب واقع ہیں جہاں مکران کوسٹل ہائی وے سے بہ آسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ ان میں ہنگول نیشنل پارک، کُند ملیر، ہَنگلاج ماتا کا مندر، ابوالہلول کا مجسمہ، استولا کا جزیرہ، گوادر اور امید کی شہزادی شامل ہیں۔ یہاں کوئٹہ ، زیارت اور چمن کی وادیاں اپنی برفباری اور خوبصورت سیب اور انگور کے باغات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ زیارت میں واقع زیارت ریزیڈنسی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بابائے قوم نے اپنی زندگی کے آخری دن یہیں گزارے تھے۔ زیارت کے ہی قریب ایک جگہ کھوجک پاس ہے جہاں ریلوے کی مشہور سُرنگ ’’کھوجک ٹنل‘‘ واقع ہے۔

اب مشرقی بلوچستان میں بھی کئی خوب صورت جگہیں دریافت کر لی گئی ہیں جن میں مولا چھٹوک، پیر غائب، پیر چھتل نورانی گندھاوہ اور وادی بولان شامل ہیں۔ جہاں زیادہ تر قرب و جوار کے لوگ ہی آتے ہیں۔ دور دور سے بائیکر حضرات بھی اس جگہ کو دیکھنے آ رہے ہیں۔

بلوچی کھانوں کی بات کریں تو اس خطے کے لوگوں میں گوشت بہت مقبول ہے خصوصاً دُنبے اور بکرے کا گوشت یہ مزے سے کھاتے ہیں۔ بلوچی سجی، کاک، آب گوشت، کابُلی پلاؤ، چکن روسٹ، کھیر اور بلوچی کھڈا گوشت مشہور اور علاقائی کھانے ہیں۔ پھلوں میں سیب، انگور، آڑو اور ناشپاتی بکثرت دست یاب ہے۔

یہ تو تھے پاکستان کے مختلف علاقوں کے چیدہ چیدہ سیاحتی مقامات۔ اب ہم چلتے ہیں موجودہ دور میں سیاحت کی اہمیت اور اس کی ترقی کی طرف۔ گذشتہ چند سالوں میں سیاحت ایک بڑی انڈسٹری بن کر ابھری ہے اور موجودہ حکومت کی خصوصی توجہ کی بدولت یہ اور آگے جا رہی ہے۔

سیاحت نہ صرف سیر و تفریح اور صحت افزائی کے لیے مفید ہے بلکہ سیاحت سے مقامی آبادی کی اقتصادی حالت کو بھی تقویت ملتی ہے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں اور مختلف ثقافتوں اور خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے جس سے مختلف اچھی چیزیں ایک معاشرے سے دوسرے میں رائج ہوجاتی ہیں۔ سیاحت کے مختلف اقسام ہیں جیسے قدرتی نظاروں کو دیکھنے والا سفر، مذہبی سیاحت جس میں لوگ مختلف مذہبی جگہوں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں، تاریخی سیاحت جس میں لوگ آثار قدیمہ وغیرہ دیکھتے ہیں۔

آج سے چند سال پہلے 2010 کی بات ہے جب مشہور زمانہ ٹریول گائیڈ بْک ’’لونلی پلینٹ‘‘ نے پاکستان کو آنے والے سالوں میں سیاحوں کی جنت قرار دیا تھا۔ تب کوئی شخص یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ آیا یہ بات سچ بھی ہو گی یا نہیں؟ کیوںکہ ان دنوں پاکستان بہت مشکل حالات سے جوجھ رہا تھا۔

اسی طرح برطانیہ کی مشہور ’’برٹش بیک پیکر سوسائٹی‘‘ نے ’’زمین پر موجود تمام ممالک میں سے انتہائی دوستانہ ملک، جہاں پہاڑوں کے وہ حیرت ناک مناظر ہیں جو کسی کے بھی تصور سے ماورا ہیں‘‘ کے الفاظ کے ساتھ 2018 میں پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی سیاحتی منڈی قرار دیا تھا۔ اسی طرح امریکی جریدے ’’فوربس‘‘ نے بھی پاکستان کو2019 میں سیاحت کے لیے ایک بہترین ملک قرار دیا تھا۔

تو جناب یہ تو تھے وہ چند حوالے جو دنیا کی جانی مانی تنظیموں اور جریدوں نے دیے تھے۔ لیکن اس سے ہٹ کر پاکستان کے ہر علاقے میں سیاحت کا زبردست اسکوپ ہے اور گذشتہ چند سالوں میں سیاحت ایک بڑی انڈسٹری بن کر ابھری ہے جس میں ہماری بائیکر کمیونٹی، میڈیا اور ٹریول ایجنسیوں کے علاوہ بین الاقوامی سیاحوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔

کینیڈا کی روزی گیبریل، پولینڈ کی ایوا زو بیک، امریکا سے ڈریو برنسکی اور پیرو سے والٹر مینریکے نے پاکستان کے طول و عرض میں گھوم پھر کہ بہت باریک بینی سے اس ملک کو دیکھا ہے۔ شاید اتنا باریک بینی سے ہم عام پاکستانیوں نے بھی نہ دیکھا ہو گا۔ ان حضرات نے موٹرسائیکل اور لوکل ٹرانسپورٹ میں شمال سے لے کر جنوب تک پاکستان کا تاریخی و ثقافتی لحاظ سے ہر اہم مقام کھوج ڈالا ہے۔ ان کے وی لوگز اور ویڈیوز سے متاثر ہو کر بہت سے بین الاقوامی سیاحوں نے پاکستان کا رُخ کیا ہے۔

پاکستان کی سیاحت میں ایک اہم کردار بائیکر کمیونٹی کا بھی ہے جو اپنی موٹرسائیکلوں پر دور دراز کی سیاحت کرتے ہیں اور چھپے ہوئے مقامات کو منظرِ عام پر لے کر آتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا نام ’’کراس روٹ کلب‘‘ ہے۔ کراس روٹ کلب کی بنیاد 2015 میں جناب مکرم ترین صاحب نے رکھی تھی جس کا واحد مقصد سیاحت کے ذریعے پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کرنا تھا۔ 11 لوگوں سے شروع ہونے والے اس کلب میں آج 700 ممبر شامل ہیں۔ اس کلب کے تحت بہت سے ایونٹس منعقد کیے جاتے ہیں اور ہر سال عالمی یومِ سیاحت مشہور مقامات پر منایا جاتا ہے تاکہ عوام میں اُن کی اہمیت اجاگر کی جا سکے۔

اس کلب کے تحت سیاحت کا عالمی دن 2016 میں پشاور، 2017 میں خنجراب ٹاپ اور 2018 میں زیارت بلوچستان میں منایا گیا۔ رواں سال یہ دن مزار قائد کراچی میں منایا جائے گا۔ کراس روٹ کلب نے سیاحت میں ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے پاکستانی بائیکر حضرات پر بین الاقوامی سفر کے دروازے کھول دیے ہیں۔ رواں سال اگست میں یہ کلب 16 موٹر سائیکل سواروں کا قافلہ لے کر ’’یارِ من ایران‘‘ کے نام سے اسلامی جمہوریہ ایران کے روڈ ٹرپ پر گیا اور یومِ آزادی پر تہران میں پاکستان کا جھنڈا لہرا کر ہمارا سر فخر سے بلند کیا۔

مکرم ترین کا کہنا ہے کہ آپ جس دھرتی پر رہتے ہیں اس کا کچھ قرض ہوتا ہے آپ پر۔ اپنی صلاحیتوں کے مطابق آپ کو وہ قرض اتارنا چاہیے۔ اس وقت میں یہی کر رہا ہوں۔ سیاحت کے میدان میں اپنی سرزمین کی خدمت میرا اولین شوق، کام اور جنون ہے اور میں یہ مرتے دم تک کرتا رہوں گا۔ان کے علاوہ روڈیز، مولویز ان بائیک اور ڈائیجیرینز جیسے بائیکر کلب بھی وطنِ عزیز کی سیاحت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

بات کی جائے جنوبی پنجاب کی تو 2016 سے ’’وسیب ایکسپلوررز‘‘ کے نام سے قائم سیاحوں کی تنظیم نے جنوبی پنجاب کے تاریخی مقامات خصوصاً کوہِ سلیمان اور ملتان و ڈیرہ غازی خان کی سیاحت پر بہت کام کیا ہے۔ فورٹ منرو کے علاوہ کوہِ سلیمان کے درجنوں سیاحتی مقامات دریافت کر کے وہاں چھوٹی بڑی سرگرمیاں منعقد کروانا بھی وسیب ایکسپلوررز کے کریڈٹ پر ہے۔ یہ چھوٹے بڑے مقبروں اور تاریخی جگہوں سے لے کر راڑھ شم، موسیٰ خیل کے چشموں اور کوہ سلیمان کی چوٹیوں تک گئے اور انہیں منظرِ عام پر لے کر آئے۔

اسی طرح عبد الرحمن پالوہ، وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے سیاحت کا ذریعہ سائیکل کو بناتے ہوئے ایک ہی راؤنڈ میں پورا پاکستان گھوم لیا۔ انہوں نے اکتوبر 2017 سے اپریل 2018 تک اس چھوٹی سی سواری پر پورے ملک کی سیر کی جہاں جگہ جگہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

پاکستانی میڈیا اور سینما بھی سیاحت کو پروموٹ کرنے میں کافی متحرک نظر آتے ہیں۔ 2018 میں بننے والی فلم ”موٹر سائیکل گرل” اپنی طرز کی منفرد فلم تھی جس کی کہانی پاکستان کی پہلی خاتون موٹر سائیکلسٹ زینتھ عرفان کی حقیقی زندگی پر مبنی ہے۔ اس فلم میں زینتھ کے شمالی علاقوں کے سفر اور اس دوران پیش آنے والے واقعات کو بڑی خوب صورتی سے فلم بند کیا گیا ہے۔ پاکستانی نیوز چینلز نے بھی سیاحتی مقامات پر کئی پروگرامز کیے ہیں جن سے عوام کو آگاہی حاصل ہوئی ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی 2017 میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ٹوٹل جی ڈی پی میں سیاحت کا حصہ 328 ملین امریکی ڈالر تھا جو تقریباً 2۔8 فیصد بنتا ہے، جب کہ 2016 میں یہ 7۔6 بلین امریکی ڈالر تھا جو ٹوٹل جی ڈی پی کا 2۔7 فیصد بنتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں 1۔9 ملین غیرملکی سیاحوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2025 تک سیاحت پاکستانی جی ڈی پی میں اندازاً 1 ٹریلین ڈالر کی حصہ دار ہوگی۔

ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم ملکی سیاحت کو پروموٹ کرنے میں بڑھ چڑھ کر اپنا حِصہ ڈالیں گے۔ اس کے گلی گلی کونے کونے کو صاف ستھرا رکھیں گے۔ سیاحتی مقامات پر کوڑا کرکٹ نہیں پھینکیں گے۔ ملک کا مثبت چہرہ پوری دنیا کو دکھائیں گے۔ سیاحت کے حوالے سے ہر اچھی بات کو سراہیں گے اور غلط بات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔ امید ہے کہ ان باتوں پر عمل پیرا ہوکر ہم ایک اچھے پاکستانی ہونے کا ثبوت دینگے اور اسکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

The post  ہمارے ملک میں دیکھنے کو کیا نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

 آؤ سیاحو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی

$
0
0

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’’ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن‘‘ کے تحت 27 ستمبر کو سیاحت کا عالمی دن منایا گیا، کیوں کہ ہم ہر عالمی دن مناتے ہیں اس لیے یہ دن بھی منایا، لیکن سیاحت کا دن منانے سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم دنیا بھر کے سیاحوں کو منا کر پاکستان لائیں۔

سیاحوں کو منانے، رجھانے اور لانے کے لیے ہمیں ان سے رابطہ کرکے انھیں پاکستان کے مختلف شہروں اور مقامات سے روشناس کرانا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ سیاحت کے شوقین افراد کے لیے پاکستان اور اس کے سیر کے قابل کچھ مقامات کا تعارف پیش کردیں۔  تو پہلے حاضر ہے خود پاکستان کا تعارف:

٭پاکستان

پیارے سیاحو! ہمارا ملک پاکستان جنوبی ایشیا میں واقع ہے۔ یہ لوکیشن اتنی اچھی ہے کہ ہم نے نیا پاکستان بھی یہیں بنایا ہے۔  پاکستان کے مشرق میں بھارت ہے، مغرب میں ایران اور افغانستان، شمال میں چین، جنوب میں سمندر ہے۔ چین اور سمندر سے ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں۔

پاکستان میں آپ ہوائی جہاز سے، سڑک سے اور افغانستان سے آسکتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو جیسے بعض ’’سیاح‘‘ ایران کے راستے بھی آجاتے ہیں۔

پاکستان میں سیاحوں کے لیے دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اسی لیے ہمارے قومی شاعر نے کہا ہے ۔۔۔’’کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ۔‘‘ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ پیارے! یہ پاکستان ہے یہاں منہ اٹھا کر چلنا مت شروع کردے، آنکھیں کُھلی رکھ زمیں دیکھ۔۔۔ کہیں کوئی گٹر تو نہیں کُھلا، کوئی گڑھا تو نہیں، فلک دیکھ۔۔۔ کہ بجلی کا تار تو گرنے کو نہیں، فضا دیکھ ۔۔۔ مکھیاں تو نہیں بھنبھنا رہیں اور جراثیم لے کر تجھ پر حملہ کرنے تو نہیں آرہیں۔ بس اتنی سی احتیاط کے ساتھ پاکستان میں سیاحت کا بھرپور لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ تو سیاحو! ہم آپ کو پاکستان کے اہم سیاحتی مقامات سے روشناس کراتے ہیں۔

٭اسلام آباد

اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ یہ راولپنڈی کے ساتھ ہے۔ ہمیشہ ہی سے ساتھ ہے، مگر ان دنوں کچھ زیادہ ہی ساتھ ہے۔ اسلام آباد کے لیے راولپنڈی کا ساتھ ضروری ہے، ورنہ دارالحکومت میں حکومت کو ’’ہارالحکومت‘‘ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ یہاں تاریخی عمارتیں تو نہیں مگر عمارتوں میں تاریخ ضرور بنتی ہے۔ چوں کہ سنہری حرفوں سے تاریخ لکھنے کے لیے سونے کا پانی چاہیے، جو بہت منہگا ہے، چناں چہ سیاہ تاریخ لکھ کر کام چلایا جاتا رہا ہے۔ اس شہر میں اکثر لوگ حکومت کرنے، جیبیں بھرنے اور دھرنے کے لیے آتے ہیں۔  جو سیاح یہاں گھومنے پھرنے آنا چاہتے ہیں وہ انتظار فرمائیں،کیوں کہ مولانا فضل الرحمٰن آنے والے ہیں، اگر وہ راستے سے اُلٹے قدموں گھوم گئے تو سیاح آکر گھوم لیں۔

٭کراچی

کراچی آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، اس کی بڑائی میں لینڈمافیا اور بلڈرز کا سب سے بڑا کردار ہے، جن کی پستیوں اور مستیوں کے باعث شہر میں دور دور تک تازہ بستیوں کا جنم ہوا۔ لیکن سیاحوں کو ان بستیوں سے کیا لینا دینا، ہمیں تو بس انھیں کراچی کی وسعت کے بارے میں بتانا تھا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ یہ اتنا بڑا شہر ہے کہ خود کراچی کراچی میں کہیں کھوگیا ہے۔

کراچی میں سیاحوں کے دیکھنے کو سمندر ہے۔ خود کراچی والوں کو بھی ایک زمانے تک نہیں پتا تھا کہ یہاں سمندر ہے۔ پھر ہمارے ایک ادیب انتظارحُسین نے انھیں بتایا کہ ’’آگے سمندر ہے۔‘‘ کراچی والے تو اتنا جاننے ہی پر خوش ہوگئے کہ آگے سمندر ہے، لیکن ان کے راہ نماؤں نے کسی انتظارحُسین کا انتظار کیے بغیر سمندر سے آگے کی دنیا دریافت کرلی اور دبئی، امریکا اور برطانیہ جابسے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ سیاح حضرات سمندر پر نہ جائیں، سمندر تو دنیا بھر میں ہے کہیں بھی دیکھ سکتے ہیں، ہمارا کچرے سے اَٹا ساحل دیکھ کر ہمیں شرمندہ کرنا ضروری ہے۔

کراچی میں قائداعظم کا مزار بھی ہے۔ قائداعظم وہ ہیں جنھوں نے پاکستان بنایا تھا، اس احسان کے جواب میں قوم نے ان کا مزار بنادیا، ہم احسان کا بدلہ مزار سے دیا کرتے ہیں۔ اگر سیاح مزارقائد پر نہ جانا چاہیں تو کوئی بات نہیں، ہمارے وزیراعظم بھی نہیں جاتے۔

کراچی میں پانی کی قلت ہے، اتنی کہ عوام قطرے قطرے کو ترستے ہیں اور حکم رانوں کو چُلو بھر پانی بھی میسر نہیں۔ چناں چہ کراچی میں آکر سیاح منہہ دھوئے بغیر جس منہ سے آئے تھے وہی لے کر جائیں گے، اس لیے بہتر ہوگا کہ کراچی نہ آئیں۔

٭پشاور

پشاور خیبرپختون خوا کا دارالحکومت ہے، یہ وہی صوبہ ہے جس میں بسنے والوں کے بارے میں ہمارے ایک قومی نغمے میں بچوں کو پاکستان کی سیر کراتے ہوئے یہ کہہ کر ڈرایا گیا ہے کہ ’’ٹھوکر میں زلزلے یہاں ہیں، مُٹھی میں طوفان یہاں۔۔۔سر پہ کفن باندھے پھرتا ہے دیکھو ہر اک پٹھان یہاں‘‘ نغمے کے ان مصرعوں سے ڈر کر بچے اس صوبے کی سیر کرنے نہیں گئے تھے۔ تاہم سیاحوں کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، اب یہاں لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ مٹھی میں چار پیسے آجائیں، اس لیے مٹھی میں زلزلے اور طوفان رکھنے کی گنجائش نہیں رہی ہے۔ رہی بات کفن کی تو جب سے سر پر منہگائی کا بوجھ پڑا ہے لوگوں نے کفن کھول کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے رومال بنالیے اور انھیں بیچ بیچ کر گھر چلارہے ہیں۔ پشاور میں ’’بی آر ٹی پروجیکٹ‘‘ سیاحوں کی دید کا منتظر ہے۔ دنیا گھومنے والوں کے بہت سے شاہ کار بنے  دیکھے ہوں گے، لیکن پشاور میں پہلی مرتبہ وہ کوئی زیرتکمیل اور بنتا بگڑتا شاہ کار دیکھ پائیں گے۔ اس طرح وہ منصوبے اور بے وقوف بنانے کا عمل بھی سیکھ سکتے ہیں۔

٭لاہور

لاہور ہمارا تاریخی شہر ہے۔ یہاں مغلوں کی بنائی ہوئی عمارات ہیں، جن میں شاہی قلعہ خاصے کی چیز ہے۔ یہ عمارت اتنی تاریخی ہے کہ جو پاکستانی اپنی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے انھیں یہ قلعہ سرکاری طور پر دکھایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ’’جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا‘‘، یہی وجہ ہے کہ بعض حکم رانوں نے یہ سمجھ کر کہ لاہور کے باہر کوئی پیدا ہی نہیں ہوتا، اپنی ساری توجہ لاہور پر مرکوز رکھی۔ لاہور میں مغلوں کے بعد سب سے زیادہ تعمیرات شریفوں کی ہیں۔ سیاح مغلوں کے بارے میں مورخوں کی پھیلائی ہوئی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، مغل بہت شریف تھے، اور شریف تو پورے مغل تھے۔

ان عمارات کے علاوہ لاہور میں مینارپاکستان، عجائب گھر، چُڑیا گھر اور عثمان بزدار ہیں۔ اللہ شہر کو قدرتی آفات سے محفوظ رکھے، مگر وقت کا کیا پتا، اس لیے سیاح ذکر کردہ عمارات پہلی فُرصت میں دیکھ لیں، عثمان بزدار کو اگلے تیس چالیس سال بعد بھی کسی دورے میں دیکھا جاسکتا ہے۔

٭موہنجودڑو

حکومت سندھ نے سیاحوں کی سہولت کے لیے پورے سندھ کو موہنجو دڑو میں تبدیل کردیا ہے، تاکہ دوردراز کا سفر کرکے ان پانچ ہزار سال پُرانے آثار کو دیکھنے کے بہ جائے کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ جیسے شہروں ہی کو موہنجودڑو کے روپ میں دیکھیں اور دل شاد کریں۔ سیاح کچھ دن ٹھیر کر سندھ آئیں تو انھیں پتھر کا دور بھی یہیں دیکھنے کو مل جائے گا، اس کے لیے فلمیں دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ہمیں یقین ہے کہ ہماری تحریر پڑھ کر دنیا بھر کے سیاح پاکستان کا رُخ کرلیں گے، اتنے سارے سیاحوں کے قیام کے لیے ہوٹل کم پڑجائیں تو انھیں حکومت کے تیار کردہ پچاس لاکھ گھروں میں ٹھیرایا جاسکتا ہے، اس کے باوجود سیاحوں کی کھپت نہ ہوسکے تو سرکار کی جانب سے لگائے جانے والے لاکھوں درخت کس دن کام آئیں گے۔ ان درختوں پر مچان بنا کر سیاحوں کو فطری ماحول میں رہائش فراہم کی جاسکتی ہے، ورنہ وزیراعظم ہاؤس تو ہے ہی خالی، بس یہ ہوگا کہ ایوان وزیراعظم کی دیواروں پر سیاحوں کے دھوئے ہوئے کچھے سوکھ رہے ہوں گے، تو کیا ہوا، یہ مناظر ہمارے لیے کوئی نئے تو نہیں۔

The post  آؤ سیاحو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی appeared first on ایکسپریس اردو.


پہاڑ چاروں جانب یوں سر اُٹھائے کھڑے ہیں جیسے شہر کا محاصرہ کر رکھا ہو

$
0
0

( قسط نمبر 2)

ائر پورٹ کی پرانی عمارت میں اب محکمہ موسمیات اور پاک فضائیہ کے دفاتر ہیں۔طیارہ گلگت ائرپورٹ پر اُترا۔رفتار کم ہوئی تو رن وے کے دوسرے سرے سے مڑ کر عمارت کی طرف لے جایا گیا۔ جہاز رُکا،اور مسافروں نے اُترنا شروع کیا۔ میں نے جب طیارے سے باہر سیڑھی پہ قدم رکھا تو سرد ہوا کا ایک تھپیڑے نے استقبال کیا۔

میں نے گرم کپڑے اور اوپر چترالی چغہ پہن رکھا تھا، اس لئے زیادہ ناگوار محسوس نہ ہوا۔ ائرپورٹ کے گرد  ایک دائرے کی صورت پہاڑ کچھ یوں سر اُٹھائے کھڑے ہیں جیسے انہوں نے گلگت کا محاصرہ کر رکھا ہو۔ فروری کے ابتدائی دن ہونے کے باعث زیادہ تر درختوں کے پتے گر چکے تھے۔خزاں اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ چھائی ہوئی تھی۔ پہاڑوں کے دامن میں بہتا نیلگوں دریائے گلگت، جس کی ایک جھلک طیارے کے اُترتے وقت نظر آئی تھی اب آنکھوں سے اوجھل کہیں گہرائی میں بہہ رہا تھا۔

مجھے لینے کے لئے دفتر کی گاڑی کے علاوہ رحمت علی انجنیئر نگ منیجر، شیر محمد نیوز ایڈیٹر اور شاہ زمان اکاؤنٹنٹ اپنی گاڑیوں پر موجود تھے۔ میرے لئے یہ حیرت کی بات تھی کہ ریڈیو پاکستان میں ملازمت کرنے والے اپنی گاڑیوں میں گھوم پھر رہے ہیں۔کیونکہ اس ’اشکِ بلبل‘ جتنی تنخواہ میں تو مہینہ گذارنا دوبھر ہوتا ہے،کجا یہ کہ نئے ماڈل کی جاپانی گاڑیاں زیر استعمال ہوں۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کسٹم ڈیوٹی ادا کئے بغیر بہترین جاپانی گاڑیاں سستے داموں    بٹ خیلہ، سوات، بشام اور دیر سے خرید سکتے ہیں۔چترال ، گلگت،غذر، چلاس،ہنزہ، نگر،استور ، سکردو ،گھانچے اور شگر میںچلنے والی اسی فیصد سے زیادہ کاریں، جیپیںاور دیگر گاڑیاں نان کسٹم پیڈ ہیں۔عام متوسط طبقے کے لوگ دو اڑھائی لاکھ روپے میں جبکہ زیادہ خوشحال لوگ مہنگی لینڈ کروزرگاڑیاں خرید لیتے ہیں۔ ائر پورٹ سے نکل کر ہم لوگ ریڈیو اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے جو گلگت چھاؤنی کے علاقے جوٹیال میں واقع ہے۔ریڈیو اسٹیشن  پہنچ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔

عمارت نہایت مناسب محل و وقوع پر ایستادہ ہے اور اس کی تعمیر بھی اچھے انداز میں کی گئی ہے۔اس سے پہلے میں جن اسٹیشنوں پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے چکا تھا۔اُن میں سکردو، پشاور،راولپنڈی، تراڑکھل، ژوب، چترال، بنوں اور کوہاٹ شامل ہیں۔ ان میں سے کوہاٹ اور بنوں کے اسٹیشنوں کی عمارتوں کا ذکر کرنا تو لایعنی ہے کیونکہ ان دونوں اسٹیشنوں کا عملہ گذشتہ گیارہ برس سے اپنی عمارتوں سے محروم کرایے کے مکانوں میں دھکے کھا رہا ہے۔اس عرصہ میں دودو بار عمارتیں تبدیل کی جا چکی ہیں۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ انجینئرنگ سیکشن والے کرائے کے ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقل ہونے پر کم از کم دس لاکھ روپے خرچ کرواتے ہیں۔

یہ ضائع ہوجانے والی رقم ہر پانچ سات برس بعد ریڈیو انتظامیہ بخوشی مہیا کر دیتی ہے لیکن اپنی زمین خریدنے اور اُس پر عمارت تعمیر کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔کرائے کی عمارتوں میں چلنے والے ریڈیو اسٹیشن کوہاٹ اور بنوں کے علاوہ سرگودھا، سیالکوٹ، مٹھی، بھٹ شاہ اور میانوالی میں بھی ہیں۔جن کے کرایے کی ادائیگی پر ہر سال لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔

جن مقامات پر ریڈیو پاکستان نے اپنی زمین خرید کر سٹیشن تعمیر کئے ان میں سے چترال سٹیشن شہر کے سب سے نچلے مقام پر واقع ہے جہاں نصب ٹرانسمیٹر کی آواز دو تین کلو میٹر کے دائرے سے آگے نہیں جاتی تھی۔ ژوب اسٹیشن کی عمارت بہت اچھی بنی تھی تو دیکھ بھال کے لئے فنڈز مہیا نہ کئے جانے کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ یہی صورت حال دیگر سٹیشنوں کی بھی ہے۔خیر اس جملہ معترضہ کی معذرت کئے بغیر میں دوبارہ گلگت کی طرف آتا ہوں جہاں سٹیشن تعمیر کرنے کی غرض سے 1980 ء کے عشرے میں بارہ کنال رقبہ خریدا گیا تھا۔ جوٹیال کے علاقے میں یہ سٹیشن گلگت شہر کے بلند ترین مقام پر بنایا گیا ہے۔

اس میں تین اسٹوڈیوز، لائبریری، عملے کے دفاتر، کنٹرول روم، جنریٹر روم ،سٹور، پولیس بارک اور دو وسیع چمن ہیں۔ ریڈیوپاکستان گلگت کا آغاز دنیور کے علاقے میں چونتیس کنال رقبہ خرید کر کیا گیا تھا۔اُس وقت250 واٹ طاقت کا ایک چھوٹا سا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا تھا جس کی نشریات صرف پانچ کلومیٹر کے دائرے میں واقع گلگت وادی میں سنی جا سکتی تھیں۔ 1950 ء کے عشرے میں یہ ٹرانسمیٹر آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ میں ویلج براڈکاسٹ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے نصب کئے گئے تھے۔

اُن ممالک کی یہ ضرورت پوری ہوئی تو یہ ٹرانسمیٹر تھوک کے حساب سے ریڈیو پاکستان کے سر تھوپ دیئے گئے۔  ملتان،ایبٹ آباد، سکردو، گلگت، فیصل آباد اور کئی دیگرسٹیشنوں کے ابتدائی دنوں میں لگائے گئے یہ ننھے منے ٹرانسمیٹر اب تبدیل کئے جا چکے ہیں۔ لیکن چترال کے لوگوںکی قسمت میں اب تک یہی ٹرانسمیٹر لکھا ہوا ہے۔

جس کے نہ تو پرزے ملتے اور بنتے ہیں اور نہ ہی اس وقت ریڈیوپاکستان میں اسے ٹھیک کرنے والا کوئی پیشہ ور انجینئر باقی رہا  ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی آواز براڈکاسٹنگ ہاؤس سے باہر نہیں جاتی۔ 2006 ء میں چترال میں نصب ہونے والا ایف ایم ٹرانسمیٹر اپنی زندگی کی آخری سانس لے چکا ہے اور بکر آباد چترال میں اس کی تنصیب کے لئے لی گئی کرائے کی عمارت  خالی کی جا چکی ہے۔

( 2015 ء میں طوفانی بارشوں اورسیلاب کے بعد ریڈیوپاکستان صدردفتر نے چترال شہر میں ایک عمارت کرایہ پر لے کر اُس میں ایف ایم کا ٹرانسمیٹر نصب کرکے ریڈیوپاکستان چترال کی نشریات بحال کر دی ہیں)گلگت دنیور کا یہ پرانا اسٹیشن،  جسے  Low Power Transmitter کہتے ہیں اورجہاں اب دس کلو واٹ طاقت کا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر نصب ہے، شاہراہ قراقرم کے کنارے واقع ہے۔یہاں 1979 ء میں خاردار تار کے ذریعے اس احاطے کی نشاندہی کی گئی تھی۔

سنتیس برس گذرنے پر اب یہ خار دار تار جگہ جگہ سے منہدم ہوچکی ہے ۔ گلگت شہر اور دینور کے سینکڑوں کتے ایل پی ٹی کے احاطے میں براجمان ہیں۔ اکثر و بیشتر عملہ کے لوگ بھی ان کے حملوں کی زد میں رہتے ہیں۔شاہراہ قراقرم پر واقع ہونے کی وجہ سے دینور میں ہمارے اس اسٹیشن کے دائیں بائیں ہر طرف بڑے بڑے شاپنگ سنٹر بن چکے ہیں۔

سی پیک کی تعمیر کا کام بھی شروع ہوچکا ہے۔ چین کی مختلف کمپنیاں اور اُن کا عملہ گلگت پہنچ چکا ہے اور دینور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے۔ پاکستان بھر کی طرح گلگت میں بھی قبضہ مافیا موجود ہے اور اپنے وجودکا احساس دلاتا رہتا ہے۔ ہمارے ایل پی ٹی کا محل و وقوع بہت اہم ہے۔یہی وجہ ہے کہ قبضہ مافیا اس قیمتی رقبے پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے میں نے صورت حال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد طریقہ کار کے مطابق محکمہ تعمیرات گلگت  بلتستان سے ایل پی ٹی کے اردگرد چہار دیواری کی تعمیر کا تخمینہ حاصل کیا۔ چاردیواری کی تعمیر پر محکمہ پی ڈبلیو ڈی گلگت بلتستان نے اُنچاس لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا تھا۔

میں نے ایل پی ٹی میں شاہراہ قراقرم کے کنارے چوالیس دکانوں پر مشتمل سی پیک شاپنگ سنٹر کے نام سے ایک تعمیراتی منصوبہ تیار کرکے ارباب اختیار کو ارسال کر رکھا ہے جس کی تعمیر کے لئے ریڈیوپاکستان کو ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ ہر دکان کے دو برس کے کرایے کی رقم بطور ایڈوانس کرایہ داروں سے وصول کرکے نہ صرف یہ شاپنگ پلازہ تعمیر کیا جا سکتا ہے بلکہ اس رقم سے چار دیواری بھی تعمیر ہو جائے گی اور ریڈیو پاکستان کوکم از کم پانچ لاکھ روپے ماہانہ کرایہ کی مد میں وصول ہوں گے۔معلوم کرنے پر پتہ چلا ہے کہ یہ منصوبہ ارباب اختیار کو پسند تو آیا ہے لیکن اسے سرد خانے میں ڈال دیا  گیا ہے۔ معلوم نہیں کیوں؟۔

دینور میں چونکہ عید گاہ کے لئے کوئی جگہ مختص نہیں اس لئے ضلعی انتظامیہ مقامی آبادی کے مطالبے پر پچھلے چند برس سے یہ وطیرہ اپنائے ہوئے ہے کہ عیدین کے مواقع پر ریڈیوپاکستان گلگت کے اس دفتر کی خاردار تار کو بلڈوز کرکے ٹرانسمیٹر کے انٹینا کے عین نیچے شامیانہ لگا کر نماز عید کے لئے جگہ بنا دیتی ہے اور اپنے اس اقدام کے بارے میں سٹیشن ڈائریکٹر کو محض ایک خط اطلاع دینے کے لئے لکھ دیتی ہے۔

دینور کی عید گاہ کے لئے مجوزہ جگہ علاقے کے عوام کے لئے بقول شخصے دور ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ۔سوچنے کی با ت یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کرتی ،ایک اہم قومی ادارے کی حساس تنصیبات کو یوں داؤ پر لگانا کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔

دینور میں بنا پہلا اسٹیشن گلگت شہر سے تیرہ کلو میٹر دور دریا پارواقع ہے۔ پروگراموں میں حصہ لینے والے فنکاروں اور دیگر افراد کو آنے جانے میں کافی مشکلات کا سامنا تھا اس لئے جب نیا براڈکاسٹنگ  ہاؤس بنانے کا فیصلہ کیاگیا تو اس مقصد کے لئے گلگت  چھاؤنی کے علاقے جوٹیال میں زمین خریدی گئی۔ گلگت لاری اڈا جوٹیال میں منتقل ہونے کے بعد اس علاقے میں تعمیرات کا آغاز ہوا۔ ریڈیو پاکستان کا سٹیشن بننے کے بعد رفتہ رفتہ یہاں عدالت عالیہ،سکریٹریٹ، سرینا ہوٹل تعمیر ہوا اور کئی دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے اپنے دفاتر تعمیر کئے۔اب یہ علاقہ گلگت کا سب سے مہنگا اورآباد علاقہ بن چکا ہے۔

جہاں زمین کی عمومی قیمت کم و بیش ایک سے دوکروڑ روپے فی کنال ہے۔ گلگت شہر سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باوجود اسٹیشن کے اردگرد کا ماحول شہر جیسا ہے۔جدید شاپنگ سنٹر، کھانے پینے کی دکانیں گلگت لاری اڈے تک پھیل چکی ہیں جو ریڈیو پاکستان گلگت سے مزید ڈیڑھ دو کلو میٹر آگے شاہراہ قراقرم پر واقع ہے۔گلگت شہر کا ایک حصہ دریائے گلگت سے اُس پار واقع ہے۔ دینور کی یہ آبادی شہر سے دریا پر بنے ہوئے دو پلوں کے ذریعے منسلک ہے۔جبکہ ایک پل زیر تعمیر تھا ( یہ پُل 2016 ء کے اواخر میں مکمل ہو گیا تھا) جس کی اونچائی کچھ زیادہ نہیں اور گرمیوں میں دریا کی سطح عمومی طور پر اتنی بڑھ جاتی ہے کہ یہ پل مکمل ہونے  کے بعد زیادہ عرصہ چلتا دکھائی نہیں دیتا۔ بہرحال اگر اس زیر تعمیر پل کی بدولت کچھ لوگوں کے بینک بیلنس میں اضافہ ہو چکا ہے تو یہ الگ بات ہے؟۔

ریڈیو اسٹیشن کے پیچھے بیچلر ہاسٹل تعمیر کیا گیا ہے جس میں چوبیس کمرے ہیں۔ اس ہاسٹل کا ر استہ براڈکاسٹنگ  ہاؤس کے ساتھ اوپر جوٹیال کی آبادی کی طرف جانے والی گلی میں ہے۔

چونکہ پی آئی اے کی پرواز پر بیس کلو گرام کے ایک اٹیچی کیس کے علاوہ ایک ہینڈ بیگ کی اجازت ہے۔ اس سے زائد سامان کے ہر  نگ پر تین ہزار روپے بطور کرایہ دینا پڑتا ہے اس لئے میں نے اپنا زیادہ تر سامان نیٹکو کی بس سروس کے ذریعے گلگت بھجوا دیا تھا ۔میرا سامان پہنچ چکا تھا اور میرے کمرے میں لگا دیا گیا تھا۔ گذشتہ تیس برس کے دوران یعنی 1985 ء سے دسمبر2014 ء تک یہاں تعینات ہونے والے تمام اسٹیشن ڈائریکٹر مقامی تھے اور اس بیچلر ہاسٹل میں ٹھہرنے پر مجبور نہ تھے۔ اس لئے مجھے صرف بھائیں بھائیں کرتاخالی کمرہ اور صرف ایک پلنگ ملا۔ وہ بھی سکردو سے تعلق رکھنے والے اسٹیشن ڈائریکٹر غلام حسین کی دُوراندیشی کا نتیجہ تھا کہ ایک کمرے کو مہمانوں کے لئے تیار کیا گیا تھا اور یہ پلنگ اس میں موجود تھا۔ سامان دیکھنے کے بعد میں نے اپنے دفتر کا رخ کیا جہاں اسٹیشن کے تمام شعبوں کے سربراہ اور یونین کے عہدیدار میرے منتظر تھے۔

ان میں سے صرف شاہ زمان سے میری آشنائی تھی۔ وہ کچھ عرصہ صدر دفتر اسلام آباد میں تعینات رہا تھا۔ اور اب میرے پرسنل اسسٹنٹ اور اکاؤنٹس آفیسر کی دُہری ذمہ داریاں نبھا رہا  ہے۔ (ریڈیو پاکستان گلگت میں اکاؤنٹس کے شعبے میں تعینات جعفر علی اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوچکے ہیں اور ملک کے دیگر علاقوں سے اکاؤنٹس کا کوئی افسر یہاں آنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کے شعبہ اکاؤنٹس میں ایک عرصہ سے آسامیاں پُر نہیں کی گئیں اور پورے ملک میں اکاؤنٹس کے عملے کی شدید قلت ہے۔ ) باقی سب لوگوں سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ میں نے تعارف کے بعد مختصر سی گفتگو کی اور اُن سے کہاکہ مجھے کوئی بہت بڑا انقلاب نہیں لانا صرف اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور اس سلسلے میں ہم سب نے مل جل کر کام کرنا ہے۔ تاکہ اس دور افتادہ سٹیشن کی کارکردگی کسی بھی بڑے اسٹیشن سے کم تر نہ ہو۔ چونکہ ریڈیو پاکستان گلگت کی سالگرہ دو اپریل کو منائی جاتی ہے اس لئے میں انہیں اس حوالے سے ایک شایان شان تقریب کا اہتمام کرنے کے لئے بھی کہا اور اس سلسلے میں سب کی ذمہ داریوں کا تعین کردیا۔

ریڈیو پاکستان گلگت پہنچنے کے بعد سب سے زیادہ تلخ تجربہ بجلی کی طویل بندش کی صورت میں جھیلنا پڑا۔ برف پوش پہاڑوں، گنگناتے ندی نالوں، رواں دواں چشموں، وسیع ترین گلیشیروں اوردرجنوں چھوٹے بڑے دریاؤں کی قدرتی دولت سے مالا مال گلگت سردیوں میں چوبیس گھنٹوں میں بیس سے بایئس گھنٹے بجلی سے محروم رہتا ہے۔معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ سردیوں میں ندی نالوں میں پانی کم ہو جانے کی وجہ سے بجلی کم بنتی ہے۔ آبادی بہت زیادہ ہو چکی ہے اور گذشتہ بیس برس سے کوئی نیا پن بجلی گھر نہیں لگایا گیا۔(2016-17 میں چین کی مدد سے نلتر کے علاقے میں سولہ اور اٹھارہ میگا واٹ کے دو بجلی گھر تعمیر کئے گئے ہیں۔جن سے بجلی کی پیداوار شروع ہوچکی ہے اور گلگت میں صورت حال خاصی بدل چکی ہے لیکن سردیوں میں اور سیلاب کے دنوں میں مسئلہ بہرحال اپنی جگہ رہتا ہے)

دوسرا تلخ تجربہ یہ ہوا کہ گلگت میں درجن بھر مقامی روزنامے شائع ہوتے ہیں۔ ان اخبارات نے کارٹل بنا کر پاکستان کے دیگر علاقوں میں چھپنے والے اخبارات کی گلگت آمد پر غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔ اب کسی کو کوئی اخبار پڑھنا ہو یا میری طرح روزانہ چار پانچ اخبارات پڑھنے کی عادت ہو تو اُس کے لئے گلگت میں رہنا ایک بہت بڑی سزا سے کم نہیں کیو نکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے انٹر نیٹ پر بھی مطلوبہ اخبار کھولنا اور پڑھنا ناممکن ہے، یہ اور بات ہے کہ بجلی آجانے پر آپ کے اعصاب کی ایک بہت بڑی آزمائش انٹر نیٹ کی سست رفتار کی صورت میں ہوتی ہے۔گلگت  بلتستان اور آزاد جموں کشمیر میں ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولیات سپیشل کیمونیکیشن آرگنائزیشن مہیا کرتی ہے۔

اس کے لائن مین سول ملازمین ہوتے ہیں۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پھرپی ٹی سی ایل کیا بری تھی؟ انٹرنیٹ کے ڈی ایس ایل کنکشن کے نرخ پاکستان کے دیگر علاقوں سے تین گنا زیادہ ہیں۔ چونکہ گلگت آنے والی فائبر آپٹک لائن مظفر آباد سے ہوکر آرہی ہے اس لئے اس میں روزانہ کی بنیاد پر پیدا ہونے والے نقائص کا سدباب کرنا ایس سی او کے بس سے باہر ہے۔

ریڈیوپاکستان گلگت کی نشریات روزانہ دوپہر دو بجے سے شب دس بجے تک ہوتی ہیں۔ اردو کے علاوہ یہاں سے شینا، بروشسکی، کھوار اور واخی زبانوں میں پروگرام اور خبریں نشر کی جاتی ہیں۔ مجھے خورشید احمد خان، ڈاکٹر شیر دل خان، محمد اسماعیل اور واجد علی، چار اسسٹنٹ پرڈیوسرز کی خدمات میسر تھیں۔    ( 2015 ء میں یہ چاروں پروگرام پروڈیوسر اور 2019 ء میں سینئر پروڈیوسر کے عہدوں پرترقی پا گئے)پروگراموں میں کوئی نیا پن نہیں تھا۔

گھسے پٹے موضوعات ، تھکی ہوئی آوازیں،مسودہ لکھنے اور نشر کرنے سے پہلے منظور کرانے کا سلسلہ متروک ہو چکا تھا۔ پروگراموں میں ڈرامہ، مشاعرہ، واکس پاپ،انٹرویوز شامل نہیں ہوتے تھے اس کے علاوہ بچوں اور طلبہ جیسے خصوصی سامعین کے لئے کوئی پروگرام نہ تھا۔حالاںکہ یہاں قراقرم یونیورسٹی گذشتہ چھ برس سے قائم تھی۔جس میں ہزاروں طلبہ وطالبات زیر تعلیم تھے۔ پروگرام چلتا پھرتا مائیکرو فون کے نام سے تو وہ واقف تھے لیکن کبھی کیا نہیں تھا ۔اسی طرح سے ’’ ریڈیومیلہ ‘‘کرنے کا بھی کوئی رواج نہ تھا۔ مجھے یہ سب کچھ نئے سرے سے کرنا تھا۔

چونکہ گلگت میں بجلی کا بحران نہایت ہی شدید تھا اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے گلگت کو بجلی سپلائی کرنے والے نظام کا جائزہ لیا جائے اور اس کے بارے میں تحقیقاتی پروگرام تیار کیا جائے۔ گلگت شہر کو بجلی فراہم کرنے کا نظام کارگاہ نالہ پر بنے ہوئے سات پن بجلی گھروں سے منسلک ہے۔ کارگاہ نالہ اصل میں تین الگ الگ نالوں کی ایک ہی گذرگاہ کا نام ہے۔کارگہ نالہ گلگت شہرکے قریب ترین اور خوبصورت سیر گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس کا یخ بستہ سفید جھاگ اُڑاتا پانی جس زور و شورسے بہتا ہے اُسے دیکھ کر کمزور دل والے ایک بار تو دہل جاتے ہیں۔ یہ نالہ دوپہاڑوں کے درمیان ایک قدرتی درے میں بہتا ہے۔  ایک طرف ٹوٹی پھوٹی پگڈنڈی نما سڑک ہے اور دوسری طرف پہاڑ،یہ اور بات ہے کہ سڑک بھی پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں گھنے جنگل ہوا کرتے تھے۔اب چھدری ہوئی جھاڑیاںاور کہیں کہیں بلند و بالا درخت ہیں۔ایک وقت تھا کہ یہاں مارخور،آئی بیکس،اُڑیال اور مارکوپولوشیپ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ریوڑوں کی صورت گھومتے تھے۔اب یہاں ان کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔کارگاہ نالے کی روانی ایک خاصے کی چیز ہے۔کیونکہ چھ سات کلو میٹر اوپرسے دریائے گلگت میں شامل ہونے تک کا نالے کا راستہ بہت نشیبی ہے۔

اسی اترائی کے پیش نظر جہاں کہیں کھلی جگہ میسر ہے وہاں پن بجلی گھر بنائے گئے ہیں۔ یہ پن بجلی گھر کم و بیش تیس سے پینتیس برس پہلے تعمیر کئے گئے تھے۔نصف سے لے کر چار میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے یہ بجلی گھر صوبائی محکمہ پانی و بجلی کے زیر انتظام ہیں۔کارگہ کی طرف جاتے ہوئے گلگت شہر سے کچھ ہی فاصلے پر بسین گاؤں ہے جہاں پولیس کا ایک تھانہ موجود ہے اور رینجرز کی ایک چوکی بھی قائم ہے۔ میں نے رینجرز کے جوانوں سے بات کرنے کے لئے گاڑی رکوائی۔اُن کا کہنا تھا کہ شرپسند عناصر پر نظر رکھنے کے لئے گلگت شہر کے ہر قابل ذکر مقام کے ساتھ ساتھ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر رینجرز تعینات ہیں۔وہ باقاعدگی سے ریڈیوپاکستان گلگت کی میڈیم ویو نشریات اور ایک نجی ایف ایم چینل کی نشریات سنتے ہیں۔ کارگہ نالے کی طرف مڑنے والی ایک تنگ سی پگڈنڈی نما سڑک کے ساتھ ہی ایک چٹان پر گوتم بدھ کا ایک نقش کھدا ہوا ہے۔

شاہی قلعہ لاہور میں تعینات محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹر محمد افضل خان کے مطابق پورے گلگت  بلتستان اور صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع کوہستان میں بدھ مت دور کی اس طرح کی نشانیوں ، تصاویر، بتوں اور نقش و نگارکی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے۔بدھا کا یہ نقش تیس چالیس فٹ اونچی چٹان پر کس طرح سے کھودا گیا ہوگا۔یہ تو تاریخ دان ہی بتا سکیں گے بہرحال آثارقدیمہ کو محفوظ کرنے اور انہیں سیاحتی دلچسپی کے لئے استعمال کرنے میں ہم پاکستانی دنیا بھر کے مقابلے میں پھسڈی ہیں۔

یہ سڑک کارگہ نالہ کے ساتھ ساتھ اوپر کی طرف بڑھتی ہے۔اس نالے میں بلکہ پورے گلگت  بلتستان میں 2010 ء میں شدید سیلاب آیا تھا جس کے اثرات کا اندازہ پانچ برس گذر جانے کے باوجود سر بسجود بجلی کے کھمبوں اور سیلاب کی وجہ سے اُدھڑی ہوئی سڑک کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے نالے کی سیلابی کیفیت آشکار ہوتی گئی۔پختہ سڑک کئی مقامات سے گرمیوں کے موسم میں آنے والی طغیانی کی وجہ سے نالہ برد ہو چکی تھی۔

بجلی کے کھمبے سجدہ ریز تھے جبکہ گاڑی کو وہ جھٹکے لگ رہے تھے کہ اچھی بھلی پجیرو جیپ میں بیٹھے ہوئے بھی ہمارے انجر پنجر بُری طرح ہل رہے تھے۔ یاد رہے کہ حکومت نے اس طرح کی قدرتی آفات کے نقصانات کے ازالے کے لئے کروڑوں روپے کے فنڈز مختص کئے ہوتے ہیں۔ جانے وہ کہاں اور کن کن پیٹوں کی نذر ہوئے، بہر حال کچھ اوپر گئے تو کارگہ نالہ پر بنا ہوا پہلا پن بجلی گھر آگیا۔اس کے سامنے محکمہ ماہی پروری کا آزمائشی مچھلی فارم تھا۔ پہلے بجلی گھر  کے اندر گئے تو وہاں دو افراد توے جیسی آہنی چادر پر بجلی کے چھ راڈ جلائے خود کو گرم کر رہے تھے۔

ان میں سے ایک نے فوراً باہر نکل کر موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔ معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ وہ صاحب فورمین تھے۔چوکیدار کا کہنا تھا کہ بجلی گھر خراب ہے اس لئے بجلی بن ہی نہیں رہی۔ اندر جھانکا تو زنگ آلود مشینری اُدھڑی ہوئی حالت میں ہمارا منہ چڑا رہی تھی۔ 800کلو واٹ گنجائش رکھنے والا یہ بجلی گھر 1988 ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں آنے والے ضعف کا علاج نہ کیا گیا اور اب عملہ تنخواہ وصول کرنے اور رہی سہی بجلی پر خود کو گرم رکھنے کے لئے آتا ہے۔ اس میں نصب دو مشینوں میں سے ایک خراب تھی اور دوسری بھی اپنی آدھی طاقت سے کام کر رہی تھی کیونکہ اس میں پانی کے آنے اور بجلی بنانے کے بعد اس کی نکاسی کا سارا نظام بیٹھ چکا تھا۔ رستا ہوا پانی سارے فرش پر پھیلا تھا۔ اس میں کام پر متعین لائن مین یا الیکٹریشن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر یہ مشین چلا رہے ہیں۔ اور گیلے فرش کو دیکھتے ہوئے اُس کی یہ بات غلط بھی نہ تھی۔

یہ اور بات ہے کہ آٹھ سو کلو واٹ بجلی پیدا کرنے والے اس بجلی گھر میں ملازمین کے کمرے میں آہنی توے جیسا جو خودساختہ ہیٹر لگا ہوا تھا۔اُ س پر نصب راڈ ز کی تعداد دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہ تھا کہ یہاں پیدا ہونے والی بجلی کا چوتھائی حصہ تو  یہیں ان ملازمین کو گرم رکھنے اور ان کی چائے کھانا پکانے میں خرچ ہو رہا ہے۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ مشینیں عرصہ دراز سے اسی کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔انہیں ٹھیک کرانے یا انہیں تبدیل کرنے کے لئے آنے والے فنڈز متعلقہ حکام کے اوپر کے اخراجات میں صرف ہو جاتے ہیں ۔ اس بجلی گھر کے سامنے ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش نسل کا ایک سرکاری فارم تھا۔ اس کے اندر گئے تو جلال خان نامی ایک بوڑھے چوکیدار سے ملاقات ہوئی۔ تالابوں میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف جسامت کی ٹراؤٹ مچھلیاں تیر رہی تھیں۔جلال خان نے بتایا کہ ٹراؤٹ مچھلیاں ناران سے یہاں لائی گئی ہیں جبکہ ایک اور تالاب میں کارگہ نالے سے پکڑی جانے والی مچھلیوں کو افزائش کے لئے رکھا گیا تھا۔

مارچ میں یہ مچھلیاں فروخت کے لئے تیار ہوجا تی ہیں۔ اور ان کی قیمت ایک ہزار روپے فی کلو گرام ہے۔چونکہ میں ست پارہ جھیل سے خود ٹراؤٹ شکار کر کے لطف اندوز ہو چکا تھا اس لئے جلال بابا کو بتایا کہ مجھے ایک ہزار روپے کلو مچھلی کھانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ اس ٹراؤٹ فارم اور اس سے منسلک ہیچری کے بارے میں پروگرام ریکارڈ کرنے کے بعد ہم وہاں سے نکل کر اگلے بجلی گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ جس کی پیداواری گنجائش 1250کلو واٹ یا سوا میگا واٹ تھی۔دو کلو میٹر کے فاصلے پر بنے ہوئے اس بجلی گھر کی حالت زار پہلے والے سے چنداں مختلف نہ تھی۔ ان پن بجلی گھروں کو مہیا کرنے کے لئے پانی کی جو گذرگاہیں تعمیر کی گئی تھیں۔

اُن میں سے جگہ جگہ پانی رس رہا تھا۔ اگر اس پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے تو بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ سڑک کی حالت بہت ہی خراب تھی اس قدر خراب کہ مجھے خدشہ ہونے لگا کہ کہیں ریڈیو پاکستان گلگت کی  فور وھیل جیپ بھی جواب نہ دے جائے کیونکہ وہ کافی معمر ہوچکی ہے۔1985 ء ماڈل کی پجارو گاڑی کا رواں دواں رہنا ہی بہت بڑی بات تھی۔ خیر کچھ آگے بڑھے تو کارگاہ نالہ کا سب سے بڑا پن بجلی گھر نمبر چھ آگیا۔ جس کی پیداواری صلاحیت چار میگا واٹ تھی۔ 2010 ء میں آنے والا سیلاب اس بجلی گھر کی دیواروں کو توڑ کر اندر آگیا تھا اور ایک ایک میگا واٹ کی جرمنی ساخت کی چار مشینوں میں سے تین سیلاب کے پانچ برس گذر جانے کے باوجود مرمت طلب حالت میں پڑی تھیں۔یہاں کام کرنے والے ملازمین چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر رہنے کے بعد تین دن چھٹی پر رہتے ہیں، اور پھر رات دن ڈیوٹی کے لئے آجاتے ہیں۔ ہر شفٹ میں کام کرنے والوں کے برتن، بستر اور دیگر سامان دوسری شفٹ والوں سے الگ ہیں۔

پچیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ پانے والے ان ملازمین کی سخت کوشی کی داد دینا پڑتی ہے کہ شدید سرد موسم میں برف باری ہو یا تیز ہوا چل رہی ہو۔ یہ اپنی ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں۔یہاں ریکارڈنگ کرنے کے بعد میں نے سڑک بلکہ اس پگڈنڈی کی حالت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ مزید آگے جا کر کارگہ نالہ کے دیگر پن بجلی گھروں کو دیکھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ چار بجلی گھروں کی حالت یہ بتانے کے لئے کافی تھی کہ گلگت شہر ہر سال ستمبر سے اپریل تک روزانہ بائیس گھنٹے بجلی سے محروم کیوں رہتا ہے؟

(جاری ہے)

The post پہاڑ چاروں جانب یوں سر اُٹھائے کھڑے ہیں جیسے شہر کا محاصرہ کر رکھا ہو appeared first on ایکسپریس اردو.

ہزاروں افراد کا کنٹرول لائن کی طرف مارچ تیسرے روز بھی جاری

$
0
0

 مظفر آباد: جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے آزادی مارچ میں شامل ہزاروں افراد گڑھی دوپٹہ سے چکوٹھی کی طرف مارچ کررہے ہیں۔

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے تحت لائن آف کنٹرول کی جانب مارچ تیسرے روز بھی جاری ہے، مارچ میں شامل ہزاروں افراد گزشتہ روز گڑھی دوپٹہ پہنچے تھے جہاں سےان کی منزل چکوٹھی ہے۔ مارچ میں شامل شرکا نے کشمیر کی آزادی کے حق میں بینرز ، کشمیر کا پرچم، جے کے ایل ایف کے رہنماؤں امان اللہ خان اور یاسین ملک کی تصاویر اٹھارکھی ہیں۔

مارچ کے شرکا کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیرمیں محصور اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، کنٹرول لائن کشمیریوں کے لئے نہیں، ہمارے لئے یہ سیز فائر لائن ہے، اقوام متحدہ ہمیں سیز فائر لائن عبور کرنے کی اجازت دیتی ہے، اقوام متحدہ فوجی مبصرین کی تعیناتی کا مقصد جنگ بندی کی خلاف ورزی کو مانیٹر کرنا ہے۔

واضح رہے کہ مارچ میں شریک افراد نے 4 اکتوبر کو آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں سے موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کے ذریعے ایل او سی کی جانب سفر کا آغاز کیا تھا اور جمعے کی شب ان کا پہلا پڑاؤ مظفر آباد تھا جس کے بعد ان کی دوسری منزل گڑھی دوپٹہ تھی جہاں سے انہوں نے آج دوبارہ سفر شروع کیا ہے۔

The post ہزاروں افراد کا کنٹرول لائن کی طرف مارچ تیسرے روز بھی جاری appeared first on ایکسپریس اردو.

سعودی عرب جیسے اختیارات لینے کی خواہش نہیں، چیئرمین نیب 

$
0
0

اسلام آباد: چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نیب کی خواہش نہیں کہ سعودی عرب جیسے اختیارات دئیے جائیں۔

اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ نیب مادرپدر آزاد نہیں، نیب کے امیج کو بہتر بنانے کی دیانتداری سے کوشش کی، نیب وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کررہا ہے، ملکی پالیساں بنانے میں نیب کا کوئی کردار نہیں البتہ بیروزگاری کا خاتمہ صرف حکومت کا کام نہیں ہے تاہم کوئی شخص یا ادارہ عقل قل نہیں، ادارے ہوں یا انسان خامیاں سب میں ہوتی ہیں۔

چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ پاکستان آزاد ملک ہے آئین اور قانون کی حکمرانی ہے، کسی بھی ملک کے زوال میں بدعنوانی اہم کردار ادا کرتا ہے، قائداعظم نے کہا تھا بدعنوانی اور اقرباپروری پاکستان کے دوبڑے مسئلے ہیں جب کہ معیشت ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے، نجی سیکٹر کردار ادا کرے تو ملکی معیشت بہتر ہوسکتی ہے، معیشت مضبوط ہونے تک ملک اور اس کا دفاع مضبوط نہیں ہوسکتا۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ آرمی چیف اور وزیراعظم کے سامنے رکھے گئے تحفظات پر بات کرنا چاہوں گا، نیب ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جس سے بزنس کمیونٹی کا مورال نیچا ہو، ہر ایک کی عزت نفس کا خیال ہے، بلا جواز تنقید کا جواب دینا ضروری ہے، نیب سے متعلق تاجروں کے کچھ تحفظات بلاجواز ہیں، تاجر برادری کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں۔

چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ نیب آج کے بعد ٹیکس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا،  ٹیکس سے متعلق تمام ریفرنس واپس لینے کا فیصلہ کرلیا ہے، بزنس مین کو نیب کی جانب سے نوٹس بھیجا جائے گا، بینک ڈیفالٹ کے معاملات نیب نہیں دیکھے گا، متلعقہ بنک کی جانب سے درخواست کے بغیر نیب بینک ڈیفالٹ کیسز نہیں لے گا، کوئی نیب افسر کسی بھی بزنس مین کو ٹیلی فون کال نہیں کرے گا۔

 

The post سعودی عرب جیسے اختیارات لینے کی خواہش نہیں، چیئرمین نیب  appeared first on ایکسپریس اردو.

آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے

$
0
0

میر پور: آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں اتوار کی علی الصبح زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق آزاد کشمیر کے علاقے بھمبر اور میرپور میں 24 ستمبر کو آنے والے زلزلے کے بعد آفٹر شاکس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اتوار کی علی الصبح ایک مرتبہ پھر مختلف علاقے زلزلے کے جھٹکوں‌ سے لرز اٹھے جس سے شہریوں میں خوف ہراس پھیل گیا۔ خالق آباد میں مکان زمین بوس ہونے سے ایک شخص جاں بحق جب کہ 2 زخمی ہوگئے ،زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

قومی زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلہ صبح 5 بج کر 36 منٹ پرآیا، جس کا مرکز جہلم سے 15 کلومیٹرمغرب کی طرف تھا،زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر3.8 ریکارڈ کی گئی۔

The post آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے appeared first on ایکسپریس اردو.

پشاور میں غیرت کے نام پر لڑکا اور لڑکی قتل کر دئے گئے

$
0
0

پشاور: پشاور میں تھانہ چمکنی کے علاقہ جھگڑا میں غیرت کے نام نوجوان اور لڑکی کو قتل کر دیا گیا جبکہ دونوں کی لاشیں دریائے باڑہ میں پھینک دی گئیں۔

تھانہ چمکنی کی حدود میں دریائے باڑہ علاقہ جھگڑا سے ایک لڑکے اور ایک جوان العمر لڑکی کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا ہے، لڑکے کی شناخت جواد ولد فاروق سکنہ خالق آباد چمکنی کے نام سے ہوئی ہے۔

پولیس نے دونوں لاشوں کو پوسٹ مارٹم رپورٹ کے لئے اسپتال منتقل کر دیا ہے، پولیس نے مقتول جواد کے لواحقین کو اطلاع دے دی ہے جس کے بعد صورتحال مزید واضح ہو جائے گی۔

The post پشاور میں غیرت کے نام پر لڑکا اور لڑکی قتل کر دئے گئے appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 49478 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>