Quantcast
Channel: The Express News
Viewing all 46652 articles
Browse latest View live

رانا ثنا کیس؛ کبھی نہیں کہا ویڈیو موجود ہے فوٹیجز کی بات کی،شہریار آفریدی

$
0
0

اسلام آباد: وزیرمملکت شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ آج کل ضمانتوں کا موسم ہے، ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں جس پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی۔ 

اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہریارآفریدی کا کہنا تھا کہ رانا ثنااللہ کے معاملے پر ایسا تاثر دیا گیا سب کچھ ختم ہوگیا لیکن ایسا نہیں ہے، رانا ثنااللہ کو بری نہیں کیا گیا بلکہ انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا ہے، ان کے خلاف کیس ختم نہیں ہوا اور وہ اب بھی ملزم ہیں، کیس میں کبھی نہیں کہا کہ ویڈیو موجود ہے بلکہ فوٹیجز کی بات کی، آج کل ضمانتوں کا موسم ہے، ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں جس پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی۔

وزیرمملکت نے کہا کہ میں کسی کام کے سلسلے میں ملک سے باہر تھا لیکن تاثر ایسا دیا گیا کہ میں ڈر گیا اور میڈیا سے بھاگ رہا ہوں، میری اور وزیراعظم کی کسی سے ذاتی رنجش نہیں ہے، ہم نے رانا ثنااللہ کے کیس میں کسی قسم کی مداخلت کی، کیس لٹکانے کے لیے تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں شہریار آفریدی نے کہا کہ رانا ثنااللہ کیس کو میڈیا ٹرائل نہ بنایا جائے، کیس سے جڑے تمام ثبوت عدالت کو فراہم کرچکا ہوں لیکن فیصلہ کرنا میرا کام نہیں، ثبوتوں کے بنیاد پر فیصلہ عدالتوں نے دینا ہے اور تفصیلی فیصلہ آنے پر ہم تمام آپشن استعمال کرتے ہوئے کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

وزیرمملکت کا کہنا تھا کہ رانا ثنا اللہ کی ضمانت کے عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں، ضمانت سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے اور ہم مافیاز کے خلاف کھڑے ہیں۔

The post رانا ثنا کیس؛ کبھی نہیں کہا ویڈیو موجود ہے فوٹیجز کی بات کی،شہریار آفریدی appeared first on ایکسپریس اردو.


بلاول اگر بچہ ہے تو بچ کر کھیلے، شیخ رشید

$
0
0

 اسلام آباد: وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ بلاول اگر بچہ ہے تو بچ کر کھیلے جب کہ عمران خان احتساب خان ہے سب کا احتساب کرے گا۔

راولپنڈی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا کہ قائداعظم امن کے پیامبر تھے، آج ہندوستان میں شہریت بل کوچیلنج کر دیا گیا ہے، آج بھارت کا تمام مسلمان پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے، بھارت کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے، بھارت نے میزائل بھی لگا دیے ہیں، پورا بھارت مودی کے خلاف اور آزادی کے لیے باہر نکل آیا ہے۔

شیخ رشید نے کہا کہ پیپلز پارٹی ملک بھر سے کارکن لائے ان کے پاس بہت حرام کا مال ہے، جیالے 10 دن کا خرچہ لے کر راولپنڈی آئیں، راولپنڈی اہم شہر ہے، ایک طرف جی ایچ کیو دوسری طرف وفاقی دارالحکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلاول نے نیب کو خط لکھا مجھے پکڑا تو میں زیادہ خطرناک بن جاؤں گا، بلاول کہتا ہے میں بچہ تھا جب میں ڈائریکٹر تھا، اگر بچے ہو تو بچ کر کھیلو جب کہ کان کھول کر سن لو میں لاڑکانہ جلسہ کرنے جارہا ہوں۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ عمران خان احتساب خان ہے سب کا احتساب کرے گا، احتساب نہ ہوا تو جمہوریت نا مکمل رہے گی، یہ اپنی دولت بچانے کے لیے چیخ رہے ہیں اور عمران خان لوٹی ہوئی دولت واپس لینا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان حالات پر قابو پالے گا جب کہ عمران خان کہیں نہیں جارہا بلکہ اپوزیشن کی سیاست ختم ہورہی ہے۔

وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں ہمیں تمام تلخ فیصلے منظور ہیں، عدلیہ ختم ہو تو جنگل کا قانون آ جاتا ہے جب کہ دنیا کے کسی نظام میں لاش کو لٹکایا نہیں جاتا۔ انہوں نے کہا کہ متفقہ فیصلہ تھا کہ مریم نواز کو باہر نہیں جانے دینا، 6  ماہ پہلے کہا تھا شریفوں کو جانے دو اس وقت میری باتوں کو پسند نہیں کیاگیا، نوازشریف کی پلیٹ لیٹس یہاں ہی اوپر نیچے ہورہے تھے لندن میں جاکر ٹھیک ہوگئے ہیں۔

The post بلاول اگر بچہ ہے تو بچ کر کھیلے، شیخ رشید appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان میں مہاجر پرندوں کی اقسام اور تعداد سے متعلق سروے شروع

$
0
0

 لاہور: ملک بھر میں موسم سرما کے دوران آنے والے مہاجر پرندوں کی اقسام اور تعداد سے متعلق ریکارڈ مرتبت کرنے کے لیے سروے شروع ہوگیا ہے۔

پاکستان میں 19 آبی گزرگاہیں، جھیلیں اوربیراج رامسر سائٹس میں شامل ہیں۔ 2013 کی فہرست کے مطابق پنجاب میں چشمہ بیراج، تونسہ بیراج اور اچھالی جھیل بین الاقوامی سائٹس ہیں جہاں ہرسال سردیوں میں لاکھوں مہاجر پرندے آتے ہیں۔ 1971 میں ایران کے شہر رامسر میں طے پانے والے معاہدے کے تحت کنونش میں شامل ممالک ہر سال سردیوں کے وسط میں اپنی آبی سائٹس کا سروے کرکے آبی پرندوں کی اقسام اور تعداد سے متعلق سروے رپورٹس تیار کرتے ہیں۔

پنجاب میں وائلڈ لائف سروے ڈیپارٹمنٹ اور زولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کی ٹیمیں یہ سروے کررہی ہیں۔ وائلڈ لائف سروے ڈیپارٹمنٹ کے حکام کے مطابق رامسر میں شامل سائٹس کے علاوہ دیگر آبی گزرگاہوں، جھیلوں، بیراج اور ڈیموں کا بھی سروے کیا جائے گا تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ پنجاب میں ہرسال مہاجر آبی پرندوں کی تعداد کم ہورہی ہے یا اس میں اضافہ ہوا ہے اس کے علاوہ اس بات کا بھی جائزہ لیاجاتا ہے کہ کون سی اقسام کے مہاجر آبی پرندے یہاں آتے ہیں۔

پنجاب میں چشمہ بیراج، جناح بیراج، نمل جھیل، تونسہ بیراج، اچھالی چھیل، کابی کی جھیل، جھالرجھیل، کلرکہار جھیل، ہیڈ قادرآباد، ہیڈرسول اور ہیڈمرالہ مہاجر آبی پرندوں کی اہم پناہ گاہیں ہیں جہاں ہرسال لاکھوں پرندے آتے ہیں اور ان کا شکار بھی کیا جاتا ہے۔
ڈائر وائلڈ لائف پنجاب محمد نعیم بھٹی نے بتایا کہ پنجاب میں واٹر فاؤلز کی 30 سے 35 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں مرغابیاں اور کرینز وغیرہ شامل ہیں۔ پنجاب میں صرف 3 مقامات رامسرکنونشن میں شامل ہیں تاہم سب سے زیادہ رامسر سائٹس سندھ میں ہیں۔

The post پاکستان میں مہاجر پرندوں کی اقسام اور تعداد سے متعلق سروے شروع appeared first on ایکسپریس اردو.

دوقومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کی تخلیق ایک حقیقت ہے، آرمی چیف

$
0
0

کراچی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کی تخلیق ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے ۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے یوم ولادت کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزار قائد پر حاضری دی۔ اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ نے کہا کہ قائداعظم کا وژن ملک کوآگے لے جانے کے لیے ہماری رہنمائی کرتا رہے گا جب کہ مشکل ترین دور کے باوجود پاکستان کی تمام اقلیتیں متحد ہیں۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کی تخلیق کا وژن تسلیم شدہ حقیقت ہے، قائداعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان بنایا، پاکستان بنانے کے لیے قائداعظم کا جتنا شکریہ ادا کریں کم ہیں، قائد کے اتحاد،ایمان اور تنظیم کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر پاکستان کو آگے لے جائیں گے۔

 

The post دوقومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کی تخلیق ایک حقیقت ہے، آرمی چیف appeared first on ایکسپریس اردو.

بلوچستان حکومت کا کوئٹہ سے زیارت روڈ دو رویہ کرنے کا فیصلہ

$
0
0

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نے کوئٹہ سے زیارت تک سڑک کو دو رویہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق زیارت میں قبائلی عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے اعلان کیا کہ کوئٹہ سے زیارت تک روڈ کو دو رویہ کیا جائے گا، جب کہ زیارت میں ایل پی جی پلانٹ کی تنصیب کے لئے وفاق سے رابطہ کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ملک اور بالخصوص بلوچستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خزانوں سے نوازا ہے، اس ملک میں قدرتی حسین مناظر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، ہم صوبے میں سیاحت کو فروغ دے کر مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کریں گے۔

 

The post بلوچستان حکومت کا کوئٹہ سے زیارت روڈ دو رویہ کرنے کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمارا مقصد بدعنوان عناصر اور مفرور ملزمان کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے، چیئرمین نیب

$
0
0

 اسلام آباد: چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نیب نے ایک منزل کا تعین کیا ہے جس کا مقصد بدعنوان عناصر، اشتہاری اور مفرور ملزمان کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نیب ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے فیس نہیں بلکہ کیس دیکھنے اور احتساب سب کے لئے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے، نیب نے ایک منزل کا تعین کیا ہے جس کا مقصد بدعنوان عناصر اشتہاری اور مفرور ملزمان کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب نے گزشتہ 27ماہ میں بدعنوان عناصر سے قوم کے 153 ارب روپے برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کرائے،630 ملزمان کو گرفتار کرنے کے علاوہ تقریباً 600 بدعنوانی کے ریفرنسز احتساب عدالتوں میں جمع کرائے، اس کے علاوہ نیب کے اس وقت 25 احتساب عدالتوں میں بدعنوانی کے 1261 ریفرنسز زیر سماعت ہیں۔

چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ نیب کا تعلق کسی سیاسی جماعت، گروہ اور فرد سے نہیں، ہمارا تعلق صرف اور صرف ریاست پاکستان سے ہے، نیب کا مقصد ملک و قوم کی لوٹی گئی رقوم کی واپسی ہے۔

The post ہمارا مقصد بدعنوان عناصر اور مفرور ملزمان کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے، چیئرمین نیب appeared first on ایکسپریس اردو.

رانا ثنااللہ کے خلاف ویڈیو سمیت تمام شواہد موجود ہیں ، چیف پراسیکیوٹر اےاین ایف

$
0
0

 اسلام آباد: چیف پراسیکیوٹر  اےاین ایف راجہ انعام امین منہاس کا کہنا ہے کہ منشیات برآمدگی کیس کے تقاضے کے مطابق وڈیو سمیت تمام ثبوت و شواہد موجود ہیں، رانا ثنااللہ کے خلاف کیس کا فیصلہ یکطرفہ ہوگا۔

راولپنڈی اے این ایف ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیف پراسیکیوٹر اے این ایف راجہ انعام امین منہاس کا کہنا تھا کہ رانا ثناء اللہ منشیات کیس میں میڈیا پر ایک طرف کے بیانات سامنے آرہے ہیں، یہ تاثر دیا گیا کہ پراسیکیوشن اس میں تاخیر لارہی ہے، ہماری تحقیقاتی تاریخ سب کے سامنے ہے ہم نے تاخیر کے لیے کوئی درخواست نہیں دی، اے این ایف کی جانب سے تمام کام مکمل کیا گیا، کیس کے تقاضے کے مطابق وڈیو سمیت تمام ثبوت و شواہد موجود ہیں، رانا ثنااللہ کے خلاف کیس کا فیصلہ یکطرفہ ہوگا۔

پراسیکیوٹر اے این ایف نے  بتایا کہ منشیات برآمدگی کیس کی ایف آئی آر یکم جولائی 2019 کو درج ہوئی، ہم نے 23 جولائی کو چالان جمع کرادیا، جس کے تمام ثبوت عدالت میں پڑے ہوئے ہیں، چالان میں 15 کلوگرام برآمدگی ہیروئن، 15 گواہ، 3 گواہوں کے بیانات، کیمیکل ایگزیمینر کی رپورٹ اورموقعےکی فوٹیج کی سی ڈی بھی ساتھ لگی ہوئی ہے، برآمدگی کے گواہ اور رپورٹ یہ قانون شہادت ہے جو پراسیکیوشن نے پیش کرنا ہوتی ہے۔

پراسیکیوٹر اے این ایف نے کہا کہ سی این ایس ایکٹ کے مطابق 9 اے، بی اور سی کا کیس ثابت کرنے کی تمام قانونی کاروائی مکمل کی، اس کے بعد دفاع سے پوچھا جاتا ہے کہ برآمدگی ہوئی ہے یا نہیں کس طرح ہوئی سب کچھ بتایا جاتا ہے، ضمانت کیلئےشواہدکوعدالت میں ڈسکس نہیں کیاجاتا۔

پراسیکیوٹر اے این ایف کا کہنا تھا کہ ملزمان نے ٹرائل کورٹ میں پہلی ضمانت 8 اگست 2019  فائل کی اور وہ منسوخ ہوگئی، ہم نے 9 اگست کو تمام کاپیاں ملزمان کو دے دی اس کے بعد چارج فریم ہونا تھا، ہم نے عدالت سے کہا آپ چارج فریم کریں اور کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کریں،  ڈے ٹو ڈے ہیرنگ کریں، پھر ملزمان کی درخواست 20 ستمبر کو منسوخ ہوئی، اور پھر یہ ہائی کورٹ چلے گئے، ہائی کورٹ میں 3 اکتوبر کو دفاع نے یہ ضمانت ودڈرا کرلی، پھر دوبارہ 5 نومبر 2019 کو ٹرائل کورٹ میں ضمانت لگائی وہ بھی منسوخ ہوگئی، 21 دسمبر سے پہلے ہڑتال چل رہی تھی اور اس کے بعد ملزمان نے ایک اور درخواست دے دی، سیکنڈ ہائی کورٹ میں دوبارہ فائل کی جس میں شارٹ آرڈر میں ضمانت دی گی۔

کا کہنا تھا کہ ملزمان کو صرف ایک گراونڈ پیرا فور کے تحت ضمانت ملی جو سیف سٹی کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی تھی، اس کیس کی اہمیت وڈیو فوٹیجز نہیں اس کیس کی اہمیت ملزم سے منشیات کی برآمدگی ہے، صرف وڈیو کو بنیاد بنا کر وہ کہہ رہے ہیں کیس کمزور ہے۔

The post رانا ثنااللہ کے خلاف ویڈیو سمیت تمام شواہد موجود ہیں ، چیف پراسیکیوٹر اےاین ایف appeared first on ایکسپریس اردو.

روس کا دنیا سے علیحدہ انٹرنیٹ بنانے کا کامیاب تجربہ

$
0
0

روس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے عالمی انٹرنیٹ کے متبادل انٹرنیٹ کا پورے ملک میں کامیاب تجربہ کرلیا ہے۔ اس تجربے کی تفصیلات میں ابہام موجود ہے تاہم روسی حکومت کے مطابق عام صارفین کو کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی، اب نتائج کو روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ان کی منظوری کے بعد اس کو باقاعدہ طور پر رائج کردیا جائے گا۔

کچھ ماہرین نے بعض ممالک کے انٹرنیٹ تک رسائی ختم کرنے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یونیورسٹی آف سرے کے کمپیوٹر سائنس دان پروفیسر ایلن ووڈ ورڈ کا کہنا ہے کہ روس کے اس سفر کا رخ حکومت کے انٹرنیٹ کو توڑنے کی طرف ایک قدم ہے جس پر پروفیسر ایلن نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ امریکا چین تجارتی جنگ انٹرنیٹ کو تقسیم کر رہی ہے۔ آمرانہ ممالک چاہتے ہیں کہ وہ شہریوں کی انٹرنیٹ تک رسائی کو کنٹرول کر سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقامی لوگ اس بارے میں معلومات تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے کہ ان کے ملک میں کیا چل رہا ہے۔ وہ اپنے آپ میں ہی مگن رہیں گے۔

ان اقدامات کا مقصد روس کا اپنے نیٹ ورک کو اپنے عالمی  حریف امریکا سے تعلق کو محدود کرنا ہے اور شہریوں کی انٹرنیٹ تک رسائی کو کنٹرول کرنا ہے ۔ واضح رہے دنیا کے ممالک زیرسمندر تاروں کے ذریعے بین الاقوامی نیٹ ورک سے سروسز وصول کرتے ہیں۔ جہاں سے دوسرے ممالک کے مواصلاتی نیٹ ورک پر اور دوسرے ممالک کو ڈیٹا منتقل کرنے کے لیے رابطے کے مقامات ہوتے ہیں۔ ایک ملک کے پاس جتنے زیادہ نیٹ ورک اور رابطے ہوں گے وہاں رسائی پر کنٹرول کرنا اتنا ہی مشکل ہو گا، اس لیے روس کو متبادل نظام بنانے کی ضرورت ہوئی۔

ایران میں نیشنل انفارمیشن نیٹ ورک ویب سروز تک رسائی دیتا ہے لیکن نیٹ ورک پر موجود تمام مواد کی نگرانی کی جاتی ہے اور بیرونی معلومات کو محدود رکھا جاتا ہے۔ اسے ایران کو سرکاری ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی چلاتی ہے۔ انٹرنیٹ رسائی کو حکومت کے زیرکنٹرول لانے کا فائدہ یہ ہے کہ ورچول پرائیویٹ نیٹ ورک کام نہیں کریں گے۔ اس کی ایک مثال چین کی گریٹ فائر وال ہے جو بین الاقوامی انٹرنیٹ سروسز تک رسائی بند کرتی ہے ۔

The post روس کا دنیا سے علیحدہ انٹرنیٹ بنانے کا کامیاب تجربہ appeared first on ایکسپریس اردو.


ارے ریفری کو ہی پیٹ ڈالا!

$
0
0

ارے یہ کیا کر دیا بھائی ،کچھ تو خیال کرتے ایسا تو نہیں ہوتا، یار ریفری کو ہی پیٹ ڈالا۔ یہ ذکر ہے چند دن قبل لاہور میں ہونے والے مکسڈ مارشل آرٹ کے گروپ میچ کا جس میں وکلاء ان لمیٹڈ اور ڈاکٹرز دی پینتھرزکی ٹیمیں مد مقابل تھیں۔

میچ کی جھلکیوں کی ویڈیوزکئی دن پہلے سے گردش میں تھیں اور جیسا کہ ان للکار سے بھرپور سوشل میڈیائی ویڈیوز سے ظاہر ہو رہا تھا ، میچ نہایت سنسنی خیز ثابت ہوا لیکن کچھ بھی کہا جائے، انصاف کی بات یہ ہے کہ انصاف اور تبدیلی کے اس زریں دورمیں انصافیوں یعنی وکلاء کا پلہ بھاری رہا اور ایسا بھاری رہا کہ افسوسناک طور پر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے قرب وجوار میں ہونے والا میچ پھیل کر اسپتال کے اندر جا پہنچا اورکہا جاتا ہے ،کچھ مریض بھی اس سارے ہنگامے میں جاں بحق ہوگئے، جوکہ واقعی اس واقعے کی افسوناک ترین بات ہے۔

یہ دل کا اسپتال تھا اور دل کے مریضوں کے لیے سب سے ضروری چیزوں میں سے ایک ہیجان ، خوف ، گھبراہٹ سے بچے رہنا اور سکون ہوتا ہے اسی لیے دنیا بھر میں دل کے اسپتالوں میں ماحول کو انتہائی پرسکون رکھا جاتا ہے اور مذکورہ واقعے کے دوران وہ تمام مریض اور ان کے تیمارداران اور جاں بحق ہونے والے مرحومین اور ان کے لواحقین کس اذیت اور پریشانی سے گزرے ہوں گے، اس کا اندازہ کوئی بھی درد مند دل رکھنے والا لگا سکتا ہے۔

ویسے ایسے دوگروہ یا طبقات جو معاشرے کے بظاہر پڑھے لکھے طبقے کی نمایندگی کے دعوے دار بنتے ہیں ان سے ایسی نادانیوں اور جہالت کی امید نہیں تھی۔ اب دیکھیں نا پورے منظر نامے پر غورکریں تو پہلے دونوں گروہوں کا ایک دوسرے کو بذریعہ ویڈیوز دھمکیاں دینا اور للکارنا اور پھر وکلا کی بہادر فوج کا سر فروشانہ انداز میں ڈاکٹرز کے قلعے پر دھاوا بولنا اور یلغار کے لیے آتے ہوئے پوری ویڈیو کو براہ راست سوشل میڈیا پر نشرکرنا اور پھر گھمسان کا رن پڑنا ، راستے بھر پولیس ، ایجنسیوں انتظامیہ کا میٹھی نیند سوتے رہنا اور میچ کے اختتام پر ہڑ بڑا کر ریفری کی پٹائی کے بعد کہیں جا کر جاگنا وغیرہ ، اب اس سارے جھنجھٹ اور جھنجھال سے بہترکیا یہ نہیں رہتا کہ جیسے پرانے زمانوں کی جنگوں میں ہوا کرتا تھا کہ ایک بہادر یہاں سے آتا اور ایک بہادر وہاں سے آتا ، دونوں فوجیں کھڑے ہو کر ان دلاوروں کی لڑائی دیکھا کیا کرتیں ، اور پھر چینلزکو بھی ایک اچھی فائٹ اپنے ناظرین کو براہ راست دکھانے کو مل جاتی اور یوں دو جنگجو آپس میں دلیرانہ مقابلہ کرتے اور جو جیتتا اس کا گروہ فاتح قرار دے دیا جاتا۔ اور بہتر ہوتا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے مبارک ہاتھوں سے فاتح کو ٹرافی اور باقی ٹیم کو میڈلز سے نوازتے تو یہ نوازنا کتنا زیادہ نوازنا ہو جاتا اور ہر طرف وزیر اعلیٰ کی واہ واہ ہو جاتی۔ کتنا اچھا ہوتا اگر یوں ہوتا اورکتنے فوائد بھی حاصل ہو جاتے، دیکھیں نا سب سے پہلے تو وہ بے چارے مریض جن کا اس مناقشے اور تنازعے سے لینا ایک نہ دینا دو ، والا تعلق تھا وہ خوامخواہ مصیبت میں آئے اور انھیں زبردستی میچ نہ صرف دیکھنا پڑا بلکہ چارو ناچار بھگتنا بھی پڑا۔

ایک اور فائدہ یہ ہوتا کہ پنجاب حکومت کے شیر دلیر انصافی وزیر صاحب کو جو رضاکارانہ طور پر ریفری کے فرائض انجام دینے کے لیے میچ کے دوران بن بلائے تشریف لائے تھے۔ خوامخواہ کی بدمزگی اور ہلکی پھلکی پٹائی کا سامنا کرنا پڑگیا حالانکہ وہ لاتوں کے بھوت بالکل بھی نہیں ہیں بلکہ باتوں کے کھلاڑی ہیں تو انھیں بھی صرف سنگل فائٹ کے دو جنگجوؤں کو سنبھالنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی ، بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ جتنے والے کو جوش میں آکر چیلنج بھی دے دیتے کہ بہت جوشیلے واقع ہوئے ہیں۔

چلیں خیر اب تو جو ہوا سو ہوا لیکن آیندہ کسی بھی اس طرح کے سنسنی خیز متوقع مقابلے میں امید ہے کہ یہ تجویز بھی ضرور زیر غور لائی جائے گی اور ہمارے وزیرِ با تدبیر صاحب کی اعلیٰ ظرفی دیکھیے کہ اس سارے واقعے کے بعد بھی ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے اور اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ میڈیا کو بتا رہے تھے کہ ارے کوئی نہیں ، سب اپنے بچے ہیں ، ہوتا رہتا ہے ، اور میں تو ریفری تھا بیچ بچاؤ کرنا چاہ رہا تھا اور یہ تو اسپورٹس مین اسپرٹ کے بالکل خلاف ہے کہ ریفری کو مارا پیٹا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا فرد اس بات سے کیسے انکار کرسکتا ہے جو وزیر صاحب نے فرمایا ! بلکہ عقل سیلم نہ رکھنے والا بھی کسی بھی وزیر کی بات سے کہاں انکار کیا کرتا ہے۔

پھر آپ ہمارے ٹیلنٹڈ وزیرِ اعلیٰ کی ذہانت اور شفقت ملاحظہ فرمائیں کہ انھوں نے واقعے کے دو تین گھنٹے بعد فورا نوٹس لیتے ہوئے جاں بحق ہونے والے بے گناہ مریضوں کے لیے کسی بھی قسم کے ازالے یا مدد کا اعلان نہیں کیا اور قوم کو خود داری کا درس دیا اور بہ زبانِ خاموشی یہ سمجھایا کہ ہم اور ہماری قوم تو جیسے اس قسم کے ہر واقعے کے بعد جو فورا سرکاری امداد کا انتظار کرنے لگتے ہیں ، یہ بہت بری بات ہے اور خود داری کے بالکل منافی ہے۔ پھر وکلاء حضرات کے قائدین نے تو ذہانت کی انتہا کرتے ہوئے اس سارے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرکے جو ڈاکٹروں کی مظلومیت کے نہلے پر دہلا مارا ہے وہ تو لاجواب ہے۔

یعنی خود ہی منصف اور خود ہی مدعی اور فیصلہ بھی خود ہی کا۔ لیکن ہم پر امید ہیں کہ ڈاکٹرز اور خصوصا ینگ ڈاکٹرز بھی بہت ذہین طبقہ اور گروہ ہوتا ہے ،کیونکہ اگر ذہین نہ ہوتے تو ڈاکٹری میں داخلہ کیسے لے پاتے کہ اب ہر جگہ تو چاچا ، ماما اور دادا گیری نہیں چلتی اور ہمارے میڈیکل کالجز میں تو جتنی میرٹ کی پیروی کی جاتی ہے ، وہ اظہر من الشمس ہے۔ تو یہ ذہین ، نوجوان پرجوش اور متحرک ڈاکٹر لوگ اس جوڈیشل انکوائری والے وکلاء کے اس دہلے پر میڈیکل انکوائری اور ڈوپ ٹیسٹ کرانے کا ترپ کے اکے جیسا مطالبہ ضرور کریں گے اور اگر ایسا ہوا اور وکلاء کا ڈوپ ٹیسٹ اگر مثبت آگیا تو پھر میچ جیتنے کا کریڈٹ بجائے وکلاء کے معالجین کو دیے جانا ہر قسم کے کھیلوں کے بین الاقوامی اصولوں کے عین مطابق ہوگا۔

The post ارے ریفری کو ہی پیٹ ڈالا! appeared first on ایکسپریس اردو.

ہم نے طیب اردگان اور مہاتیر محمد کے ساتھ کیا ،کِیا

$
0
0

ملائیشین وزیرِاعظم جناب مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ کوالالمپور کانفرنس کا مقصد مسلم امہ کو درپیش بحرانوں، اور مسائل کو سمجھنا تھا۔کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں انھوں نے او آئی سی پر زور دیا کہ وہ دنیا میں مسلمانوں کا دفاع کرے ، ان کی رائے میں کوالالمپور کانفرنس کا مقصد مسلمانوں کی تفریق ہرگز نہیں۔ مسلمانوں کی حالتِ زار پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جدید دور میں مسلم ممالک تمام تر قیمتی وسائل اور بے پناہ دولت سے مالامال ہیں لیکن انھیں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔

یہ کانفرنس ان مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ ماضی میں اسلامی ریاستیں  ترقی اور تہذیب و تمدن کا مرکز رہی ہیں جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو دنیا بھر میںپھیلایا مگر آج کی دنیا میں مسلم امہ  رسوائی سے دوچار، علم و آگہی سے بے بہرہ، سائنس اور ٹیکنالوجی سے دور،انسانی تہذیب سے عاری اور دہشت گردی کاگڑھ سمجھی جاتی ہے۔ اچھا مستقبل بنانے کے لیے مسلم ممالک کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔

اس وقت اسلام کے بارے  میں دنیا کے منفی تاثرات اور بڑھتے اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے گورننس میں بنیادی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ابتدا کرنی ہو گی اور اگر یہ خیالات،تجاویز اور حل قابلِ قبول ہوں تو انھیں بڑے پلیٹ فارم کے اوپر غور کے لیے پیش کیا جانا چاہیے۔ اس کانفرنس کے ذریعے یہ موقع پیداہوا ہے کہ مسلمان اپنے مسائل پر کھُل کر بات کریں۔ بڑے بڑے مسائل میں اسلامو فوبیا،داخلی لڑائیاں،فرقہ وارانہ اور نسلی امتیاز شامل ہیںجو مسلم امہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

5اگست کو بھارت نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مقبوضہ ریاستِ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور اس سے چند روز پہلے ہی ایسے ظالمانہ اور وحشیانہ اقدامات شروع کر دیے جن کی وجہ سے پوری مقبوضہ وادی ایک بڑے ڈیٹنشن سینٹر میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔ستمبر اکتوبر کے اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے وزیرِ اعظم جناب عمران خان روانہ ہوئے تو راستے میں  سعودی عرب رکے۔ وہاں سے نیویارک کی اُڑان بھرنے سے پہلے انھوں نے مسلمان ممالک کا خاص طور پر گلہ کیا کہ انھیں مسلمانانِ کشمیر کی مشکلات اور تکالیف سے کوئی سروکار نہیں۔

اقوامِ متحدہ میں وزیرِاعظم پاکستان نے ایک جاندار تقریر کی۔ جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران سائڈ لائن پر ترک صدر جناب طیب اردوان،جنابِ وزیرِ اعظم پاکستان اور ملائیشیا کے وزیرِ اعظم جناب مہاتیر محمد کی ایک ملاقات ہوئی جس میں  عمران خان نے کشمیر پر مسلمان ممالک کی بے حسی کا تذکرہ کیا۔ترک صدر اور ملائیشین پی ایم نے عمران خان کی تقریر اور خیالات کو سنجیدہ ہی لے لیا اور ملاقات میں طے پایا کہ بہت جلد مسلمان حکمرانون،لیڈروں، دانشوروں،سائنس دانوں اور علماء کی ایک کانفرنس بلا کر امہ کو درپیش مسائل کا بھرپور جائزہ لیا جائے، ٹرائی لیٹرل ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ ایک عالمی سطح کا ٹی وی چینل شروع کیا جائے جو مسلمان کاز کو فوکس میں رکھے۔

جناب مہاتیر محمد نے حامی بھر لی کہ وہ اس سلسلے میں پہلی کانفرنس کے لیے کوالا لمپور میں  میزبانی کریں گے۔ترک صدر،ایرانی صدر اور وزیرِ اعظم پاکستان نے شرکت کی تصدیق بھی کر دی۔یاد رہے کہ کشمیریوں کی موجودہ حالت زار اور بھارت کے بے رحمانہ جبرو استبداد کے خلاف جن چند مسلم ممالک نے پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی ان میں جناب طیب اردوان، جناب مہاتیر محمد اور ایران کے سپریم لیڈر جناب آیت اﷲ خامنہ ای ہی ہیں۔ دوسری طرف سعودیہ متحدہ عرب امارات، بحرین نے دھیما موقف اختیار کیے رکھا۔

مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ صدیوں سے غیر جمہوری حکمرانوں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں ۔کہیں بادشاہت تو کہیں ڈکٹیٹر شپ۔ پالیسی بنانے والے اگر عوام کی نمایندگی نہ کر رہے ہوں تو گراس روٹ لیول کے مسائل سے باخبر ہوتے ہیں اور نہ ہی عوامی امنگوں کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ایسے حکمرانوں کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنے  ملکی اور غیر ملکی آ قاؤں کے مفاد کا تحفظ کریں۔مسلمان ممالک میں صرف ایران، ترکی اور ملائیشیا میں جمہوریت ہے۔یہ جمہوریت ہی کا پھل ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سائڈ لائن پر ہونے والی ملاقات نتیجہ خیز ثابت ہوئی کیونکہ ترکی،ایران اور ملائیشیا کے حکمران اپنے ضمیر اورعوام کی آواز سن رہے تھے ان کو امریکا یا کوئی اور ملک ڈکٹیشن نہیں دے سکتا تھا۔

ہمارے لیے تمام مسلمان ممالک میں ترکی کی یہ اہمیت ہے کہ وہ پاکستان کا بے لوث ساتھی ہے۔ترک پاکستانیوں سے ملکر خوش ہو جاتے ہیں۔جناب طیب اردوان ایک منجھے ہوئے عالمی رہنما اور زیرک مسلمان سیاستدان ہیں۔ان کا یہ کہنا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو فلاں فلاں دھمکی دی ہے بہت سنجیدہ بات ہے۔سعودی سفارتخانہ اسلام آباد نے پاکستان پر دباؤ سے متعلق ترک صدر جناب طیب اردوان کا بیان مسترد کر دیا ہے۔سعودی سفارت خانے نے کوالالمپور سربراہی ملاقات میں پاکستان کی عدم شرکت پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ سعودیہ نے پاکستان کو کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے روکا اور نہ ہی کوئی دھمکی دی۔اس حوالے سے تمام خبریں جھوٹی اور بے بنیاد ہیں۔

مزید یہ کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں کہ جہاں دھمکیوں کی زبان میں بات ہوتی ہو۔یہ تعلقات بہت گہرے اور تزویراتی ہیں۔سعودی عرب دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ ادھر او آئی سی نے ملائیشیا کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس کی شدید مذمت کی ہے۔گلف نیوز نے سعودی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ کہ سیکریٹری جنرل او آئی سی نے کہا ہے کہ تنظیم کے علاوہ مسلم ممالک کا اجلاس یا سر براہ کانفرنس منعقد کرنا قابلِ قبول نہیں کیونکہ ایسا کرنا عالمی برادری کے سامنے مسلمانوں کو کمزور کرتا ہے۔کوالالمپور کانفرنس اجماع امت سے باہر نکلنے کی کوشش ہے جو مسلمانوں کے مفاد میں ہرگز نہیں۔

او آئی سی کے بیان سے واضح ہے کہ ملائیشین کانفرنس منظور نہیں۔جو بھی ان معاملات پر نظر رکھتا ہو وہ جانتا ہو گا کہ یہ تنظیم اپنی افادیت کھو چکی ہے ۔اس میں اب کوئی شبہ نہیں کہ جناب عمران خان نے خود شروعات کیں،کانفرنس میں شرکت کی تصدیق کی اور پھر سعودی اور عرب امارات کے دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔وہ نہ صرف خود نہیں گئے بلکہ پاکستان نے سفیر یا قونصلر کی سطح پر بھی شرکت نہیں کی یہ ایک طرح سے بائیکاٹ ہو گیا۔ وہ ممالک جو ہر گرم سرد میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے ان کو چھوڑ کر ہم نے حاصل کچھ نہیں کیا گنوایا بہت ہے۔آنے والے وقت میں کون ہمارا اعتبار کرے گا جب کہ بھارت کسی وقت مہم جوئی کر سکتاہے۔

The post ہم نے طیب اردگان اور مہاتیر محمد کے ساتھ کیا ،کِیا appeared first on ایکسپریس اردو.

عمران خان،اتحادِ اُمت اور شہزادہ فیصل کی آمد

$
0
0

دو واقعات اچانک سامنے نہیں آئے ہیں۔ ان کا ایک خاص پس منظر ہے۔ ایک تو یہ کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان صاحب نے کہا ہے کہ ’’اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کو واقعی معنوں میں اسلامی دُنیا کی متحدہ آواز بننا چاہیے۔‘‘ سعودی بادشاہ کو یہ بیان خاص طور پر اس لیے دینا پڑا ہے کہ اُمتِ اسلامیہ میں او آئی سی کے کردار کے بارے میں کئی گلے شکوے پیدا ہو رہے ہیں۔

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ سعودی وزیر خارجہ، شہزادہ فیصل بن فرحان السعود، ایک روزہ دَورے پر پاکستان آئے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل ملائیشیا میں منعقدہ سہ روزہ کانفرنس میں (سعودی عرب کی مبینہ ایما پر) پاکستان کی عدم شرکت کی وجہ سے پاکستان اور سعودیہ میں سفارتی سطح پر جو موڑ آیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ شہزادہ فیصل اس ’’موڑ‘‘ میں سعودی محبت اور اعتماد پیدا کرنے تشریف لائے ہیں۔ بھارتی میڈیا تو یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ ’’شہزادے کا یہ دَورہ دراصل Damage Control Exercise ہے۔‘‘

کوالالمپور سمٹ( ملائیشیا) میں عمران خان کی عدم شرکت سے خاص طور پر مہاتیر محمد اور طیب اردوان کو رنج پہنچا ہے۔ اس ناراضی کو محسوس بھی کیا گیا ہے۔ مہاتیر محمد تو مصلحتاً خاموش رہے ہیں ( کہ وہ اس منفرد سربراہی کانفرنس کے میزبان اور منتظم بھی تھے) لیکن ترک صدر طیب اردوان خاموش نہیں رہ سکے۔

سمٹ سے دو دن قبل ہنگامی طور پر وزیر اعظم عمران خان کا سعودی عرب پہنچ کر سعودی حکام سے ملاقات کرنا اور پھر پاکستان کا کسی بھی سطح پر ’’کوالا لمپور سمٹ‘‘ میں شریک نہ ہونے کے اعلان سے طیب اردوان نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان دراصل سعودی دباؤ کے تحت اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک نہیں ہُوا ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ترک صدر نے اس غصے کا کھلے لفظوں میں اظہار بھی کیا۔

وہ پاکستان پر کم اور سعودی عرب پرزیادہ برسے۔ سعودی عرب نے بھی اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔وجہ؟ سعودی حکام کا کہنا تھا کہ پونے 2 ارب مسلمانوں کے اہم مسائل پر گفتگو کے لیے یہ سمٹ ’’غلط فورم‘‘ ہے ۔ممکن ہے سعودی عرب کا یہ بیان مبنی بر حقیقت ہی ہو لیکن تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سعودیہ کو خدشہ تھا کہ اگر اُس نے کوالا لمپور سمٹ میں شرکت کی تو ایران، ترکی اور قطر جیسے علاقائی حریف اُسے مسلم دنیا میں تنہا کر دیں گے۔ اگر ایسا ہی خیال کہیں پنپ رہا ہے تو کیا اس کا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ مالی اعتبار سے طاقتور اور باوسائل اسلامی ممالک محض اپنے مفادات کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ پھر اتحادِ امت کے مفادات اور نعرے چہ معنی دارد؟

ایٹمی پاکستان کی طرف سے ’’کوالا لمپور سمٹ‘‘ میں عدم شرکت بارے ترک صدر طیب اردوان نے سعودی عرب کے جس مبینہ دباؤ کا ذکرکیا،ریاستی سطح پر سعودی عرب نے اس کی کوئی تردید نہیں کی ہے؛البتہ اسلام آباد میں بروئے کار سعودی سفارتخانے کی طرف سے مختصر الفاظ میں طیب اردوان کے ’الزام‘ کی تردید ضرور کی گئی ہے ۔ یہ تردید سعودی انگریزی اخبار (عرب نیوز) نے بھی شایع کی ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے بھی اِسی حوالے سے ایک مختصر سی وضاحت یوں جاری کی گئی: ’’مسلم اُمہ کی ممکنہ تقسیم روکنے اور کئی اہم مسلم ممالک کے خدشات دُور کرنے کے لیے وقت اور کوششوں کی ضرورت ہے، اس لیے پاکستان نے( کوالا لمپور) کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔‘‘ لیکن 22دسمبر2019ء کو ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ نے اِسی حوالے سے ایک خبر یوں شایع کرکے سب کو حیران کردیا ہے: ’’کوالالمپور سمٹ میں شرکت کرنے کے حوالے سے وزیر اعظم آفس نے دفترِ خارجہ کی سفارشات نظر انداز کیں۔‘‘ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر ہمارے وزیر اعظم پاکستانی فارن آفس کے ذمے داران کے مشوروں پر کان دھرتے تو پاکستان سبکی سے بچ سکتا تھا۔

ایٹمی اسلامی جمہوریہ پاکستان اور عمران خان کی حکومت کو جن شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان حالات میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے شائد ایسا ہی بیان دینا مناسب اقدام تھا جیسا کہ جاری کیا گیا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اُمتِ اسلامیہ، پاکستان اور جناب عمران خان سے زیادہ کی توقعات لگائے بیٹھی تھی ۔

’’نیوز ویک‘‘ کے تازہ شمارے میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔ اُمتِ اسلامیہ تو عمران خان کے حوالے سے جاری کردہ اُن بیانات اور خوابوں پر یقینِ کامل کیے بیٹھی تھی جو وہ مختلف اوقات اور مختلف عالمی فورموں پر دیتے رہے ہیں لیکن جب اتحادِ اُمت کی موہوم سی تشکیل کا موقع آیا، خان صاحب بہ امرِ مجبوری قدم آگے بڑھانے سے قاصر رہے۔ شائد اتحادِ اُمت کے بارے میں ایسی ہی مجبوریاں ہر اسلامی ملک کے پاؤں کی زنجیر بنی ہُوئی ہیں۔ اتحادِ اُمت کا مرحلہ مگر کب آئے گا؟ اُمت کو درپیش سنگین مصائب و مسائل کے حل کے لیے’’ او آئی سی‘‘ سے وابستہ توقعات تو بُری طرح ناکام ہُوئی ہیں۔

او آئی سی ( جس میں یقیناً سعودی عرب مرکزی کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے اور اس کے بیشتر اخراجات بھی وہی ادا کر رہا ہے) آج تک اُمتِ اسلامیہ کو درپیش کئی شدید بحرانوں کو حل کروانے میں ’’او آئی سی‘‘ کا ادارہ کوئی ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکا ہے۔

مثال کے طور پر فلسطین و کشمیر کے دیرینہ سنگین مسائل کے حل میں ناکامی کے ساتھ ساتھ : (۱)ایران عراق دس سالہ جنگ (۲) افغانستان کے خلاف پہلے سوویت رُوس کی جارحیت اور پھر امریکی حملہ (۳) سوڈان کا داخلی انتشار اور پھر اس کی تقسیم (۴) انڈونیشیا کے اندر ہی ایک نئے ملک (مشرقی تیمور) کا بن جانا (۵) عراق و لیبیا کے صدور (صدام حسین و کرنل قذافی) کا بہیمانہ قتل (۶) شام و لیبیا کی مکمل تباہی اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم (۸) عراق میں جاری حالیہ بحران (۹) روہنگیا مسلمانوں پر میانمار ی بدھ حکمرانوں کے خونریزمظالم اور آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش ہجرت (10) اور اب بھارتی مسلمانوں کی نئی غلامی کے لیے بھارت سرکار کا نیا ظالمانہ اقدام۔۔۔تو کیا ان ناکامیوں میں مناسب نہیں ہے کہ ’’او آئی سی‘‘ کے مردہ گھوڑے کی جگہ کوئی نیا اور قوی گھوڑا میدانِ عمل میں اتارا جائے؟۔

لگتا یہی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کو ایک لڑی میں پرونے کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔ مجھے یہاں فرزندِ اقبال ؒ ڈاکٹر جاوید اقبال سے کی گئی اپنی کئی ملاقاتیں یاد آ رہی ہیں۔ وہ بھی عالمِ مایوسی میں یہ فرمانے لگے تھے کہ پاکستان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ عالمِ اسلام سے وابستہ ہو کر اپنے مسائل حل کرنے کے خواب دیکھنا بند کرے اور علاقائی طور پر خود کو مضبوط اور خوشحال بنانے کی سعی کرے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی خود غرضی اور لالچ دیکھ کر آخر آخر اتحادِ اُمت کے خواب کو سراب کہنے لگے تھے۔

اگر اتحادِ اُمت کی کوئی اصلیت اور حقیقت ہوتی تو ایک عرب شہزادہ 23 دسمبر 2019ء کو بیجنگ پہنچ کر چینی مسلمانوں (یغور ) کے بارے میں چینی موقف کی حمایت میں بیان جاری نہ کرتا۔ مغربی پروپیگنڈے کے برعکس ہم بحثیتِ اُمت بہرحال یغور مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔جنرل (ر) صدر پرویز مشرف بھی اپنے دِورِ اقتدار میں، اپنی پالیسیوں کی شکل میں، اتحادِ اُمت کی نفی کرنے لگے تھے۔ وہ جب ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگاتے تھے تو اس کا واحد مقصد ہی یہ تھا کہ اُمت کے مسائل و مصائب کو چھوڑئیے، پہلے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم کیجیے۔تو کیا واقعی اتحادِ اُمت ایک خواب اور سراب ہے؟

The post عمران خان،اتحادِ اُمت اور شہزادہ فیصل کی آمد appeared first on ایکسپریس اردو.

کوالالمپور کانفرنس اور پاکستان

$
0
0

اب تک جتنے نظام ہائے زندگی دنیا میں آئے۔ ان میں جمہوریت کو کامیاب ترین نظام سمجھا جاتا ہے۔ اور عموماً لوگ اسی نظام کی مدح سرائی میں مصروف رہتے ہیں۔ مگر جہاں جہاں یہ نظام نافذ العمل ہے وہاں اس کے کامل ثمرات حاصل نہیں ہو پاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں ریل کی پٹڑی کی طرح سیدھی چلتی رہتی ہے اور اس میں کوئی تنوع پیدا نہیں ہوتا تو لوگ اس کی یکسوئی سے کنارہ کشی کرتے جاتے ہیں۔ اور انتخابات کا ٹرن اوور زوال پذیر ہوتا جاتا ہے۔

خود ہمارے ملک میں جو جمہوری ٹرن اوور ہے وہ چالیس فیصد کے قریب تر ہے اور بھارت میں یہ ٹرن اوور تینتیس فیصد رہ گیا ہے گویا ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی کا ٹرن اوور جس پر نریندر مودی کو ناز ہے وہ تینتیس کروڑ بھی نہیں۔ پھر بھی اس نے اپنے زعم میں بھارت کی شکل بدلنی چاہی۔ جس کے نتیجے میں وہاں اضطراب کا ایک ہجوم کھڑا ہوگیا جس نے نام نہاد جمہوری لیڈر کی راہ کو مسدود کرکے رکھ دیا اور اب اسے ہم پیچھے ہٹتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھارتی مسلمان ہی تھے۔

جنھوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا دلی اور لکھنو میں قائد اعظم محمد علی جناح کے جلسے ہوتے تھے اور راجہ صاحب آف محمود آباد، نوابزادہ لیاقت علی خان اور چوہدری خلیق الزماں اور دیگر ان کے ہم رکاب ہوتے تھے۔

مگر افسوس کہ جناح صاحب کو قدرت نے مہلت نہ دی اور وہ پاکستان کو اپنی تصوراتی منزلوں تک پہنچا نہ سکے اور آج ملک معاشی طور پر اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ اپنی تیار کردہ فارن پالیسی پر آزادانہ فیصلے کرنے کی قوت سے عاری ہے۔ دنیا بھر کے غیر ملکی اخبارات نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر یہ خبریں شایع کی تھیں کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی سائیڈ لائن پر ترک اور ملائیشیا کے وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی۔ جس پر مہاتیر محمد نے یہ تصور کرلیا کہ مسلمانوں کے سیاسی مقاصد کے لیے ایک نئے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔

جو ماضی میں معمر قذافی اور ذوالفقار علی بھٹو نے سوچا تھا۔ مگر مغرب کی چالبازیوں سے دونوں کو بے موت مار دیا گیا۔ لہٰذا مہاتیر محمد نے اس نئے پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی۔ جس کی بدولت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر سیاسی دباؤ بڑھایا گیا اور مہاتیر محمد نے ملائیشیا کے اس پلیٹ فارم سے بھارتی مسلمانوں کی حق تلفی کے خلاف بھرپور آواز بلند کی جس کے نتیجے میں نریندر مودی کو مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ مہاتیر محمد غیر ملکی معاملات میں مداخلت بند کریں۔ جب کہ عرب ریاستیں اپنے ملک میں بھارتی حکمرانوں کی خوشنودی کو پروان چڑھانے میں مصروف رہتی تھیں۔

مگر موجودہ بھارتی شہریت کے بل پر انھیں بھی اشک شوئی کرنی پڑی اور انھوں نے بھی موجودہ قرارداد پر منفی ردعمل کا اظہار کیا۔ گویا او آئی سی اور ملائیشین پلیٹ فارم کے تقابل کے نتیجے میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے آوازیں بڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

چونکہ پاکستان ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہ کرسکا تو اس پر پاکستان کی وزارت خارجہ کے ابہام کے نتیجے میں ملک بھر میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں جس پر وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی جانب سے ایک وضاحتی بیان اخبارات کو دیا جس کا متن یہ تھا کہ اس میں وزارت خارجہ کی کوئی غلطی نہیں بلکہ وزیر اعظم نے خود وزارت خارجہ کے ذریعے کانفرنس کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ہوم ورک کرنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ بلکہ وزیر خارجہ بھی اکثر اوقات ان سے ہوم ورک کرائے بغیر ہی اپنے عمل میں مصروف رہتے ہیں۔

گویا یہ ایک ہی ادارے میں تصادم کی ایک شکل ہے۔ جب کہ آئے دن مقامی اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوتی رہتی ہیں جب کہ اداروں کے درمیان تصادم ملک کے لیے موزوں نہیں۔ جہاں تک کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کا معاملہ ہے اس پر تو ملکی سطح پر کوئی بیان نہ آیا مگر لوگوں کے تصورات کو مدھم کرنے کے لیے ایک بیان شاہ سلمان کی جانب سے آیا کہ پاکستان کی کوالالمپور کانفرنس میں عدم شرکت کسی سعودی دباؤ کے تحت نہیں۔ ایسی متنازع صورتحال کا پیدا ہونا جس میں ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوان کے بیان کی نفی ہوتی ہو یہ کوئی سیاسی طور پر موزوں صورتحال نہیں۔ اس طرح شرق اوسط میں پاکستان کی اہمیت کو دھچکا لگتا ہے۔

اور دونوں ممالک پاکستان کو ہی اس صورتحال کا مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ بہر صورت اگر غور کیا جائے تو پاکستان جن منزلوں سے گزر رہا ہے تو تمام بڑے ادارے وہاں ایک دوسرے کے مخالف نظر آتے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کی سزا کے فیصلے پر سابق صدر کی حمایت اور مخالفت میں اداروں کے درمیان تصادم نے جو شکل اختیار کی اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر یہ ادارے غیر مربوط ہیں اور یہاں کی قیادت کوتاہ نظری کا شکار ہے اور باہم رابطوں کا فقدان بھی جو ایک دوسرے سے میڈیا کے ذریعے گفت و شنید کرتے ہیں۔

مگر یہ تو صرف ملکی اداروں کے مابین غلط فہمیوں کی وجہ سے صورتحال پیدا ہوئی ہے جو جلد ہی معمول پر آجائے گی۔ مگر بیرونی معاملات پر ابہام یا متصادم آرا ملکی مفاد کے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں کہ دنیا کا ہر ملک اپنے لحاظ سے واقعات اور حالات کا مطلب نکالے جس کے نتیجے میں پاکستان کے تعلقات کا بیرونی دنیا میں منفی اثر پڑ سکتا ہے لہٰذا وزارت خارجہ کا قلمدان نہایت مربوط اور منظم ہونے کی ضرورت ہے جوکہ گزشتہ پندرہ برسوں سے غیر مربوط ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت کی ہٹ دھرمی میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔

پاکستان کو ایک طرف تو اقتصادی صورتحال کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے دوسرے ان غیر مربوط معاملات کی وجہ سے بیرونی دنیا کے انوسٹمنٹ کے معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ملائیشیا کی طرف سے کار کا پلانٹ لگانے کا معاہدہ بقول وزیر اعظم کے ابھی تک قائم ہے۔

اگر صورتحال مناسب ہوتی تو وزیر اعظم کو اس پر بیان دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ لہٰذا پاکستان کو اپنی اقتصادی صورتحال بہتر کرنے کے لیے خارجہ و داخلہ پالیسی کو مربوط اور منظم کرنے کی اشد ضرورت ہے جب کہ دفتر خارجہ کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے خارجی معاملات پر نہ دفتر خارجہ کو کوئی بریفنگ دی جاتی ہے اور نہ ہی ہوم ورک کے لیے اکابرین دفتر خارجہ سے مشورہ کرتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ وہ تمام تر توجہ امدادی سرگرمیوں پر ہی صرف کرتا ہے جب کہ قرضوں سے اقتصادی صورتحال مضبوط ہونے کے بجائے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔

حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ملائیشیا جیسے ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں سے نہ صرف مراسم بڑھائیں بلکہ ترقی کے راستوں کا چناؤ کرنے کے لیے ان حکمرانوں سے رائے مشورہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھیں اور عوامی رابطے کے لیے ثقافتی، سائنسی اور ادبی رابطوں کا سلسلہ بحال کریں۔ نئی نسل کو محض مڈل ایسٹ میں ملازمتوں کے لیے بھیجنا تو ایک اچھا عمل ہے مگر یہ کوئی دیرپا اور مستقل عمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں حکمرانوں نے خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہونے کا درس نہیں دیا۔ اسی لیے پاکستان بڑے معاشی بوجھ تلے دبا جا رہا ہے۔

اور ایسے ممالک جو معاشی خود انحصاری کی راہ پر نہ چل رہے ہوں وہ اپنی آزاد خارجہ پالیسی کو بھی جاری نہیں رکھ سکتے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہاں پر سبز انقلاب کا آغاز کیا جائے۔ بے زمین کسانوں کو زمین، ٹیوب ویل اور ٹریکٹر دینے کی مہم کا آغاز کیا جائے۔

نہ یہ کہ عام لوگوں کو قرضوں کی سہولت دے کر محدود راستوں پر چلنے کا درس دیا جائے اور پھر وہ لوگ ان قرضوں سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر سکیں گے۔ اور آخری انجام ان قرضوں کا وہی ہوگا جو ’’یلوکیب‘‘ منصوبے کے ساتھ ہوا۔ ملک کا پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے مشکل موسمی حالات میں وقت گزارنے پر مجبور ہے۔ اگر نوجوانوں کو زرعی پالیسی کے تحت پچاس سال کی لیز پر زمینیں اور کاشتکاری کی سہولتیں دی جائیں تو پاکستان دنیا کو زرعی پیداوار اور ان سے بنائے ہوئے غذائی اجزا کو ایکسپورٹ کرنے کے قابل ہوسکے گا۔

پاکستان کا ہزار میل لمبا کوسٹل ایریا یہ اعلان کر رہا ہے کہ ہمارے علاقوں میں ناریل کے بے شمار درخت لگائے جائیں اور ملک کو خوردنی تیل کی پیداوار میں خودکفیل بنانے کے علاوہ کوکونٹ واٹر پروڈکٹس کی ایکسپورٹ بھی کی جائے تاکہ زرمبادلہ کی قلت کم ہو۔ مگر اس کے لیے پانچ سال کی شدید مشقت اور جانفشانی کی ضرورت ہے جب کہ ان پنج سالہ پروجیکٹ کے علاوہ ایسی شجرکاری کی جائے جن کی بلوغت میں سال چھ ماہ کا وقت درکار ہو۔

اس سلسلے میں ہر صوبے کے کسانوں سے رابطے کیے جائیں اور زرعی کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا جائے پاکستان میں موجود زرعی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور گاؤں گوٹھ کے قدیم ماہر کاشتکاروں کو منظم کرکے زرعی تحریک کا آغاز کیا جائے۔ نہ یہ کہ تمام تر قوت امدادی رقوم کے حصول پر خرچ کی جائے اور پھر ملک میں قرضوں کا جال بچھایا جائے۔ آج کے ترقی یافتہ ممالک میں ملائیشیا کیوں کر آگے ہے۔ کیونکہ ان کے پھلوں کے باغات سطح زمین سے لے کر پہاڑوں تک پر موجود ہیں۔ کیلا اور ناریل عام آدمی کو خریدنے کی ضرورت نہیں۔

پاکستان کا بیشتر زرمبادلہ خوردنی تیل اور چائے کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے۔ سروے کرنے کے بعد دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے کن علاقوں میں چائے کے باغات لگائے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا اپنے ملک کو اگر ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں کھڑا کرنا ہے تو ایک طرف ٹریکٹر اور کار کی انڈسٹری ہو تو دوسری جانب فوڈ انڈسٹری، تو پھر ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ پاکستان خود ایسی کانفرنس منعقد کرے گا جو ایشیائی ممالک کے لیے اپنا رہنما ثابت ہوں گی۔

The post کوالالمپور کانفرنس اور پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.

اتاترک کے دیس میں

$
0
0

استنبول میں پہلی رات کا کھانا عزیزی عاطف بٹ کے چند احباب نے اپنے ذمے لے رکھا تھا، ہوٹل کے مالک انس بھی بیشتر میزبانوں کی طرح یہاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آئے تھے اور پھر تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہیں کے ہو رہے۔ میں نے جتنے پی ایچ ڈی اس دورے میں ہوٹلنگ کا بزنس کرتے دیکھے وہ شاید عمر بھر میں کہیں اور نہیں دیکھے تھے۔

معلوم ہوا کہ یہ بزنس مالی فوائد سے ان کی ڈگریوں سے زیادہ منفعت بخش ہے۔ یہ ہوٹل کراچی دربار کچھ عرصہ پہلے تک دہلی دربار کے نام سے چلتا تھا، یہ اس مشہور ’’تقسیم میدان‘‘ کے نواح میں واقع ہے یہاں چند برس قبل ترک عوام نے اپنی فوج کے کچھ آمرانہ اقدام کی مخالفت کے لیے ایسی شاندار مزاحمت کا مظاہرہ کیا تھا کہ عوام کے سیلاب کے دباؤ سے مجبور ہو کر ٹینکوں کو واپس جانا پڑا اور صدر طیب اردوان کی حکومت نہ صرف مستحکم ہوئی بلکہ جمہوریت کو بھی ایسا استحکام ملا کہ آج ترکی پورے عالم اسلام میں ایک مرکز کی سی اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے اور یوں خلافت کا وہ نظام جسے اتاترک کی قیادت میں ترک عوام نے ختم کیا تھا اور جس کے ساتھ ہی عثمانی سلطنت کی مسلم امہ کے مرکز والی حیثیت بھی ختم ہو گئی تھی، ایک نئی شکل میں سامنے آیا مگر اس بار قیادت سلاطین کے بجائے ملک کے عوام اور اس کے نمایندوں کے ہاتھ میں تھی۔

کھانے میں میزبانوں کی محبت بھی شامل تھی جس سے اس کا مزا دوبالا ہو گیا۔ میری بیگم فردوس کا جوتا پیدل چلنے کے لیے زیادہ موزوں نہیں تھا اس لیے وہ قریبی استقلال بازار کی طرف ایک میزبان خاتون کے ساتھ نکل گئی۔ بازار اس قدر بڑا پررونق اور ہجوم سے بھرا ہوا تھا سو ان دونوں خواتین کو ڈھونڈنے میں خاصا وقت لگ گیا۔ واپسی پر دوستوں نے بتایا کہ یہاں ورک پرمٹ ملنا بہت مشکل ہے جس کی وجہ سے پاکستانی برادری بہت سے مسائل کی شکار ہے جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے لوگوں کے لیے پابندیاں نسبتاً کم ہیں۔

تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا کہ اس میں ہماری حکومت‘ وزارت خارجہ اور سفارت خانے سے زیادہ مسئلہ اس انسانی اسمگلنگ کا ہے جس کی وجہ سے یہاں غیرقانونی طور پر مقیم افراد نہ صرف بہت زیادہ ہیں بلکہ یہیں سے انھیں یونان بھی اسمگل کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ترک اور یونان دونوں ملکوں کی حکومتیں پریشان ہیں۔ لیکن دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی وجہ سے باقیوں کو اس کا تاوان ادا کرنا پڑتا ہے۔

20 دسمبر کی صبح ایوارڈ تقریب کے منتظمین نے اسی حوالے سے ایک ٹی وی انٹرویو کا اہتمام کر رکھا تھا مگر دلچسپ بات یہ تھی کہ انٹرویو لینے والے اینکر، پروڈیوسر کو ترکی کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی یہاں ہمارا انگریزی دان گائیڈ رفیق کام آیا کہ وہ ترکی زبان میں کیے گئے سوال کا انگریزی ترجمہ کرتا اور میں انگریزی میں ہی جواب دیتا جاتا۔ ترکی میں انگریزی جاننے اور بول سکنے والوں کی تعداد بہت کم ہے یہاں تک کہ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی بیشتر تعداد بھی  نو اور تھینک یو سے آگے کچھ نہیں جانتی۔

آج جمعے کا دن تھا سو طے پایا کہ نماز جمعہ یہاں کی مشہور تاریخی بلو یعنی نیلی مسجد میں ادا کی جائے۔ توقع کے برعکس مسجد کے در و دیوار اور مناروں وغیرہ میں کہیں بھی نیلا رنگ نمایاں نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ کسی زمانے میں اس کا فرش نیلے رنگ کی ٹائلوں سے بنایا گیا تھا سو اسی رعایت سے اس کا نام بھی بلو مسجد پڑ گیا۔ ترکی میں مساجد اپنی کثرت اور خوب صورتی کی وجہ سے بہت نمایاں ہیں۔

کسی نے بتایا کہ اس مسجد کی جگہ پر حضرت بلالؓ نے اذان بھی دی تھی لیکن اس خبر کی تصدیق نہ ہو سکی کہ یوں بھی باز نطینی حکومت کے دور میں اور سلطان محمد فاتح کی 1453ء میں فتح قسطنطنیہ سے سات سو برس قبل اس واقعے کا ظہور پذیر ہونا قرین قیاس نہیں تھا البتہ یہ بات طے ہے کہ میزبان رسول حضرت ابو ایوبؓ انصاری اپنی عمر کے آخری حصے میں جہاد کی غرض سے یہاں آئے اور یہیں ان کا انتقال ہوا جن کے مزار کو یہاں ایوب سلطان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

عزیزی فیضان اور رفیق نماز جمعہ کے لیے ہمارے ساتھی اور گائیڈ تھے، مسجد کا باہری اور اندرونی صحن ہجوم سے پُر تھے جس میں خواتین کی تعداد بھی کافی زیادہ تھی۔ بیگم صاحبہ کو خواتین کے لیے مخصوص گیلری کی طرف روانہ کر کے ہم لوگ مسجد کے مرکزی ہال میں آئے تو تقریباً دو ہزار نمازی ہم سے پہلے موجود تھے جو نماز کے وقت تک شاید تین ہزار سے بھی زیادہ ہو گئے ہوں گے جب کہ اس کے علاوہ بھی وہاں ارد گرد کی جگہوں پر مزید نمازی جمع ہو چکے تھے۔

نماز کے بعد اور ایوب سلطان کی قبر پر فاتحہ خوانی سے قبل درمیانی وقفے میں استنبول میں پاکستانی قونصلیٹ میں قونصل جنرل بلال پاشا سے ملاقات طے تھی جو برادرم طاہر انور پاشا کے صاحبزادے ہیں اور جن سے فون پر کئی بار بات ہو چکی تھی۔ ان کے دفتر میں پہلی بار انجیر کو ایک چاکلیٹ کی سی شکل میں کھانے کا تجربہ ہوا، ان کے ساتھی قونصلرز سے بھی ملاقات رہی سب ہی بہت محبت والے لوگ تھے اور اس بات پر بہت خوش تھے کہ پہلی بار کسی پاکستانی ادیب کو ترکی میں ایک بڑے ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے۔

استنبول میں ہر تاریخی مقام کے ارد گرد مکئی کے بھٹے اور عرف عام میں چھلیاں بیچنے والوں کے اسٹال ملتے ہیں یہاں گرم پانی میں ابالی ہوئی چھلیاں بھی ملتی ہیں اور اس قدر نرم اور مزیدار ہوتی ہیں کہ میرے جیسے بوڑھے دانتوں والے لوگ بھی انھیں نہایت آسانی سے چبا سکتے ہیں۔

چھلی کی طرح یہاں کی آئس کریم بھی اپنا ایک خاص انداز رکھتی ہے، اس میں وہ لوگ شاید کسی قسم کی جیلی کا استعمال کرتے ہیں کہ یہ منہ میں گھلنے کے بجائے ربڑ کی طرح پھیلتی چلی جاتی ہے، سو آئس کریم اور چھلی سے لطف اندوز ہونے کے بعد حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے مزار پر حاضری دی گئی اور اس کے بعد رات کو کھانے کے بعد تقسیم میدان سے متصل استقلال بازار کی طویل سیر کی گئی جو اپنی ساخت کے اعتبار سے لندن کے آکسفورڈ اسٹریٹ اور پیرس کی شانزے لیزے کا ایک مرکب سا ہے۔

The post اتاترک کے دیس میں appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاستدان بے نظیر بننے کی کوشش کریں !

$
0
0

آج محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے12 ویں یوم شہادت پر ان کو یاد کرتے ہوئے ایک بار پھر دل کو تھامنا پڑرہا ہے کہ اگر آج وہ اس ملک کی قیادت کے لیے دستیاب ہوتیں تو شاید پاکستان کی سمت اور منزل کا ہمیں صحیح ادراک ہوتا۔ آج ہم مصائب و مسائل کی دلدل میں دھنسے نہ ہوتے۔ آج آپسی لڑائیوں میں وقت صرف کرنے کے بجائے عوام کا سوچ رہے ہوتے۔ دنیا کے عزت دار ممالک میں شامل ہوتے، خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہمارا قبلہ درست سمت میں ہوتا، معیشت کو اس قدر نقصان نہ اُٹھانا پڑتا۔ یہ سب باتیں محض خام خالی نہیں بلکہ محترمہ کی بہادری کے لیے محض اتنی گواہی کافی ہے کہ وہ اپنے والد کے عدالتی قتل کے بعد انتہائی مشکل و نا مساعد حالات کا کمال دلیری، ثابت قدمی، عزم و ہمت استقلال سے سامنا کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کندن بن چکی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی عمر صرف 24 سال کی تھی، جب شہید بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔

وہ نہ سیاست سے آگاہ تھیں، نہ پارٹی لیڈروں اور کارکنوں سے کوئی شناسائی، مگر پھر بھی شہید بھٹو نے جیل سے انھیں جو آخری خط لکھا، اس میں انھوں نے اپنے اس عظیم عوامی ورثے پیپلز پارٹی کی وراثت شہید بی بی کو سونپ دی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک لیڈر بن کے انھوں نے اپنی پارٹی کو ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت میں بدلا اور کس طرح ایک بڑی بہن، ایک ماں بن کے انھوں نے اپنے کارکنوں کی سیاسی پرورش کی۔ وہ اپنے مرحوم والد کے عدالتی قتل کا ذکر یوں کیا کرتی تھیں کہ ’’میں چھوٹے جیلر کے سامنے بے بس کھڑی تھی اور میرے ہاتھوں میں اپنے والد کے بچے کچھے سامان کی ایک پوٹلی تھی جس میں ان کی قمیض بھی تھی، جس سے کولون شالیمار کے عطر کی خوش بو ابھی تک آ رہی تھی اور میں نے ان کی قمیض کو اپنے ساتھ بھینچ لیا؛ اس وقت مجھے کیتھلین کینیڈی(امریکا کے سابق صدر جان ایف کینیڈی کی بیٹی) یاد آ گئیں؛ جنھوں نے اپنے والد کے قتل کے بعد اس کا لباس پہن لیا تھا۔‘‘

آج بھی پارلیمنٹ کی راہ داریوں میں ان کی آواز گونجتی ہے۔ وہ محض ایک عورت نہیں بلکہ ایک بہادر ماں اور بیٹی تھیں۔ بے جگری کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا مقابلہ کیا، جیل کاٹی، بے وطن ہوئیں، جلسے جلوسوں میں پولیس کے ڈنڈے کھائے، حتیٰ کہ سگے بھائیوں کے جنازے اٹھائے۔ اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لرزش نہیں آئی۔ گڑھی خدابخش میں تہہ خاک آرام کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کا پرچم اس شان سے اٹھایا کہ دنیا بھر میں جمہوریت اور مزاحمت کی علامت بن گئی۔

لیکن اس کے برعکس آج ہمارے سیاستدان بہادری، بے باکی اور نظریاتی زندگی تو ایک طرف اخلاقیات سے بھی عاری نظرآتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزتوں کا خیال رکھنے سے بھی عاری، ایک دوسرے کی اخلاقی پردہ پوشی سے بھی عاری، بے نظیر بھٹو اگرآج زندہ ہوتی تو یقینا سیاست میں احترام ضرور ہوتا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ محترمہ بے نظیر نے اپنی ہی پارٹی کے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر رہنما کو صرف اس لیے پارٹی سے نکال دیا تھاکہ اُس نے مریم صفدر کے بارے میں برے الفاظ کا استعمال کیا تھا۔جب کہ اُن کے مقابلے میں محترمہ کے سخت ترین سیاسی حریف ن لیگ والے اُن کے پوسٹر ہیلی کاپٹر سے پھینکتے رہے۔

کردار کشی کی انتہا کو چھوتے حریف سیاستدان اُن کے خاندان کی دوسری عورتوں کو بھی نہ بخشتے!۔ حالانکہ جب زرداری جیل میں تھے تو محترمہ کو سخت گرمی میںبچوں کے ہمراہ 2،2 گھنٹے ویٹنگ ایریا میں انتظار کروایا جاتا۔ کون سی گالی ہے جو محترمہ کو نہ دی گئی ہو۔ کوئی اور ہوتا، مگر پہاڑ جیسا صبر رکھنے والی بے نظیر نے ان لوگوں کو بھی برداشت کیا۔ لیکن جب بی بی اقتدار میں آئیں توان کی جانب سے انتقام کی سیاست کو دفن کر دیا گیا ، انھوں نے ن لیگ کو کچھ نہ کہا ۔اور عوام کی خدمت کرنے میں مگن ہوگئیں۔

میں نے اُن کے دور اقتدارکے حوالے سے چند دستاویزات کو ٹٹولا تو یقین مانیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ انھوں نے مختصر عرصے میں کس قدر عوامی کام کیے مثلاََانسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہیومن رائٹس کی وزارت کا قیام، اور متعلقہ قوانین کا نفاذ، چائلڈ لیبر سے متاثرہ بچوں کے لیے سینٹر کا قیام، محنت کشوں کے مفاد میں قانون سازی، ٹریڈ یونین کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ، دورآمریت میں جبری برطرف کیے گئے 40 ہزار سے زیادہ ملازمین کی بحالی، ہر شہر میں لیبر کالونیاں بنائیں، مزدوروں کو پنشن کا حق دیا، لاکھوں بے روزگاروں کو روزگار کے مواقعے فراہم کیے۔

خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی، پارلیمانی بل پیش کیے گئے، جن میں گھریلو تشدد کے خلاف، خواتین کی سیٹوں کی بحالی اور عزت کے نام پر قتل روکنے کے لیے بل شامل ہیں۔ پولیس تشدد کے خلاف خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوڈ آف کریمنل ایکٹ1994پاس کیا، خواتین کو قانونی مشاورت دینے کے لیے حکومت نے Women  indistress قائم کیا۔ قومی کمیشن برائے خواتین قائم کیا گیا۔ خواتین کے لیے علیحدہ پولیس اسٹیشن ورکنگ ویمن کے لیے ہوسٹلز، برن یونٹس ووکیشنل ٹریننگ پروگرام شروع کیا گیا اور کمپیوٹر سینٹر قائم کیے گئے۔

عورتوں کے خلاف تشدد کے بارے میں Cedaw کی تائید کی گئی جس سے پاکستان کی پوزیشن واضح ہوگئی۔ خواتین کو معاشی طور پر طاقتور بنانے کے لیے قرضوں کے اجرا کا وسیع پروگرام ترتیب دیا گیا۔ خواتین کا پہلا بینک بھی محترمہ کا کارنامہ ہے۔ خواتین کو روزگار فراہم کرنے کے لیے محترمہ نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا پروگرام شروع کیا اور ایک لاکھ 33ہزار افراد پر مشتمل نیٹ ورک قائم کیا گیا، تاکہ ملک میں دیہی اور شہری خاندانوں کی خدمت کی جاسکے۔

پبلک سروس میں خواتین کے کوٹے مختص کیے گئے، خواتین جج تعینات کی گئیں اور خواتین کے لیے سوشل پروٹیکشن کے کئی پروگرام شروع کیے گئے۔ بے نظیربھٹو کی حکومت میں عام لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے اور معیشت کو سدھارنے کے اقدامات کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ یو این او کی تنظیم ILOنے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ نوکریاں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں پیدا کی گئیں۔ محترمہ نے 1994ء میں نئی پاور پالیسی دی، جس سے ملک میں توانائی کا بحران ختم کرنے میں مدد ملی۔ لوڈشیڈنگ کو ختم کیا گیا اور ایک مربوط معاشی ترقی کی بنیاد ڈالی گئی۔ 1993ء سے 1996ء  کے دوران توانائی، پیٹرول اور کیمیائی شعبوں میں 3 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔1800شہروں میں بجلی اور 1.5ملین گیس کنکشن فراہم کیے گئے۔

زرعی شعبے میں ترقی کی شرح منفی 1.5 سے بڑھ کر 6 فی صد سالانہ ہوگئی۔میڈیا سے سینسرشپ کا خاتمہ کیا گیا۔ ملک میں پہلی مرتبہ نجی میڈیا کی بنیاد ڈالی، ووکیشنل اور ٹیچرٹریننگ پروگرام شروع کیے گئے۔ قومی نصاب تبدیل کیا گیا اورنجی شعبے میں یونیورسٹیاں بنانے کی اجازت دی گئی۔اسی لیے تو محترمہ کی شہادت پر ایک ہندوستانی اخبار نے اپنی اخبار کی لیڈ اسٹوری لگائی تھی، کہ ’’آج پاکستان اپنے شناختی کارڈ سے محروم ہو گیا‘‘

المختصر محترمہ مخالفین کو اپنے کام سے متاثر کرنے کا ہنر جانتی تھیں، اُن کا ذہن اور مزاج جمہوری نہ ہوتا،تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔ بھائیوں کے اصرار، لیبیا کے صدر کرنل قذافی اور افغان حکومت کی ترغیب کے باوجود انھوں نے ’’الذوالفقار‘‘ کی کارروائیوں کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ ضیا الحق کا مقابلہ میدان سیاست میں کرنے کا فیصلہ کیا نہ کہ توپ وتفنگ سے۔ برسراقتدار آکر نہ صرف پیپلزپارٹی کے مخالفین کو معاف کر دیا بلکہ بعض کو اپنی حکومت اور پارٹی میں بھی شامل کر دیا۔انگریزی میں کہاجاتاہے کہ

“Keep your friends close and your enemies closer.”

یعنی دوستوں کو قریب اور دشمنوں کو قریب تر رکھیں۔ بے نظیر نے اس اصول پر عمل کرتے ہوئے غلام اسحاق خان کو صدر اور صاحبزادہ یعقوب خان کو وزیرخارجہ قبول کرکے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو بھی اقتدار میں شراکت دار بنایا۔ ملک کی باگ ڈور ایک منتخب وزیراعظم کے ہاتھ آئی، تو بتدریج جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے لگیں۔

بہرکیف 12سال گزر گئے ہم ہر سال اُن کے قاتلوں کو نہ پکڑنے کے حوالے سے ہم نوحہ پڑھتے ہیں، لیکن سوچا اس بار اُن کی شخصیت و قابلیت کے اُن پوشیدہ پہلوؤں پر بات کی جائے جن کے بارے میں ہماری نئی نسل بے خبر ہے اور ویسے بھی بی بی کے قاتلوں نے گرفتار ہونا ہی نہیں تو ہم کیوں واویلا کریں۔

بھئی اگر اُن کے قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے اُن کی پارٹی کو دلچسپی نہیں تو ہمیں کیوں ہوگی ! لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ پیپلز پارٹی کی بچی کھچی پارٹی میں عوام کے لیے آج بھی درد ہے، لیکن اس درد کا کیا کرنا کہ جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو یہ ’’درد والے‘‘ پیچھے چلے جاتے ہیںاور ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن،رحمان ملک، مظفر اویس ٹپی جیسے لوگ فرنٹ پر رہ کر قبضہ کر لیتے ہیںجب کہ اعتزاز احسن، رضا ربانی، فرخ سہیل گویندی، قمر الزمان کائرہ، ناہید خان جیسے لوگ پیچھے چلے جاتے ہیں۔ زرداری کی اسی پالیسی کی وجہ سے آج پیپلزپارٹی قومی سیاسی جماعت سے صوبائی سیاسی جماعت تک سکڑ گئی ہے اور اگر محترمہ آج زندہ ہوتیں تو میرے خیال میں حالات قدرے مختلف ہوتے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے اندر محترمہ جیسا جذبہ پیدا کریں، ساری سیاست، مخالفتیں، حمایتیں، نفرتیں، محبتیں ایک طرف مگر ہمیں مل کر پاکستان کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے اور یہی بات محترمہ بھی اکثر کہا کرتی تھیں اور ساتھ یہ شعر بھی پڑھا کرتی تھیں کہ

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں

The post سیاستدان بے نظیر بننے کی کوشش کریں ! appeared first on ایکسپریس اردو.

مرزا غالب کا 222 واں یومِ پیدائش آج منایا جارہا ہے

$
0
0

 کراچی: لازوال شہرت کے حامل اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر مرزا غالب کا 222 واں آج یومِ ولادت منایا جارہا ہے۔

مرزا اسد اللہ خان غالب نے دیوان کے ڈھیر لگانے کی بجائے بہترین شاعری کے حامل چند ہزار اشعار کہے ہیں اور ان کے خطوط کو بھی اردو ادب میں خاص درجہ حاصل ہے۔

اس طرح مرزا غالب کے خطوط کو نثری ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ آپ کا پورا نام مرزا اسداللہ بیگ تھا اور غالب تخلص تھا لیکن اپنے نام اسد کو بھی انہوں نے بعض غزلوں میں بطور تخلص استعمال کیا ہے مثلاً۔ غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جزو مرگ علاج۔

27 دسمبر 1979ء کو مرزا غالب کالا محل، آگرہ میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام عبداللہ بیگ اور والدہ کا نام عزت النسا بیگم تھا۔ 13 برس کی عمر میں آپ کی شادی امراؤ بیگم سے ہوئی لیکن غالب کی کوئی اولاد بھی پیدائش کے بعد جانبر نہ رہ پائی۔ ان سانحات کا غالب کی طبعیت پر گہرا اثر ہوا اور اس کا رنگ شاعری میں بھی نماٰیاں رہا۔

مرزا غالب کی شاعری میں انسانی معاملات، نفسیات، فلسفہ، کائناتی اسلوب اور دیگر موضوعات ملتے ہیں۔ وہ کائنات کی وسعت کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ

سبزہ و گل کہاں سے آئے

ابر کیا چیز ہے ، ہوا کیا ہے

غالب کی شاعری اور نثر نے اردو ادب پر گہرے نقوش چھوڑے اور انہوں نے فارسی اسلوب کے علاوہ سنجیدہ اور سلیس زبان میں بھی نہایت گہرے اشعار پیش کیے۔ اس ضمن میں دیوانِ غالب کئی اشعار سے بھرا ہوا ہے۔ غالب زندگی بھر تنگ دستی اور غربت کے شکار رہے۔

ایک جانب تو انگریز سرکار کی جانب سے انہیں اپنی ہی جائیداد میں حصہ نہ مل سکا تو دوسری جانب کفایت شعاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ زندگی بھر تہی دست رہے۔ عمر کے آخری دنوں میں ان کی رسائی مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے محل میں ہوئی اور انہیں نجم الدولہ اور دبیرالملک کے خطابات بھی دیئے گئے، خلعت دی گئی اور معاوضہ بھی مقرر کیا گیا۔

اس کے بعد جنگِ آزادی کے سلسلے میں گلی گلی جنگ چھڑگئی اور دہلی کو تاراج کیا گیا۔ بے شمار لوگوں کو انگریزوں نے سرِ عام پھانسی دی جس نے مرزا غالب کی نفسیات کو جھنجھوڑ کررکھ دیا یہاں تک کہ خود مغلیہ سلطنت بے عمل ہوکر رہ گئی تھی اور اس کے بعد پورا ہندوستان انگریزوں کے قبضے میں چلاگیا۔

فساد، شورش اور غارت گری کے سارے واقعات خود مرزا غالب نے آپنی آنکھوں سے دیکھے اور شدید غمگین رہے۔ 15 فروری 1869ء میں مرزا غالب اس جہانِ فانی کو چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔

The post مرزا غالب کا 222 واں یومِ پیدائش آج منایا جارہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


آج کا دن کیسا رہے گا

$
0
0

حمل:
21مارچ تا21اپریل

دیکھئے گھریلو قسم کے معاملات کا فیصلہ جذبات کی عینک لگا کر نہیں کیا جا سکتا، شریک حیات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے وہ اتنے برے نہیں، جتنا کہ آپ سمجھتے ہیں۔

ثور:
22 اپریل تا 20 مئی

بعض اوقات آپ نے اپنی دور اندیشانہ پالیسیوں کے تحت ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کیں ہیں لیکن ہر بار ایسا ہی تو نہیں ہو سکتا کبھی کبھار سیر کو سوا سیر بھی مل جاتا ہے۔

جوزا:
21 مئی تا 21جون

محتاط رہتے ہوئے اپنے ضروری امور انجام دیجئے جذباتیت کا یہ مظاہرہ اور جلد بازی کا کوئی بھی فیصلہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اس سے حتی الامکان اجتناب برتیں بزرگان روحانی کی خدمت کیجئے۔

سرطان:
22جون تا23جولائی

آپ کو وہ سب کچھ حاصل نہیں جو کہ دوسروں کو ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ معمولی سی پریشانی کے پیش نظر اپنا راستہ بدل دیا جائے ممکن ہے کہ نیا راستہ آپ کو تباہی کے کنارے پہنچا دے۔

اسد:
24جولائی تا23اگست

مزاج کی کیفیت بھی عجیب و غریب رہے گی، گھڑی میں کچھ اور پل میں کچھ، یعنی گرگٹ کی طرح بدلتا رہے گا آپ کا مزاج، ممکن ہے کہ اس طرح آپ کو اپنے اچھے ساتھیوں سے محروم ہونا پڑے۔

سنبلہ:
24اگست تا23ستمبر

مخالفین سے غیر متوقع صلح کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، کوئی اہم کاروباری معاہدہ بھی الجھ سکتا ہے لہٰذا کسی بھی نئے کاروبار کا آغاز نہ کریں، بعض اہم توقعات کے سلسلے میں مایوسی ہو سکتی ہے۔

میزان:
24ستمبر تا23اکتوبر

جس فریق کو اپنا سمجھ کر سب کچھ دائو پر لگانے کیلئے مستعد ہیں وہ آپ کو دھوکہ دے سکتا ہے، بہتر یہی ہے کہ اس لاحاصل ڈرامہ کو یہیں ختم کر دیجئے، آپ انجام کا انتظار نہ ہی کریں۔

عقرب:
24اکتوبر تا22نومبر

اگر آپ نے ہمارے سابقہ مشوروں پر عمل نہیں کیا تو یہ آپ کی عظیم غلطی ہے، دیکھ لیجئے کہ آپ کی جلد بازی اور غلط قسم کی پلاننگ کیا رنگ لا رہی ہے، صحت جسمانی گاہے بگاہے خراب ہو سکتی ہے۔

قوس:
23نومبر تا22دسمبر

ایسے دوستوں سے تعلقات استوار ہو سکتے ہیں جن سے گزشتہ خاصا جھگڑا رہا ہے، خصوصاً رشتہ دار آپ سے کچھ حاصل کرنے کیلئے ہی سہی تعلقات ازسر نو مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے آپ بھی انہیں مایوس نہ کیجئے۔

جدی:
23دسمبر تا20جنوری

دماغ پر عجیب و غریب خیالات کا غلبہ رہے گا، کوئی بھی کام یا کسی جھگڑے وغیرہ کا فیصلہ جذباتیت کے بوجھ تلے دب کر نہ کیا کریں ورنہ بہت کچھ کھونا پڑ سکتا ہے جس کا کہ تصور بھی آپ نے نہ کیا ہو گا۔

دلو:
21جنوری تا19فروری

بسلسلہ عشق و محبت حالات ناقابل فہم ہی رہیں گے اس سلسلے میں آپ کا خاموش رہنا ہی بہتر ثابت ہو سکتا ہے، آپ کا مخالف نت نئے فتنے جگانے کی کوشش کر سکتا ہے۔

حوت:
20 فروری تا 20 مارچ

ہم یہ بات بھی کہیں گے کہ جلد بازی کے تحت کوئی قدم نہ اٹھائیں خصوصاً کاروباری سلسلے میں آپ جو کچھ کرناچاہتے ہیں سوچ سمجھ کر کیجئے بفضل خدا حالات موافق ہو سکیں گے۔

The post آج کا دن کیسا رہے گا appeared first on ایکسپریس اردو.

بے نظیر بھٹو کی 12 ویں برسی، پی پی کا آج لیاقت باغ میں مرکزی جلسہ

$
0
0

 راولپنڈی: پیپلز پارٹی اپنی سابق چیئرمین پرسن بے نظیر بھٹو کی 12 ویں برسی آج منائے گی جب کہ مرکزی جلسہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہوگا۔

ایکسپریس کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اپنی سابق چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی 12 ویں آج منارہی ہے۔ اس سلسلے میں ملک بھر میں تقاریب منعقد کی جائیں گی تاہم مرکزی تقریب راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہوگی جہاں پارٹی کے موجودہ چیئرمین اور بے نظیر کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری اور دیگر مرکزی رہنما خطاب کریں گے۔

پی پی کے مطابق برسی کے حوالے سے ملک کے مختلف اضلاع میں قرآن خوانی کے اجتماعات ہوں گے، مرکزی جلسہ میں شرکت کے لیے کراچی سمیت سندھ بھر سے قافلے راولپنڈی پہنچ رہے ہیں۔

The post بے نظیر بھٹو کی 12 ویں برسی، پی پی کا آج لیاقت باغ میں مرکزی جلسہ appeared first on ایکسپریس اردو.

بے نظیر بھٹو، ایک جنگجو شہزادی

$
0
0

تضاد غالباً تمام ہی لوگوں کی میراث ہوتی ہے۔ یہ انہیں تمام عمر اسی طرح مصروف اور گھیرے بھی رکھتی ہے۔ باپ کے بعد بیٹے کی ذمہ داریوں میں بھی یہ دھوپ چھاؤں نمایاں رہی۔ ایسی زیست کو آپ معمول کے مطابق منظم کبھی نہیں کر پاتے۔

تاریخ میں سانحات ہمیشہ عظیم کامیابیوں کے درپے رہے ہیں۔ بے نظیر کی موت نے جہاں اسے انمٹ کر دیا وہیں اس کا قتل تاعمر ہمارے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا رہے گا۔ اس کی موت کا لمحہ اب ہم میں سے ہر ایک کو ہمیشہ یاد رہے گا۔

وہ بظاہر نہایت مضبوط اور سخت گیر مگر باطن میں نہایت حساس اور اپنی سب سے بڑی نقاد تھی۔ اس کی حیثیت اور مرتبے کو اسے پہنچنے والے صدمات نے ہمیشہ جلا بخشی۔ وہ ایک پختہ ارادہ و پُراعتماد سیاستدان تھی تاہم اس کے باپ کے مقدمے اور صدمے نے اسے دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی افسردگی اور تکلیف نے اسے غریب عوام سے مزید گہری وابستگی عطا کی۔ بے نظیر کبھی ہمہ جہت نہیں تھی۔ وہ موروثی طور پر بس منفرد تھی۔ وہ میڈونا سے لے کر معیشت تک بڑی سہولت اور آسانی کے ساتھ گفتگو کر لیا کرتی تھی۔ خود کو حاصل خاندانی تفاخر کے باوجود اپنی ترجیحات کی خوب چھان پھٹک کرنے کی عادی تھی۔ کائنات کی ہر شے اس کے لیے پرکشش تھی۔

خطے کی محرومیوں کا ادراک رکھنے والوں سے فوری ہم آہنگی اس کی حیرت انگیز صفت تھی۔ باپ کی طرح وطن کی مہک اس کے خمیر میں تھی۔ باپ ہی کی طرح وہ محرومیوں سے جُڑی ہوئی تھی۔ پاکستانی نوجوانوں کے لیے وہ ملکہ عالیہ تھی۔

آج بھی ماحول پر اس کی نڈر اور لافانی روح کی گرفت اس کا ورثہ اور اس کی علامت سہی لیکن عام آدمی سے وابستگی ایک خودساختہ ذمہ داری کے طور پر ہے۔ وہ خود بھی خالصتاً عوامی شخصیت تھی۔ وہ نہ صرف ان کے ساتھ لامحدود وقت گزارتی بلکہ وہ ان لمحوں میں بھی ان سے الگ نہ ہوتی جب وہ دیگر فرائض سرانجام دے رہی ہوتی۔ اس نے تمام شکست و ریخت میں اپنے بچوں، خاوند، خاندان حتیٰ کہ دوستوں تک کی ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھایا۔

اس کی ہنسی بھی اس کی گرمجوشی ہی کی طرح دل کی گہرائیوں تک سرایت کر جانے والی تھی۔ دوشیزاؤں جیسی کھلکھلاہٹ، ماتھے پر فکرمندی کی شکنوں کے ساتھ ہمدردی، کچھ کر گزرنے کی خواہش اور اس پر ہر وقت کمربستہ رہنا اس کا کمال تھا۔ حقائق کی تلخیوں کے باوجود وہ خوابوں ہی میں زندہ رہی۔ اس نے خواب دیکھنے کبھی ترک نہیں کیے۔ دراصل وہ انتہائی منفرد اور حیرت انگیز انسان تھی۔

بے نظیر عوام ہی کی طرح دانشوروں اور اعلیٰ شخصیات کے درمیان تو نہایت مطمئن اور پراعتماد ہوتی البتہ باتونی اور سماجی متمول طبقات میں آنے پر حیرت انگیز طور پر خود کو غیرمحفوظ اور نہایت غیرمطمئن محسوس کرتی۔ اسے ہمیشہ گمان رہا یہ طبقہ ایک تو فرد کو غیرضروری گہرائی تک دیکھنے کا آرزومند ہے، دوسرے یہ کسی کے بارے میں فیصلہ دینے میں تاخیر نہیں کرتا۔

وہ اس بات سے باخبر تھی کہ اس کی زندگی جراثیم نما عادی کہانی کاروں کے نرغے میں ہے۔ وہ سچائی کی دھول اس طرح اڑانے کے ماہر ہیں جس سے خود سچائی ریزہ ریزہ ہو جائے۔ بھٹو خاندان کی کہانی قومی سطح پر کس قدر اہم قرار دی جاتی ہے یہ اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔

بے نظیر ایک دانشور تھی، جس کی ایک جلد میں کئی ابواب اور ہر باب میں کئی کئی نظریے تھے۔ وہ تکالیف سے گزرتی ہوئی ڈان کوئیکزوٹ کی طلسماتی کہانی کا کردار تھی جو اپنے سفر کے دوران تن تنہا کئی اژدہے مار سکتا ہے۔ بے نظیر کی زندگی ہوائی چکی کے پنکھوں کی طرح گھومتے گھومتے ہی گزری جبکہ اس کی زندگی میں موجود اڑدہے بھی اصلی تھے۔

2007 کے گرما میں رات کے کھانے پر ہمارے درمیان کتابوں اور نظموں پر گفتگو شروع ہوئی۔ اس نے مجھ سے کہا ’’تم نے روسی شاعرہ اینا ایخماتوف کو پڑھا ہے، اسٹالن کے دور میں جسے اپنے بیٹے اور خاوند کے ساتھ انتہائی خوفناک الزامات سے گزرنا پڑا۔‘‘

میں نے کتاب نہیں پڑھی تھی، بہرحال میں نے اسے خریدنے کا ارادہ فوراً کر لیا گو اس کے قتل کر مجھے اسے کھولنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ پھر جب میں ایک روز محض اس کے صفحے الٹ پلٹ رہا تھا ذیل کے پیرے نے ششدر کردیا:

’’اس کا جسم کس خوفناک حد تک بدل گیا تھا

چہرہ تو گویا گل سڑ گیا تھا

میں تو اس طرح کی موت نہیں چاہتی

اس کی تاریخ طے کرنا میرے تو بس میں نہیں

لیکن مجھے دکھایا گیا ہے کہ بادل بادلوں کے ساتھ ٹکرائیں گے

بجلی کڑکے گی

اور فرشتے میری طرف بھیجے جائیں گے‘‘

کیا یہ اس کی موت کے حوالے سے کی گئی کوئی پیش گوئی تھی؟

اس نے وطن واپسی کا ارادہ کر لیا تھا، اب ہمارا احتجاج یا درخواستیں بے معنی تھیں۔ خطرات سے آگاہ ہوتے ہوئے وہ واپس آچکی تھی۔ وہ امکانات کی ان دیکھی کامیابیوں میں جھوم رہی تھی۔ 18 اکتوبر کو جلاوطنی سے واپسی پر میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ٹرک میں اس کے ساتھ تھا۔ ہجوم کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے وہ میری جانب مڑی اور کہنے لگی ’’کتنا دلکش تصور ہے میں ان لوگوں کے جذبوں کو محسوس کر سکتی ہوں۔‘‘ ایک وقفے کے بعد پھر گویا ہوئی ’’میں انہیں کبھی مایوس نہیں کروں گی۔‘‘ منشور میں تبدیلی کا آغاز پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔

چند لمحوں بعد بم دھماکے نے قومی روح کے پرخچے اڑا دیے۔ لمحہ پہلے جہاں انسانیت جھوم رہی تھی، تالیوں اور نعروں کا طوفان برپا تھا پلک جھپکنے میں وہاں جلن، ایندھن جلتے گوشت کی بو اور سیاہ لاشیں تھیں۔ چاہتوں کے نغمے آہوں اور سسکیوں میں دم توڑ گئے تھے، گویا دہشت گرد اس وقت اپنا نفرتوں بھرا گیت ہمیں سنا رہے تھے۔

یہ وقت تھا جب اسے سب چھوڑ چھاڑ کر نکل جانا چاہیے تھا۔ وہ لوٹ جانے پر آمادہ ہوتی تو اس کے لیے تمام دروازے کھلے تھے مگر بزدلی تو اس کے خمیر میں نہیں تھی۔ اسے صرف کھڑے رہنا اور لڑنا تھا، لڑنا بھی اپنی آخری سانسوں تک!

ان دنوں جب بلاول ہاؤس میں محض مخصوص افراد رات دیر گئے آنے والے دنوں کے خدشات و امکانات پر اس سے بات کیا کرتے وہ پورے اعتماد کے ساتھ بات کرتی۔ اس کے سامنے تصویر واضح ہوتی۔ اس کی آنکھیں، اس کی دھڑکن اور اس کی روح سے نکلتا نغمہ ایک مکمل مختلف پیغام دے رہا ہوتا۔

اس نے یہاں پہنچنے کا طویل سفر ایک مثبت جذبے سے کیا تھا۔ سفر کے دوران اس میں اب ایک تبدیلی واقع ہو چکی تھی۔ وہ معاملات زندگی کے وسیع تر پہلوؤں پر اپنے اعتقادات اور تصورات کا ازسرنو جائزہ لینے لگی تھی۔ ان دنوں کا جائزہ لینے پر میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں وہ واقعات کی روشنی میں ہم سے الوداعی ملاقاتیں کر رہی تھی۔

وہ جان گئی تھی کہ عالمی قوتوں اور جرنیلوں کے ساتھ ایک معاہدے کے برعکس اس کے کراچی اترتے ساتھ ہی اندرون ملک اقتدار میں موجود سیاسی قوتوں کا توازن تبدیل ہو چکا ہے۔ اسے اپنے نام لکھے والد کے اس معروف خط کے الفاظ یاد آنے لگے ’’عملیت پسندی حقیقت سہی لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سیاسی جنت عوام کے قدموں میں ہے۔‘‘ اسے فضا میں بددیانتی کی بو آنے لگی تھی مگر کمان تیر سے نکل چکا تھا۔ چنانچہ اس نے بھی وقت کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔

اس کے بعد ایک دن وہ راولپنڈی لیاقت باغ کے لیے نکلی، جہاں سے وہ جگہ کوئی زیادہ دور نہیں تھی جس جگہ 28 برس پہلے اس کے والد کو پھانسی دی گئی تھی۔ اس نے پرجوش مجمع کی جانب مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔ وہ تمتماتے چہرے کے ساتھ فاتح ملکہ دکھائی دے رہی تھی۔ حالانکہ سازشی ماحول کے اندر قتل کی صورت میں ایک سانحہ پہلے موجود تھا۔

اس روز بینظیر نے وہ اسٹیج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا جسے وہ کبھی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ بے نظیر کو دراصل حالات نے ایسی گندی اور آلودہ سیاست میں دھکیلا جہاں اسے پاکستانی سیاست کے محلات اور گٹروں میں بیک وقت پلنے والے بدقماشوں کا سامنا رہا۔ اسے بادشاہوں اور ملکاؤں کے ساتھ میل ملاقاتوں سے اقتدار اور ایوانوں تک میں چلنے کا سلیقہ دیا گیا۔ تقدیر دیکھیے اس کی زندگی اسے ایسی ناپسندیدہ دنیا میں لے گئی جہاں اسے مہم جوؤں اور موقع پرستوں کے ساتھ چلنا پڑا۔ اسے مجبور کیا گیا وہ ان کے اسلوب سیکھے اور ان سے ہم آہنگی پیدا کرے جو اس کی روح کے منافی تھا۔

یہ اس کی فطرت سے متصادم تھا اس نے اسے چیلنج کے طور پر قبول کیا۔ اس نے ایذارساں ’’بزرگوں‘‘، آستین کے سانپوں اور ریاستی تحفظ کے چار اطراف پھیلے ہوئے ذمہ داروں کا بیک وقت مقابلہ کیا۔ اس نے اپنی ایذا رساں مسافت میں ان سب کو باری باری بے نقاب کر کے کیفرکردار تک پہنچایا ہی مگر اس سے پہلے کہ ان ان اعتماد فروشوں کے خلاف فتح کا آخری نقارہ بجتا وہ اس جنگ میں بہادری سے لڑتی ہوئی شہید ہوگئی۔

اس کے قتل سے اس کی توقعات کے پورے ہونے میں کس قدر تیزی واقع ہوتی ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہو مگر اس کے خون نے اس وطن کی مٹی کو جس طرح سینچا ہے اسے اس نے اپنی اس لیجنڈ ’’ماروی‘‘ سے زیادہ طاقتور کر دیا ہے جس کا تذکرہ اس نے اپنی 50ویں سالگرہ پر کہی گئی ایک نظم میں اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کیا تھا۔

وہ کس طرح یاد کیا جانا پسند کرتی تھی، ایک جنگجو شہزادی جو آمروں کے ساتھ لڑی اور فاتح ہوئی، بہترین اصلاح پسند اور نجات دہندہ، مسیحا، ایسی شاعرہ جس نے دل دہلا دینے والی شاعری کی ہو، ایسی جون آف آرک جس نے استحصال کے خلاف جماعت کو علامت بنا دیا، پھول جس کی مہک کبھی کم پڑنے والی نہ ہو۔

بے نظیر دراصل یہ سب ہی کچھ تھی لیکن سب سے اہم جو اسے ہونا چاہیے تھا وہ تھا اس کا ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونا اور یہ اس نے ثابت کیا۔ ہم سب کے لیے اور خود اپنے کنبے کے لیے وہ ایک ایسا گھنا سایہ دار درخت تھی جس سے اب ہمیں محروم کر دیا گیا ہے۔ وقت کی لہر جب کنارے نمایاں کرے گی تو لوگ اسے اس کی مہربانیوں اور محبتوں سے یاد کریں گے۔ وہ وقت سے پہلے ہی ہم سے جدا ہو گئی، ایک ادھ گایا نغمہ، ایک نامکمل نظم، ایک ناکمل زندگی، ایک ایسی زندگی جو مکمل بیان ہی نہ کی جا سکی۔

یہی پاکستان کی شہزادی بے نظیر کی کہانی ہے۔

The post بے نظیر بھٹو، ایک جنگجو شہزادی appeared first on ایکسپریس اردو.

اصل غدار

$
0
0

آج کل میڈیا غداری ، سزائے موت اور ڈی چوک سے بھرا ہوا ہے چونکہ اس غداری کا تعلق ایک فرد اور حکومت سے ہے لہٰذا ہم اس جھنجھٹ میں نہیں پڑیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس غداری کا تعلق براہ راست عوام سے نہیں، لہٰذا یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ہم چونکہ عوام کی بات کرتے ہیں اور عوامی مفادات کی بات کرتے ہیں لہٰذا آج کا کالم اسی تناظر میں لکھا جا رہا ہے۔ پاکستان 22کروڑ عوام کا ایک بڑا ملک ہے اور ’’خوش قسمتی‘‘ سے ہمارے ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہے اور جمہوریت کا اصل مطلب عوامی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ اس تناظر میں جب ہم ہماری جمہوریت کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔

جمہوریت کا تصور کسی نے بھی دیا ہو ، جمہوریت کا مطلب عوام کی خدمت ، عوامی مسائل کا حل اور عوام کے معیار زندگی میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ جب ہم اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت عوامی جمہوریت نہیں اشرافیائی جمہوریت ہے یعنی بالادست طبقات اس جمہوریت کے مالک ہیں اور عوام صرف تقریروں اور بیانوں میں نظر آتے ہیں۔ اس جمہوریت کے تقدس کی قسمیں کھائی جاتی ہیں اور جمہوریت کو بچانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے عہد کیے جاتے ہیں۔ لیکن عملاً اس جمہوریت میں عوام سے قربانیاں ہی لی جاتی ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم ہماری جمہوریت کو عوام کی قربان گاہ کہیں تو زیادہ مبالغہ نہ ہو گا۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بار بار فوجی حکومتیں بھی آتی رہیں ، فوجی حکومتوں کو خواص پسند نہیں کرتے عوام اس وقت پسند کرتے ہیں جب انھیں کچھ ریلیف مل رہا ہو۔ چونکہ بعض جمہوریت کے بے قدروں کی طرف سے ہماری جمہوریت کو لوٹ مار کا نظام کہا جاتا ہے اور اس حوالے سے سابقہ حکومتوں کو الزام دیا جاتا ہے کہ ان کا سارا وقت لوٹ مار میں ہی گزرا ہے ، اس حوالے سے میڈیا میں بڑی تفصیل سے خبریں آتی رہی ہیں اور عوام کو اس حوالے سے جمہوریت سے بڑی محبت ہو گئی ہے اور وہ جمہوری سیاستدانوں کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کامیاب رہی ، جس کے سربراہ عمران خان ہیں۔ عمران خان کا تعلق روایتی اشرافیہ سے نہیں بلکہ مڈل کلاس سے ہے۔ 72سال کی تاریخ میں پہلی بار ایک حقیقی مڈل کلاس جماعت برسر اقتدار آئی ہے ۔ اس ’’سانحے‘‘ سے اشرافیہ اس قدر مشتعل ہے کہ عمران خان کی مستقل تضحیک کرتی رہتی ہے۔ عمران حکومت کو گرانے کے لیے بار بار عوام سے رجوع کیا گیا لیکن عوام ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

عوام کے اس رویے سے ہماری جمہوری اشرافیہ بہت مایوس ہے اور علاج وغیرہ کے بہانے لندن امریکا وغیرہ میں تفریح کر رہی ہے۔ ہمارے سابق وزیر اعظم نواز شریف دل کی بہت ساری بیماریوں میں مبتلا ہیں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ 1999ء میں ایک فوجی جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ نواز شریف اور ان کے ہم نوا پرویز مشرف سے سخت ناراض ہیں۔ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 یعنی بغاوت کے الزام میں عرصہ دراز سے کیس رجسٹر ہے لیکن مشرف کسی نہ کسی طرح گرفتاری سے بچتے رہے لیکن کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، آج کل اسپتال میں ہیں۔

محترم عدلیہ نے مشرف کو سزائے موت سنا دی ہے اور یہ دلچسپ حکم بھی دیا ہے کہ اگر پرویز مشرف گرفتاری سے پہلے انتقال کر جائے تو اس کی لاش کو ڈی چوک پر تین دن لٹکایا جائے۔ اس آرڈر کی ملک کے اندر اور دنیا بھر میں بڑی دھوم مچی ہوئی ہے کیونکہ یہ آرڈر جمہوری تاریخ میں ایک اچھوتی مثال ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس آرڈر پر عملدرآمد ہو یا نہ ہو حکومتوں کا تختہ الٹنے والے بہت الرٹ ہو جائیں گے اور تختے الٹنے کی حماقت سے توبہ کر لیں گے۔

جمہوریت کسی پاکستانی یا مسلمان کی ایجاد نہیں ہے کہ ہمیں راس آئے جن قوموں نے جمہوریت ایجاد کی وہ اسے لشٹم پشٹم چلا رہے ہیں لیکن پسماندہ ملک کے عوام اس جمہوریت سے سخت پریشان ہیں مغربی ملکوں میں جمہوریت کی گاڑی کسی نہ کسی طرح چل رہی ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں چونکہ جمہوریت ہے ہی نہیں اشرافیائی مفاد کی بات ہے لہٰذا یہ ملک جمہوریت کے فوائد سے محروم ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان جمہوریت کے حوالے سے بونگے ہی ثابت ہو رہے ہیں۔

سیاستدانوں کی جمہوری حکومتیں اور فوجی جنرلوں کی آمرانہ حکومتوں میں بڑا فرق ہے۔ سیاستدانوں کی حکومتیں عوامی ہوتی ہیں اور فوجی جنرلوں کی حکومتیں آمرانہ ہوتی ہیں۔ سیاستدانوں کی طاقت عوام ہوتے ہیں اور فوجی حکومتوں کی طاقت طاقت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ذرا ابہام ہے کہ سیاستدانوں کی حکومتیں عوام کے لیے بہتر ہیں یا فوجی حکومتوں میں عوام زیادہ خوش رہتے ہیں۔ تازہ مثال نواز حکومت ہے۔ جمہوری حکومتوں کی کارکردگی اور عوام کی حمایت، فوجی حکومتوں کی کارکردگی اور عوام کی حمایت۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مشرف حکومت اور نواز حکومت کی کارکردگی کا کسی غیر جانبدار کمیٹی سے جائزہ لیا جائے دودھ اور پانی کا اندازہ ہو جائے گا۔

The post اصل غدار appeared first on ایکسپریس اردو.

مریم اورنگزیب کی وزیراعظم کے میڈیا کومافیا کہنے کے بیان کی شدید مذمت

$
0
0

 اسلام آباد: مریم اورنگزیب نے وزیراعظم کے میڈیا کو مافیا کہنے کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو مافیا کہنا شرمناک، افسوسناک اورقابل مذمت ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے وزیراعظم کے میڈیا کومافیا کہنے کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نالائق، نااہل اورسلیکٹڈ وزیراعظم کا میڈیا کو مافیا کہنا شرمناک، افسوسناک اور قابل مذمت ہے، عمران صاحب، فارن فنڈنگ سے منی لانڈرنگ کرنے والا مافیا دوسروں کو مافیا کہ رہا ہے ، شرم آنی چاہئیے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ عمران صاحب اپوزیشن کو جیلوں میں سزائے موت کی چکیوں میں بند کرنے والے میڈیا کو مافیا کہہ رہے ہیں، ؟ پارلیمنٹ، روزگار، کاروبار اورروٹی بند کرنے والے میڈیا کو مافیا کہہ رہے ہیں؟ ہر مخالف آواز کو سزائے موت کی چکیوں میں بند کرنے والے میڈیا کو مافیا کہہ رہے ہیں، معیشت تباہ کرنے والے میڈیا کو مافیا کہہ رہے ہیں ؟ چوروں اورڈاکووں کوساتھ بٹھا کرملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے والے میڈیا کومافیا کہہ رہے ہیں؟

مریم اورنگزیب نے کہا کہ چلتے ٹاک شوزبند اورایڈیٹوریلز غائب کروانے والے میڈیا کو مافیا کہہ رہے ہیں یا عوام کا ووٹ چوری کرنے والے میڈیا کومافیا کہہ رہے ہیں۔

The post مریم اورنگزیب کی وزیراعظم کے میڈیا کومافیا کہنے کے بیان کی شدید مذمت appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 46652 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>