Quantcast
Channel: The Express News
Viewing all 46672 articles
Browse latest View live

کیا یہ قائد کا پاکستان ہے؟

$
0
0

آج بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا 144واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔انھوں نے قیام پاکستان کے لیے جیسا مقدمہ لڑا ویسا دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی نے نہ لڑا۔ 11اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا کہ ’’آپ کا تعلق کسی مذہب سے ہوسکتا ہے۔کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدہ کے ساتھ ہوسکتا ہے،یہ صرف اور صرف آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ ریاستِ پاکستان کا ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

یقین جانیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے درمیان تمام تفریقات کا خاتمہ ہو جائے گا، اکثریت اوراقلیت کی تقسیم بے معنی ہو جائے گی۔ میرے خیال میں عقیدے ،رنگ و نسل کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق بھارت کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہوچکے ہوتے۔ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا۔

آپ آزاد ہیں ،آپ آزاد ہیں ، آپ پاکستانی ریاست کے آزاد شہری ہیں۔آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔آپ کو اپنی مساجد میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔پاکستانی ریاست کے تمام شہریوں کو ان کے مذاہب اور عقیدوں کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔میں ایسا مذہبی بنیادوں پر نہیں کہہ رہا ہوں۔کیونکہ مذہب تو ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے۔لیکن ہم سب لوگوں کے درمیان سیاسی طور پر مذہب اور عقائد کا فرق ختم ہو جانا چاہیے۔‘‘

پھر 1946 میں رائٹرز کے نمایندے ڈول کیمبل کو انٹرویو دیتے ہوئے قائد اعظم کا کہنا تھا کہ ’’ نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں اختیارات کا سرچشمہ عوام ہوںگے ۔نئی ریاست کے ہر شہری مذہب ،ذات یا عقیدے کی بنا کسی امتیاز کے یکساں حقوق ہوں  گے۔‘‘ان تقاریر کا ایک ایک لفظ پڑھ یا سن لیں اور سوچیں کہ ہم کس قدر ’’بے وفا ‘‘نکلے، ہم تو اس متن کے ایک جملے پر بھی پورا نہ اُتر سکے۔ خیر ہمیں کم از کم یہ تو علم ہونا چاہیے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف ایک روشن خیال سیاستدان تھے جو جمہوری اقدار، آئین اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے بلکہ وہ آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کے زبر دست حامی تھے۔لیکن ابھی تو انتقال کو ایک سال نہیں گزرا تھا کہ ان کی مذکورہ بالاتقریر(11اگست 1947کو آئین ساز اسمبلی کی تقریر )کو متنازع بنا دیا گیا۔

بہت سی سازشیں ہوئیں، ایک سازش کے نتیجے میں قائد کے دست راست اور پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو لیاقت باغ (نام بعد میں رکھا گیا) راولپنڈی میں جلسے کے دوران شہید کردیا گیا۔ انھیں شہید کرنا والا افغان باشندہ تھا۔یہ سازش آج تک بے نقاب نہیں ہو سکی کیونکہ بات اندر تک پہنچ گئی تھی لہٰذا کیس دبا دیا گیا۔ بعد میں جس طرح خواجہ ناظم الدین کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پھر وہی ہوا جس کا شاید تصور بھی قائد کے پاکستان میں نہیں تھا، یعنی مارشل لاء۔ پھر دوسرا اور پھر تیسرا مارشل لاء لگ گیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سیاستدانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہو گئی جنھیں آمر نے پیدا کیا ہوا۔

خیر یہ تو سیاسی باتیں تھیں، پاکستان میں سیاست اور کرکٹ دونوںکے مستقبل کے بارے میں بڑے سے بڑا تجزیہ کار بھی غلط ثابت ہوتا آیا ہے۔ مگر یہ کیا؟ ہم نے اپنے قومی پرچم جس میں سفید سبز رنگ ہے کی بے حرمتی کر دی!بلکہ کر رہے ہیں، قائد اعظم نے 11اگست والی تقریر کے بعد ہونے والے اجلاس ہی میں جس قومی پرچم کی منظور ی دی تھی اور کہا تھا کہ سفید رنگ اقلیتوں کی آزادی کی علامت ہے۔ لگتا ہے آج ہم نے اس خیال کو ہی غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ اس لیے اگر اقلیتوں کے حوالے دیکھا جائے تو قائداعظم کے پاکستان اور آج کے پاکستان میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

الغرض قائد نے جس  پاکستان کا خواب دیکھا تھا آج سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ آپ ؒ پاکستان کے قیام کے بعد محض 13ماہ زندہ رہے۔ ان کی زندگی میں تو ’’پاکستان‘‘ تمام گروہوں کو شامل کرکے چلنے کی پالیسی پر گامزن رہا، مگر آج ہم کیا کررہے ہیں، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ ملک میں تین دفعہ مارشل لاء لگا۔ مگر دھڑلے سے لگایا گیا اور آج بھی ویسے ہی حالات پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

پھر آپ یہ دیکھیں کہ قائد کے پاکستان میں چائے بسکٹ کا خرچ بھی وزراء جیب سے ادا کرتے تھے، مگر آج وزراء ہاؤسز، گورنر ہاؤسز، صدارتی محل اور بیشتر کیمپ آفسز کا سالانہ خرچ ہی اربوں روپے بنتا ہے۔ قائد کے پاکستان میں پروٹوکول کے نام پر عوام کو تنگ کرنا ،عوام کی تضحیک سمجھا جاتا تھا جیسے ایک مرتبہ گل حسن نے آپ کی گاڑی گزارنے کے لیے ریلوے کا پھاٹک کھلوا دیا تھا، آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، پھاٹک بند کرانے کا حکم دیا اور فرمایا ’’اگر میں ہی قانون کی پابندی نہیں کروں گا، تو پھر کون کرے گا؟‘‘ قائد کے پاکستان میں سفارشی کلچر نہیں تھا ، زیارت ہی میں ایک نرس نے تبادلے کی سفارش کی مگر آپ نے اداس لہجے میں جواب دیا ’’سوری بیٹی! یہ محکمہ صحت کا کام ہے گورنر جنرل کا نہیں‘‘۔قائد کے پاکستان میں اداروں کا احترام بھی کیا جاتا تھا، ایک واقعہ میں آپ نے وزارتِ خزانہ سے تحریری معذرت کی اور اپنا حکم منسوخ کر دیا۔

الغرض قائد کے 13ماہ ہمارے 73سالوں پر غالب نظر آتے ہیں، آج ہم سب Look Busy Do Nothing کے محاورے پر چل رہے ہیں ، ہم مذہبی طور پر خود کو سب سے زیادہ مذہبی کہتے ہیں مگر مذہبی ہیں نہیں، ہم قانون کی پاسداری کی بات کرتے ہیں، لیکن یہ محض ایک دکھاوا ہے۔ ہم ہیومن رائٹس کی بات کرتے ہیں لیکن کسی کو اُس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ، ہم بات بات پر کہتے ہیں کہ ملاوٹ نہ کرو، اس حوالے سے قرآن و حدیث کی باتیں کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ اب صرف نوٹ والا قائد باقی ہے اور وہ اگر گندا ہو جائے تو دکان دار بھی نہیں لیتا اور خریدار بھی نہیں۔

سفر لمبا ہے کم سے کم ابتدا اس سے کر لیجیے کہ آج جب قوم اور ملک ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے تو ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ قائد اعظم کے پیش نظر پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھااور ان کے تصورات کے مطابق پاکستان کا نظام اور پاکستان کی قومی زندگی کی اہمیت کیا ہونی چاہیے تھی؟ہم سب کو اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی تعمیر وترقی اور استحکام کے لیے اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنا ہوگا۔

یہی راستہ ہے قائداعظم کے نظریے اور تصورات کو عملی جامہ پہنانے کا،بات اقلیتوں کی نہیں ہے، بات ہے مساوی حقوق کی ،بات ہے مساوی قانون کی، جو قانون ایک عام شہری کے لیے بنایا گیا ،کیا اس پر عمل کرنا صدر پاکستان کی توہین ہے؟ ہم سب آج سندھی، بلوچی، پنجابی اور پختون کا پاکستان علیحدہ کرنے کی کوشش میں ہیں جب کہ ضرورت انسانیت اور پاکستان کا حق ادا کرنے کی ہے۔بابائے قوم کا مقصد اس ملک کو قید خانہ بنانا نہیں تھا، آزادی کے باوجود ہم مذہب اور سیاست کے پنجرے میں قید ہیںجہاں سے ہمیں آزاد ہو کر پاکستان کو بدلنا ہوگا!

The post کیا یہ قائد کا پاکستان ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


مسلم اُمہ کا پاکستان

$
0
0

موجودہ دور میں کافر و مشرک قوموں کی حکمرانی ہے، واقعہ یہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ملت کی جو شان ہے، اس شان میں وہ کہیں بھی موجود نہیں ہیں ۔ اگر کہیں ہیں تو وہ بھی حقیقت میں ان ہی کے زیر سایہ محتاج ہیں اور وہ دعوت بھی دیتے ہیں کہ آپ آیئے تو ہم آپ کی خدمت کرنے کے لیے جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے تیار ہیں ۔

ملاحدہ آپ کو جو طعنہ دیتے ہیں اس لیے کہ قرآن کی لاج آپ نے نہیں رکھی تب طعنہ سننا ہی پڑے گا ۔ لیکن اگر آپ لاج رکھنا چاہتے ہیں تو جماعتی حیثیت سے اور افرادی حیثیت سے، دونوں حیثیتوں سے مسلم بنئے۔ انفرادی حیثیت سے جو مسلم بنیں گے وہی اجتماعی حیثیت سے مسلم بن سکتے ہیں اور اگر انفرادی حیثیت سے آپ تیار نہ ہوئے تو آپ کی کوئی جماعت مسلمہ نہیں بن سکتی ۔ جب ملت مسلمہ بن جائے گی تب چیلنج وہ کر سکتی ہے ، سب سے وہ پنجہ آ زمائی کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلم ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی، ٹھیک ہے۔

پیغمبر اسلام نے جب کفار مکہ پر اسلام پیش کیا اور اپنی دعوت پر اڑے رہے تو کفار مکہ نے ان سے سودا بازی کرنے کی کوشش کی ۔ کہا گیا کہ ان کے کاروبار میں مداخلت نہ کی جائے ، ان کے دنیاوی جاہ و مرتبہ اور تفریق کو برقرار رہنے دیا جائے ۔ ان کی اخلاقی زندگی کو پہلے کی طرح آزاد رکھاجائے تو وہ بت پرستی چھوڑ کر محمدﷺ اور کعبہ کے خدا کو ایک مان لیتے ہیں اور انھیں پیغمبر تسلیم کر لیتے ہیں لیکن حضورﷺ نے جواب دیا کہ اس دنیا کو درست کرنے کے لیے تو وہ مبعوث کیے گئے ہیں ۔ یہی تو وہ انقلاب ہے جس کو لانے کے لیے وہ ان کفار کا ہر ستم سہنے پر تیار ہیں ۔

قرآن پاک اور آنحضرتﷺ کی سیرت پاک اس انقلاب کی ایک عملی تصویر ہے ۔ آج مسلم دنیا میں ہمارا طرز عمل اور عام زندگی کا رویہ عملاً یہی ہے جو حضور ﷺ کے زمانے میں اسلام کے دشمنوں کا تھا کیونکہ ہم بھی اسلام کو اپنی دنیاوی زندگی میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتے ۔ بس فرق اتنا ہے کہ ہم زبان سے توحید اور رسالت کا ا قرار کرتے ہیں اور یوں امید ہے کہ ہم سزا کاٹ لینے کے بعد شاید جنت میں چلے جائیں کیونکہ ہم فنی اعتبار سے مسلمان ہیں اور یہ بھی ہماری مغفرت کا شاید ایک سبب بن جائے کہ ہمارے اندر جو کچھ گروہ ایسے موجود ہیں جو اس حقیقی اسلام کے نفاذ کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں حتیٰ کہ جان اور مال بھی قربان کر رہے ہیں۔

ہمارے دوست مسلمان ملک ملائیشیاء کے بزرگ حکمران جناب مہاتیر محمد نے مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے لیے انھوں نے چیدہ چیدہ ملکوں کے سربراہوں کو دعوت دی جس میں پاکستان بھی شامل تھا ۔ پاکستان کا مسلم دنیا میں ایک مقام ہے، وہ الگ بات ہے کہ ہم نے اپنے اس علیحدہ تشخص کی کبھی قدر نہیں کی  حالانکہ جب ہم نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو اسلامی دنیا اس بات پر ناراض ہو گئی تھی کہ اس بم کو پاکستانی بم  کیوں کہا جا رہا ہے، یہ امت مسلمہ کا بم ہے لیکن پاکستان نے مسلم دنیا میںاپنی اس امتیازی حیثیت کو کبھی کیش کرانے کی کوشش نہیں کی بلکہ خدمت گزاری والا رویہ رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم آج مسلمانوں کے اکٹھ میں شرکت بھی نہ کر سکے ۔

اس کی وجوہات ہم سب کے سامنے ہیں اور ہمارے ترک دوست رجب طیب اردوان نے اسٹیج سے ان کا اعلان بھی کیا ہے کہ پاکستان کی مسلم اکٹھ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سعودی دباؤ ہے۔ پاکستان سعودی دباؤ برداشت نہیں کر سکا اور اس کے حکمران عمران خان نے اپنا نمایندہ بھیجنے سے بھی معذرت کر لی ہے ۔ گو کہ اس بیان کے بعد سعودی حکومت کے پاکستان میں سفیر نے معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہی ہے جس سے مسلم دنیا آگا ہ ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ ملائیشیاکی ترقی کا کیا راز ہے اور ترکوںنے کتنی جدو جہد کے بعد اپنے ملک کو معاشی طور پر سنبھالا ہے ۔

ابھی کل کی بات ہے کہ ترک کرنسی لیرا کمزور ترین کرنسی تھی اور ملائیشیا کی معیشت کا عالمی ساہوکار اداروں نے دیوالیہ نکال دیا تھا لیکن مہاتیر محمد ڈٹ گئے اور انھوں نے کسی بیرونی امدا د کے بغیر اپنے ملک کو اپنے وسائل سے ہی پاؤں پر کھڑا کر دیا اور دنیا کو یہ بتا دیا کہ اگر حکمرانوں میں غیرت کی کوئی چھوٹی موٹی رمق باقی ہو تو ملک میں کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہی حال تر کوں کا ہے جو یورپ کا حصہ ہونے کے باجود غیر مسلم طاقتیں ان کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے انکاری ہیں لیکن اس کے باوجود ترکی اس وقت دنیا کی ایک بڑی مارکیٹ بن چکا ہے اور یہ سب اس کی لیڈر شپ کا کمال ہے ،کسی نے باہر سے آ کر ان کی مدد نہیں بلکہ انھوں نے جو کچھ کیا ہے اپنے بل بوتے پر کیا ہے ۔

اخبار نویس ہونے کے باوجود مجھے معلوم نہیں کہ ہمارے حکمرانوں کے فیصلے کو ن کرتا ہے اور ان کی مشاورت کا اعزاز کون رکھتا ہے۔ ایک دو مشیروں کا ذکر سنتے رہتے ہیں ۔ یہ عین ممکن ہے کہ اب سب کا ذکر برائے نام  ہوتا ہو اور فیصلے کہیں اور ہوتے ہوں ۔ بہر حال ہمارا حکمران ایک بے داغ ماضی رکھتا ہے، وہ حیرت انگیز حد تک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں، دنیا ان کی بات سنتی ہے لیکن ان کے ساتھ بد قسمتی یہ ہے کہ وہ سیاستدان نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا قابل مشیر ان کے آس پاس نظر آتا ہے جو ان کو جہانبانی کے اصل رموز سے آگاہ کرے ۔

کیونکہ جس شخص کی بات کو دنیا سننا چاہتی ہے اس شخص کو اپنی باتوں کو وزنی پلڑے میں ڈالنے کے لیے سیاسی داؤ پیچ کی ضرورت بھی ہوتی ہے ۔ مسلم اکٹھ میں شرکت نہ کرنے کا پاکستان کو کتنا نقصان ہوا اس کا علم تو بعد میں ہو گا لیکن عمران خان کی عدم شرکت نے ان کی انقلابی باتوں اور ان کی شخصیت کو ٹھیس ضرور پہنچائی ہے ۔ ہمیں ایک ایسی خارجہ پالیسی کی وضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں بدلتی دنیا کی سیاسی ضروریات کے ساتھ ساتھ مضبوط معیشت کا بھی عمل دخل ہو کیونکہ دنیا میں ہماری حیثیت اس وقت ایسے بھیک منگے کی ہے جس کو ہر وقت ڈالروں اور ریالوں کی ضرورت ہے ۔

ہمیں خوش فہمیوں اور دوستیوں کو نبھانے کے ساتھ پاکستان کو مسلم اُمہ کاپاکستان بنانے کے لیے اپنی ترجیحات وضع کر لینی چاہئیں، اپنی ساکھ کی فکر کرنی چاہیے ۔ مسلم دنیا میں ایک باوقار اور طاقت ور ملک کے طور پر ہمیں اپنی ذمے داریاں ادا کرنی ہیں تا کہ ہم حقیقی معنوں میں مسلم اُمہ کا پاکستان کہلا سکیں۔

The post مسلم اُمہ کا پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.

میزان کیاہے؟

$
0
0

پچھلے کئی کالموں میں ہم نے ازواج یامنفی مثبت جوڑوں کے بارے میں بات کی ہے کہ پوری کائنات زوج کے ان دو پہیوں پر چل رہی ہے اور اگر ان دو پہیوں میں سے کوئی پہیہ چھوٹا یا بڑا ہو جائے تو گاڑی نہیں چلے گی یا غلط چلے گی ۔

لیکن ان دو پہیوں کے درمیان ایک ’’درا‘‘ بھی ہوتا ہے جو ان دونوں کو ملاتا ہے۔اس ’’در ے‘‘ کو مشہور یونانی عالم ’’فیثاغورث‘‘ نے ’’لیور‘‘ کا نام دیا ہے اور قرآن نے اسے ’’میزان ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے لیکن ہمارے ہاں حسب دستور، حسب معمول، حسب عادت بلکہ حسب ’’پاکستانیت‘‘ اس لفظ کا بھی صرف ’’قشر‘‘ لے لیا گیا ہے اور ’’مغز‘‘ پھینک دیا گیا ہے جب کہ ’’قشر‘‘ صرف ’’مغز‘‘ کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے چنانچہ ’’میزان‘‘ کو اجناس اور باٹ ترازو سمجھ لیا گیا ہے جب کہ میزان میں اجناس کے علاوہ بھی بہت کچھ شامل ہے مثلاً ہم آٹے یا ترکاری میں جو نمک ڈالتے ہیں وہ تو آٹے اور ترکاری سے جسمانی یا ترازو کے باٹوں کے حساب سے بہت کم ہوتا ہے اگر ترازو اور باٹوں سے تول کر آٹے اور ترکاری کا ہم وزن نمک ڈالا جائے تو کیا وہ کھانا ’’میزان ‘‘ پر ہو گا۔باٹ اور ترازو تو انسانی ایجادات ہیں جو آج باٹوں اور ترازو سے بھی بڑھ کر الیکٹرانک شکل بھی اختیار کر چکے ہیں۔

’’میزان‘‘ کا مطلب اجناس کے تول مول اور مقدار تک محدود نہیں بلکہ ’’کام‘‘ کے لحاظ سے میزان کاتعین کیا جاتا ہے جس طرح ہم آٹے ترکاری میں نمک یا چائے شربت میں شیرینی کی شکل میں دیکھتے ہیں یا تبادلہ سکوں اور اجناس کی شکل میں دیکھتے ہیں۔آج سے کچھ عرصہ پہلے بلکہ اب بھی دیہات میں کہیں کہیں ’’تبادلے‘‘ کا یہ طریقہ رائج تھا کہ گلی کوچوں میں پھرنے والے ’’پھیری گر‘‘ ایک تول، دو تول اور تین تول کا ’’نظام تبادلہ ‘‘ اپنائے ہوئے تھے ۔ مثلاً گندم کے بدلے میں تین تول ، مکئی کے بدلے میں دو تول اور جو کے بدلے میں ایک تول ، سبزی یا پھل دیے جاتے تھے۔

اناج کو ایک پلڑے میں رکھ کر متعلقہ سبزی یا پھل کو دو دو یا تین بار تولا جاتا تھا۔کچھ اور چیزیں بادام ، اخروٹ، چلغوزے وغیرہ میں ان چیزوں کے ساتھ اجناس دو دو تین تین بار تولے جاتے تھے، ترازو اور باٹوں کے حساب سے تو یہ توازن اور میزان نہیں تھا لیکن ’’قیمت‘‘ کے حساب سے میزان قائم کیا جاتا تھا۔ اور نہ ہی میزان صرف ترازو باٹوں یا مادی وزن کے حساب سے ہوتا ہے۔ یہی وہ ’’لیور‘‘ اور میزان ہے جو دو مقابل کی چیزوں میں توازن لاتا ہے اور کائنات کے تمام ازواج میں بھی یہ نظام توازن موجود رہتا ہے اور رہنا چاہیے۔

منفی اور مثبت کے درمیان اتصال، یکجائی  اور عمل کا سارا دار و مدار اسی میزان پر ہے جو منفی و مثبت ۔ ایک پلڑے اور دوسرے پلڑے کے درمیان ہوتا ہے، چاہے یہ کتنا ہی کم اور غیر محسوس کیوں نہ ہو لیکن ہوتا ضرور ہے کہ اس کے بغیر ازواج اور منفی و مثبت کا ’’ملن‘‘  ممکن نہیں اور منفی و مثبت کے ملن کے بغیر کوئی ’’کام‘‘ ممکن نہیں۔’’پیدائش‘‘ بھی ایک ’’کام‘‘ ہے۔ اگر ہزار ’’نر‘‘ موجود ہوں اور ناری نہ ہو یا نر ہی نر ہوں مثبت ہی مثبت ہوں تو وہ کتنے ہی مکمل طاقت ور کیوں نہ ہوں اور کتنا ہی زور نہ لگا لیں، پیدائش یاکام ممکن نہیں ہے، کسی بھی پیدائش یا کام کے لیے منفی و مثبت کا ملن ضروری ہے اور دونوں کے درمیان ’’ملن‘‘ کے لیے توازن کا یہ نقطہ یا میزان کی ایک لکیر ضروری ہے۔

مثال کے طور پر بگ بینگ ہوتا ہے جو ارتکاز و انتشار کے زوج سے ہوتا ہے لیکن ارتکاز کی آخری حد انتشار کی پہلی حد ہوتی ہے جہاں پہنچ کر ’’دھماکا‘‘ ہوتا ہے۔ یہ اولین یاآخرین لمحہ اتنا باریک ہے کہ طبیعات والے اس تک پہنچنے اورجاننے کے لیے’’جتن‘‘ کر رہے ہیں کہ سوئٹرزلینڈ کی وہ مشین بھی ایک ’’جتن‘‘ ہے ۔اسے یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم ایک پتھر کو اوپر پھینکتے ہیں یاکسی بھی چیز کو، وہ چیز اوپر جاتی ہے اور طاقت یافورس ختم ہوتی ہے تو پھرنیچے گرنے لگتی ہے لیکن اوپر جانے اور نیچے آنے کے درمیان’’ٹھہراؤ‘‘ کی وہ حالت بھی ہوتی ہے، جب پتھر ، وہ چیز نہ اوپر جا رہی ہوتی ہے نہ نیچے آ رہی ہوتی ہے جو نہ ’’یہ‘‘ ہوتی ہے نہ ’’وہ‘‘ ہوتی ہے  یا یہ بھی ہوتی ہے اور وہ بھی ہوتی ہے ، یہی وہ ’’میزان‘‘ ہے جسے قائم رکھنے کے لیے کہا گیا ہے۔

ہر منفی اور مثبت کے درمیان میزان اور ’’میزان‘‘ کی بنیاد جسم یا حجم یا وزن نہیں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مرد باہر پھرتا ہے، محنت کرتا ہے، تگ و دو کرتا ہے تا کہ اپنے اہل و عیال کو لا کر دے دے، بظاہر یہ بڑا کام ہے لیکن حقیقت میں اس کا یہ سارا کام ’’عورت‘‘ کے گھر اور بچوںکے پالن پوسن کے برابر ہوتا ہے۔

ازواج کے درمیان میزان کے جس نقطے یا لکیر کی ہم بات کر رہے ہیں وہی لکیر یا نقطہ ہی توازن اور میزان قائم رکھتا ہے اور اگر کسی بھی زوج کے درمیان یہ میزان یا توازن قائم نہ رہے تو پھر اس زوج سے پیدا ہونے والے سارے زوج اور کام بگڑ کر غیر متوازن ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہم حاکم و محکوم، حکمرانیہ و عوامیہ یا پندرہ فی صد اور پچاسی فی صد کے زوج میں ’’حقوق و فرائض‘‘ کے درمیان عدم  توازن کا نتیجہ معاشرے اور نظام کے ہر ہر پہلو اور ازواج میں دیکھ رہے ہیں کہ ہر ہر زوج اپنا اپنا کام صحیح نہیں کر رہا ہے اور جب زوج اپنا ’’کام‘‘ صحیح نہ کر رہا ہو تو اس سے ’’سنوار‘‘ کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔

اس بگاڑ اور عدم توازن ہی نے عورت کو مرد کاکام کرنے پر مجبورکیا ہوا ہے، اس بگاڑ ہی نے فرد کو چور، مجرم اور منشیات کا عادی بنایا ہوا ہے اور اس کی سوچ کو اپنے تک محدود کر دیا ہے۔ اسی لیے،کہا گیا ہے کہ ’’ازواج‘‘ پر غور کرو اور میزان کو مت بگاڑو۔ معاشرے اور نظام کی عمارت کو کچی ٹوٹی پھوٹی اور ٹیڑھی ’’اینٹیں‘‘ مت دو۔ ورنہ۔۔

’’تا ثریا می رود دیوار کج‘‘

The post میزان کیاہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

دل فریب نعروں کے دن گزر چکے

$
0
0

کوالالمپور میں ایک نہایت اہم سربراہ اجلاس کا انعقاد ہوا۔ اس سربراہی اجلاس میں دنیا کے کئی مسلم ممالک نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں مسلم اکثریتی ملکوں کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش مسائل پر مشاورت کی گئی۔

ان میں اسلامو فوبیا اور غربت سب سے اہم مسئلے تھے۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اس سربراہی اجلاس کی صدارت کی۔ اس میں ایرانی صدر حسن روحانی، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور قطرکے امیر شیخ تمیم بن حماد جیسے اہم اور بااثر مسلم رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کافی ملک اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ تاہم اس میں سعودی عرب ، پاکستان اور انڈونیشیا سمیت کئی مسلمان ملکوں کی عدم شرکت نمایاں طور پر محسوس کی گئی۔

عام خیال یہی ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے دراصل اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کی ایک متبادل تنظیم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ او آئی سی 1969ء میں قائم ہوئی تھی اور اس میں 57 اسلامی ملکوں کی نمایندگی موجود ہے۔ کوالالمپور سربراہی اجلاس کا خیال ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے پیش کیا تھا۔

ان کا موقف ہے کہ دنیا بھر میں رہنے والے مسلمانوں کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے، ان کو تضحیک اور تحقیرکی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ مزید برآں مسلمان عوام کی عظیم  اکثریت تمام وسائل ہونے کے باوجود غرب اور پسماندگی کا شکار ہے اور طاقت ور اقوام مسلمان ملکوں کا بد ترین استحصال کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مسائل کا سامنا کرنے اور مسلم دنیا کو بحران و خانہ جنگی کی صورتحال سے باہر نکالنے کے لیے ایک مضبوط اتحاد کی ضرورت ہے اور اسی ضرورت کے پیش نظر ان کی جانب سے پہل کاری کی جا رہی ہے۔

سربراہی کانفرنس کا آغاز زیادہ خوش آیند انداز میں نہیں ہوا۔ اجلاس کے انعقاد سے محض چند روز قبل یہ معلوم ہوا کہ پاکستان کے وزیر اعظم بعض مسائل کی وجہ سے اس میں شرکت نہیں کرسکیں گے اور وزیر خارجہ ملک کی نمایندگی کریں گے ، بعد ازاں یہ بتایا گیا کہ وزیر خارجہ بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے، چونکہ پاکستان خود اس سربراہی اجلاس کے انعقاد کے محرکین میں شامل تھا ، لہٰذا اس کی جانب سے غیرمتوقع طور پر شرکت سے معذوری کے اعلان سے  مذکورہ اجلاس کی اہمیت متاثر ہوئی۔ معاملات یہیں تک محدود نہیں رہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے اس بیان نے سفارتی حلقوں میں سنسنی پیدا کردی کہ سعودی دباؤکی وجہ سے پاکستان اس اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بعض مجبوریاں ہیں اور ہمیں ان کا ادراک ہے۔ ان بیانات کے بعد بھی یہ مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس میں ایک نازک موڑ اس وقت آگیا جب سعودی عرب کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا اور دونوں دوست ملکوں کے تعلقات ایسے نہیں ہیں جن میں ایک دوسرے کو دھمکیاں دی جائیں۔ اس تنازعے میں اب متحدہ عرب امارات بھی کود پڑا ہے جس کا کہنا ہے کہ اسلامی ملکوں کا کوئی بلاک عرب ملکوں کی شمولیت کے بغیرکامیاب نہیں ہوسکتا۔

دنیا کی کل آبادی کا 25 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن ایک بھیانک حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا کی کل مجموعی پیداوار میں مسلم ملکوں کا حصہ صرف 5 فیصد ہے۔ کل عالمی معیشت میں مسلمان ملکوں کو اپنا حصہ بڑھانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ یہ اتنا آسان اور سادہ کام نہیں ہے اورنہ مسلم امہ کے دلفریب نعرے لگا کر یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو اپنا دشمن قرار دے کر اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ اس سوال پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ کیا مغرب اور امریکا مخالف محاذ بنا کر مسلمان ملک معاشی ترقی کرسکتے ہیں؟

آج کی دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہر ملک کے لیے ناگزیر ہے۔ ایک نظریاتی اور سیاسی محاذ بناکر بہت زیادہ فائدہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس وقت دنیا میں چند ملک بڑی تیزی سے معاشی طاقت کی شکل میں ابھر رہے ہیں۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ امریکا دنیا کی پہلی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔ اس درجہ بندی میں ہندوستان چھٹے نمبر پر ہے۔ برازیل ، جنوبی افریقہ ، ویت نام ، کمبوڈیا جیسے ملک بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یورپ خود ایک بہت بڑی معاشی طاقت ہے۔ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے کوئی بھی اسلامی ملک نہیں ہے۔ ان ملکوں سے معاشی روابط اور دو طرفہ دوستانہ تعلقات رکھنا خود اسلامی ملکوں کے اپنے مفاد میں ہے۔

کوالالمپور سربراہی اجلاس کی افادیت اپنی جگہ لیکن اسے کسی بھی طور پر دنیا کے غیر مسلم ممالک بالخصوص یورپ اور امریکاکے خلاف ایک معاشی اور سیاسی محاذ نہیں بنانا چاہیے۔ بعض باتیں محض نعروں تک بڑی اچھی لگتی ہیں لیکن درحقیقت وہ ناقابل عمل ہوتی ہیں۔ یورپ نے کئی بار یوروکو ڈالر کے مقابلے میں لانا چاہا لیکن ایساممکن نہیں ہوسکا۔

اسی طرح مسلمان ملک اگرکوئی ایک مشترکہ کرنسی بنانے کا تجربہ کریں گے تو وہ کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ مسلمان ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر تجارت اور سرمایہ کاری کریں ، بد ترین غربت اور پسماندگی کا شکار مسلم ملکوں کی مدد کے لیے خصوصی ترقیاتی فنڈ مختص کریں اور ان  ملکوں کے بے روزگار ہنرمند لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی  جامع اور پائیدار منصوبہ بندی کریں ۔ دنیا کے تمام اسلامی ملک جن کا عالمی پیداوار میں حصہ محض 5 فیصدہے وہ معاشی اور سیاسی طور پر دنیا کے ان ملکوں پر دباؤ کیسے ڈال سکتے ہیں جن کا عالمی پیداوارمیں 95 فیصد حصہ ہے؟

مسلم ملکوں کو اس وقت چند بڑے انسانی مسائل درپیش ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان میں روہنگیا مہاجروں کا بحران بہت نمایاں ہے۔ ان مسلمان پناہ گزینوں کا تعلق میانمار سے ہے۔ میانمار کی حکومت انھیں دہشت گرد قرار دے کر ظلم وجبر کا نشانہ بناتی ہے۔ سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان اپنی جان بچاکر بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

بنگلہ دیش ایک مسلم ملک ہے لیکن  مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کا بوجھ برداشت کرنا اس کے لیے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ وہ انھیں اپنے اوپر ایک بوجھ سمجھتا ہے۔اسی طرح ایک اور انسانی مسئلہ چین کی یغور مسلمان اقلیت کا ہے جنھیں  شدید مسائل کا سامنا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 10لاکھ افراد اس وقت زیر حراست ہیں۔ اسلامی ممالک اور او آئی سی اس مسئلے پر خاموش ہے۔ یمن کے مسلمان بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اس بد نصیب ملک میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ بے گناہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔

یہاں مسلمان ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اسلامی ممالک یہاں خانہ جنگی رکوانے کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ ایک  اور بہت بڑا انسانی مسئلہ مسلمان ملکوں میں صنفی عدم مساوات ہے جو خود ان ملکوں کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا کے جن 20 ممالک میں عورتوں کے ساتھ بد ترین صنفی عدم مساوات اور امتیاز روا رکھا جاتا ہے ان میں سے 17 مسلم ملک ہیں اور یہ تمام ملک عالمی اسلامی تنظیم (او آئی سی) کے رکن ہیں۔

یہ امر یقیناً دلچسپ ہے کہ مسلم ممالک جن مسائل کا شکار ہیں وہ مسائل خود ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ ان ملکوں کو کسی غیر مسلم ملک نے اس بات سے نہیں روکا کہ وہ اپنے وسائل اپنے ملک کی انسانی و معاشی ترقی پر خرچ نہ کریں۔ مسلمان ملکوں میں اگر فوجی و شخصی آمریتیں اور بادشاہتیں تھیں اور انھوں نے اپنے اقتدارکو بچانے کے لیے امریکا اور سابق سوویت یونین کا سہارا لیا تو اس میں امریکا یا سوویت یونین کی کوئی سازش نہیں تھی۔ مسلمان ملکوں نے غیر پیداواری اور شاہانہ اخراجات میں اپنی دولت لٹائی اور عوام کو غربت اوربیروزگاری سے دوچارکیا تو اس میں دنیا کا کیا قصور ہے اور مغرب کو مورود الزام ٹھہرانا کس طرح درست ہے؟

او آئی سی سرد جنگ کے ایک خاص دورکی پیداوار تھی۔ اب وہ اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ کوالالمپور کے اجلاس میں اگر او آئی سی کا متبادل بنانے کا کوئی خیال کار فرما ہے تو وہ بھی قابل عمل نہیں ہوگا۔ مسلمان ملکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ضرورکرنا چاہیے لیکن کوئی ایسا ’’محاذ‘‘ بنانے سے گریز کرنا چاہیے جو مسلمان ملکوں کو دنیا میں مزید تنہا کر دے۔

The post دل فریب نعروں کے دن گزر چکے appeared first on ایکسپریس اردو.

جنرل کرامویل کو موت کی سزا

$
0
0

برطانیہ کو مادرجمہوریت کا اعزاز حاصل ہے، برطانیہ کو یہ اعزاز عوام کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں ملا ہے، جس جدوجہد کے نتیجے میں پارلیمنٹ کو تمام اداروں پر بالادستی حاصل ہوئی۔ برطانیہ میں 13ویں صدی میں میگنا کارٹا معاہدہ ہوا۔

اس معاہدے کے تحت بادشاہ اورچرچ کو پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کرنا پڑی ، یوں جمہوری اداروں کا ارتقا شروع ہوا مگر برطانیہ کے ایک ہیرو جنرل کرام ویل نے جمہوری اصولوں کو نظر اندازکرتے ہوئے پارلیمنٹ کو توڑا۔ اپنی مرضی کی پارلیمنٹ نامزدکی مگر کرام ویل کو مرنے کے بعد پھانسی کا مستحق قرار دیا گیا، اس کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دی گئی۔

کرام ویل 15اپریل1959ء کو پیدا ہوا، تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ برطانیہ کے بادشاہ ہنری viiiکی بہن سے کرامویل کے خاندان کا تعلق تھا۔کرامویل ایک مذہبی انسان تھا جس کا اللہ تعالی پر مضبوط اعتقاد تھا، اس نے 1630ء میں اپنا عقیدہ تبدیل کیا Independant Puritan ہوگیا۔

کرام ویل متعدد بار پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا، اسے 1628ء میں Parliment of Huntingdon اور 1660ء کیمبرج پارلیمنٹ کا مختصر عرصے کے لیے اور 1640ء میں پھر آئرلینڈ پارلیمنٹ کا رکن رہا۔کرامویل نے برطانیہ کی سول وارکے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ، وہ اپنی بہادری اور جوان مردی کی بنا پر مقبول ہوا۔ اسے مختصر عرصے بعد ہی ایک کیولری دستے کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ کرامویل نے جرنل تھامس فیرئیر فیکس کی قیادت میں رائلسٹ فوج کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا، کرامویل ان چیدہ چیدہ لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے بادشاہ چارلس کی موت کے وارنٹ پر دستخط کیے تھے ۔

کرامویل کو اس کی بہادری کی بناء پر 1649ء میں آئرلینڈ میں فوج کی کمانڈ سونپی گئی تھی۔اس نے فوج کی قیادت کرتے ہوئے آئر لینڈ میں Confedrantاور رائلسٹ اتحادی فوجوں کی شکست دی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ میں کیتھولک فرقے کے پیروکاروںکو بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے قوانین نافذ ہوئے تھے۔کرام ویل نے 1650ء میں اسکاٹ لینڈ کی فوج کی سرکوبی کی مہم کی قیادت کی اور اس جنگ میں کامیابی حاصل کی،اس نے اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے 20اپریل 1653ء کو پارلیمنٹ کو توڑ دیا اورBareboni پارلیمنٹ کے نام سے نئی پارلیمنٹ قائم کی ۔کرامویل نے اس پارلیمنٹ کے لیے اراکین کو خود نامزد کیا۔

برطانیہ کی تاریخ لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کرامویل ، ویلز اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کا مطلق العنان حکمران بن گیا تھا ،کرامویل کے خاندان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امراء سے تعلق رکھتے تھے۔کرامویل کے والد رابرٹ ایک معتدل انسان تھے ، ان کی hunting Donshireمیں زرعی جائیداد تھی۔

تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے، رابرٹ کی سالانہ آمدنی 300 پاؤنڈ تھی ،کرامویل نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ وہ ایک ایسے جینٹلمین کے ہاں پیدا ہوا جہاں نہ دولت کی فراوانی تھی اور نہ ہی غربت تھی۔ کرامویل کا داخلہ کیمبرج یونیورسٹی میں ہوا مگر وہ ڈگری حاصل نہ کرسکا ، اس کی وجہ اس کے والد کی اچانک موت بتائی جاتی ہے۔

اس کے کئی سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ کرام ویل نے برطانیہ کی قانون کی سب سے بڑی درسگاہ لنکن اِن میں تعلیم حاصل کی مگر لنکن اِن کے ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوتی۔کرامویل کو اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنے گھرکا بوجھ سنبھالنا پڑا تھا، اس کی سات بہنوں کی شادی نہیں ہوئی تھی ، وہ اپنی ماں اور بہنوں کا واحد سہارا تھا۔کرامویل نے 1598ء میں ایلزبتھ بروچر نامی خاتون سے شادی کی تھی ،کرامویل اپنی اہلیہ کی بنا پر لندن اور ہالینڈ کی تاجر برادری سے آشنا ہوا،کرام ویل کو تاجر برادری سے تعلقات کی وجہ سے فوجی اور سیاسی کیریئر بنانے میں بڑی مدد ملی تھی۔

کرامویل کی پارلیمنٹ میں کارکردگی بہت زیادہ بہتر نہیں رہی ،اس نے ایک تقریر بشب رچرڈ ڈین کے خلاف کی تھی مگر اس پارلیمنٹ کے اراکین نے گرم جوشی سے خیرمقدم نہیں کیا تھا ۔کرام ویل کا حقیقی کارنامہ برطانیہ میں ہونے والی دو سول وار میں مخالفین کو شکست دینا تھا۔

کرام ویل کو 1644ء میں مارس ٹون مورکی جنگ کے دوران لیفٹنٹ جنرل کا عہد ہ تفویض کیا گیا ، یہ عہدہ مانچسٹر آرمی نے دیا تھا۔کہاجاتا ہے کہ مارس ٹون کی جنگ میں پارلیمنٹ کی کامیابی کا سہرا کرام ویل کے سر تھا۔ لیفٹننٹ جنرل کرامویل اس جنگ میں زخمی ہوا اور اس کا بھانجا مارا گیا۔ جنرل کرامویل نے ایک تاریخی خط اپنے بہنوئی کے نام لکھا ، اس جنگ میں کامیابی سے پارلیمنٹیرین کی شمالی برطانیہ میں بالا دستی حاصل ہوگئی تھی۔ اس جنگ کے دوران کرام ویل اور اسکاٹ لینڈ کے جرنیلوں کے درمیان بعض اختلافات پیدا ہوئے۔

اس کی جنگی حکمت عملی اور فوجیوں کی بھرتی کے طریقہ کار پر اعتراضات ہوئے ۔اس جنگ کے خاتمے کے بعد 1644ء میں پارلیمنٹ نے ایک قانون نافذ کیا ،اس قانون میں  ایوان نمایندگان کے اراکین کو پابند کیاگیا کہ سول اور فوجی عہدے میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔  کرامویل نے فوجی عہدہ برقرار رکھا تھا ،جنرل کرامویل نے فوج میں اصلاحات کے لیے اہم خدمات سرانجام دی تھیں، یوں سرتھامس فن فئیرکی قیادت میں ماڈرن فوج منظم ہوئی،  کرامویل کو کیولری کے لیفٹنٹ جنرل اور سیکنڈکمانڈ کے عہدے پر تعینات کیا گیا ، اس فوج نے 1645میں نیزبے کی جنگ میں بادشاہ کی فوج کو تہس نہس کردیا ، اس جنگ میں بھی کرامویل کا بہت کردار تھا۔

کرامویل نے نہ صرف بادشاہ کی فوج کو شکست دی بلکہ بہت سارے سپاہیوں کو گرفتارکیا،اس پر ہتھیار ڈالنے والے سو سپاہیوں اور قیمتی املاک پر قبضے کا الزام بھی لگا۔کرامویل اور جنرل تھامس فن فیئرکی کمانڈ میں فوج 1649ء میں ایک اور تاریخی کامیابی حاصل کی اور بادشاہ کے حامیوں نے شکست تسلیم کرلی اور برطانیہ کی پہلی سول وار ختم ہوگئی،یہ بھی کہاجاتا ہے کہ کرام ویل نے کبھی فوج کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی۔

سوانح نگار لکھتے ہیں کہ کرامویل مسلح طاقت کے بجائے حکمت عملی پر یقین رکھتا تھا اورجنرل کی حیثیت سے ڈسپلن کی رعایت دینے پر تیار نہیں ہوتا تھا۔جنرل کرام ویل نے جنگ کے دوران کلوز ڈورکیولری فارمیشن کو رائج کیا۔اس فارمیشن میں سپاہی knee  knee to گھوڑے پر سوار ہوتے، اس فارمیشن کی بنا پرکرامویل کی فوج کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ جنرل کرامویل نے برطانیہ میں دوسری سول وارکے خاتمے میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔

دوسری سول وار1648ء میں شروع ہوئی ، بادشاہ نے دوبارہ طاقت کے ذریعے اپنی فوجوں کو منظم کرنے کی کوشش شروع کی۔کرامویل کی کامیاب حکمت عملی نے اس کو اپنی کامیابی دلائی، کم افرادی قوت والی فوج نے اپنے سے بڑی فوج کو شکست دی۔کرامویل نے بادشاہوں کو پھانسی دینے کے بعد کامن ویلتھ آف انگلینڈ کا اعلان کیا تھا۔ یوں رم پارلیمنٹ وجود میں آئی جس کو محدود انتظامی اختیارات حاصل تھے۔ بادشاہ چارلس 1کی پھانسی کے بعد کرامویل نے سرجان کی قیادت میں منحرف اوریجنل رائلسٹ کو متحدکرنے کی کوشش کو ناکام بنایا۔

جنرل کرامویل نے 1649ء میں آئرلینڈ پر حملہ کیا اور پھر ایک نئی کامیابی حاصل کی ، بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی عسکری سے زیادہ ڈپلومیٹک نوعیت کی تھی۔ جنرل کرامویل کا ایک اورکارنامہ ڈن بار (Dunbar)کی جنگ میںکامیابی کا ہے۔کرام ویل نے اس جنگ میں اسکاٹ لینڈ کی فوج کو شکست دی، اس جنگ میں اسکاٹ لینڈ کے چار ہزار فوجی ہلاک ہوئے اور ایک ہزار فوجیوں کو گرفتارکیا گیا۔

کرامویل 1658ء میں ملیریا کے مرض کا شکار ہوا اورانسٹھ سال کی عمر میں انتقال کرگیا۔ اس کی تدفین بڑے شاندار انداز میں ہوئی مگرکرامویل کو اس کی موت کے بعد پارلیمنٹ توڑنے کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی ۔ اس کی لاش کو قبر سے نکال کر تختہ دار پر لٹکایا گیا۔

بیسویں صدی میں جنرل کرامویل کی شخصیت اور خیالات کو نازی جرمن اور اٹلی کے فاشزم کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، یوں برطانیہ کے ہیروکو پارلیمنٹ توڑنے کی سزا اس کی موت کے بعد ملی۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقارسیٹھ نے برطانیہ کی جمہوری روایات اور برطانیہ کے ہیرو جنرل کرامویل کو پارلیمنٹ توڑنے کے جرم میں مرنے کے بعد سزائے موت دینے اور لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دینے کے واقعے کو جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ دیتے وقت اپنے ذہن میں رکھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جنرل کرامویل کی سزاکے بعد کسی فوجی جنرل نے برطانیہ میں پارلیمنٹ کوتوڑنے اور اپنے اقتدارکو قائم کرنے کی جرات نہیں کی، یوں برطانیہ کی جمہوریت کی جڑیں انتہائی گہری ہوگئیں۔

اب اکیسویں صدی میں سزائے موت کو ختم کرنے کی تحریک دنیا بھر میں پھیل چکی ہے، دنیا کے بہت سارے ممالک نے یہ سزا ختم کر دی ہے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کی جدوجہد کرنے والے کارکن اس سزا کو انسانیت کے خلاف سمجھتے ہیں ، یوں پرویز مشرف کو سزائے موت دینا اور اس کی لاش کو ڈی چوک پر لٹکانے کے فیصلے کی ستائش نہیں ہوسکتی مگر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے آخری ریفرنس میں بڑے واضح انداز میں کہا کہ عدلیہ کے خلاف مذموم مہم چلائی جا رہی ہے۔

دراصل خصوصی عدالت کایہ فیصلہ ایک علامتی فیصلہ ہے ، دنیا میں آئین ہی کو بالا دستی حاصل ہوتی ہے،آئین کے تحت تین بنیادی ادارے انتظامیہ ، عدلیہ اور مقننہ ہیں، تمام سرکاری وزارتیں، صوبائی محکمے ، قانون نافذ کرنے اور ملک کادفاع کرنے والی ایجنسیاں، ان اداروں کی بالادستی تعظیم کی پابند ہیں۔ عوا م کے نمایندوں نے 1973ء کا آئین بنایا ہے ،اس آئین کو توڑنے اور معطل کرنے والا سزا کا مستحق ہے ، جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کا یہ واحد راستہ ہے۔

آج 25دسمبر اور ملک کے بانی محمد علی جناح کی سالگرہ کادن ہے ،جناح صاحب نے ساری زندگی آئین اور قانون کی بالادستی کا درس دیا۔ برطانیہ اور جنرل کرامویل کی تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے کہ آئین اور قانون سے کوئی بالا دست نہیں ہوتا۔

The post جنرل کرامویل کو موت کی سزا appeared first on ایکسپریس اردو.

مسیحی برادری کی ملک کیلیے خدمات قابل تعریف ہیں، وزیراعظم کی کرسمس پر مبارک باد

$
0
0

اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کرسمس پر دنیا بھر کی مسیحی برادری اور قائداعظم کے یوم پیدائش پر قوم کو مبارک باد پیش کی ہے۔

اپنے بیان میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ کرسمس، امن، محبت، رواداری اور انسانیت سے ہمدردی کا پیغام ہے، اقلیتیں ملکی ترقی میں بھرپور طریقے سے اپنا حصہ شامل کررہی ہیں، ہم ملکی ترقی میں اقلیتوں کو سماجی طور پر بااختیار بنانے کے لیے کوشاں ہیں کیوں کہ قائد اعظم نے بھی تمام مذاہب کے لیے برابری کی بات کی تھی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ مسیحی برادری کی تعلیم، صحت اور دیگر شعبہ جات میں خدمات قابل تعریف ہیں۔

قائد اعظم کے یوم پیدائش کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ قائد اعظم بیسیویں صدی کے عظیم رہنما ہیں جنہوں نے فیصلہ کن تحریک کی قیادت کی اور آخری دم تک جمہوری نظریات اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھا، ان کے نظریات نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہمیں ان کے نظریات کو سمجھنے اور مقاصد کی تکمیل کے لیے طویل سفر طے کرنا ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں قائد اعظم کے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کے اصولوں پر چلنا ہے کیوں کہ ان ہی اصولوں پر چل کر ہم ایک کامیاب قوم بن سکتے ہیں۔

عمران خان نے کشمیر کے حوالے سے کہا کہ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا، ہم آج کے دن فاشسٹ آر ایس ایس کو نہیں بھول سکتے، بی جے پی حکومت کشمیر میں انسانی حقوق پامال کررہی ہے لیکن قوم چٹان کی طرح کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بھارتی آئین کا نام نہاد سیکولر چہر بے نقاب ہوچکا ہے، بھارت میں مسلم مخالف متنازع قانون کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔

The post مسیحی برادری کی ملک کیلیے خدمات قابل تعریف ہیں، وزیراعظم کی کرسمس پر مبارک باد appeared first on ایکسپریس اردو.

امریکا میں بے گھر افراد کی بڑھتی تعداد، کیلیفورنیا میں 16 ہزار لوگ گاڑیوں کے اندر سونے پر مجبور

$
0
0

لاس اینجلس: امریکا میں بے گھر افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے صرف کیلی فورنیا میں 16 ہزار بے گھر افراد کا رات کو گاڑیوں میں سونے کا انکشاف ہوا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق امریکا میں بے گھر افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ان بے گھر افراد میں سے کئی ہزار افراد ایسے ہیں جو مالی وسائل میں کمی کے باعث گھر کرائے پر نہ لینے کے سبب اپنی گاڑیاں کسی بھی اسپتال، کلب، چرچ یا کسی محفوظ جگہ پارک کرکے اس میں گزارنے پر مجبور ہیں۔

california home less people living in car 5 Uber driver, Lauren Kush
اوبر ڈرائیور لارن کش
  california home less people living in car 2 

آن لائن ٹیکسی سروس اوبر کے ڈرائیور کی حیثیت سے کام کرنے والی خاتون لارن کش اپنی کار کو دو مقصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ 36 سالہ لارن ایک بے گھر خاتون ہیں جو دن میں ٹیکسی چلاتی ہیں مگر ہر رات وہ اسی کار میں سوتی ہیں اپنی گاڑی کی عقبی نشست کو ایک بستر میں تبدیل کردیتی ہیں۔

california home less people living in car

لارن کش نے لاس اینجلس میں مکان کرائے پر حاصل کرنے کی استطاعت ختم ہونے پر اپنی کار میں ہی سونے کا فیصلہ کیا جہاں ایک بیڈروم کے مکان کا درمیان کرایہ 2350 ڈالر ماہانہ ہے، لارن کشن کیلی فورنیا کے ان 16 ہزار بے گھر افراد میں سے ایک ہیں جو گھر کرائے پر نہ ملنے کے سبب اپنی کار میں سونے پر مجبور ہیں اور یہ یہاں موجود 60 ہزار بے گھر افراد کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔

california home less people living in car 4

لارن نے سی این این کو بتایا کہ عموماً میں نیند سے کئی بار بیدار ہوتی ہوں، کروٹیں بدلتی ہوں کیوں کہ کار میں سونا آرام دہ نہیں ہے اور میرا قد پانچ فٹ چھ یا سا انچ ہے جس کے باعث میری ٹانگیں ٹھیک طرح سے سیدھی نہیں ہوپاتیں۔

california home less people living in car 3

چند روز قبل ہی یو ایس ڈیپارٹمنٹ اینڈ اربن ڈیولپمنٹ نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ کیلی فورنیا میں رواں سال بے گھر افراد کی تعداد میں 2.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایسے ہی مجبور افراد کے لیے لاس اینجلس کے علاقے کوریا ٹاؤن میں واقع چرچ انہیں مارچ 2018ء سے رات میں گاڑیاں پارک کرنے کی محفوظ سہولت فراہم کررہا ہے۔ لوگوں کا بالخصوص خواتین بے گھر افراد کا کہنا ہے کہ یہاں گاڑیاں پارک کرکے اس میں سوتے وقت انہیں اپنی عصمت دری یا رہزنی کا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوتا یہ ایک محفوظ ترین جگہ ہے۔

چرچ کے ساتھ کئی این جی اوز جڑی ہیں جو ان بے گھر افراد کو نہانے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں کہ کار میں سونے والے افراد کے لیے بنیادی سہولتوں کا بڑا فقدان ہے۔

The post امریکا میں بے گھر افراد کی بڑھتی تعداد، کیلیفورنیا میں 16 ہزار لوگ گاڑیوں کے اندر سونے پر مجبور appeared first on ایکسپریس اردو.

بابائے قوم قائد اعظم کا 143 واں یوم پیدائش ملی یکجہتی سے منایا جارہا ہے

$
0
0

 اسلام آباد: قائد اعظم محمد علی جناح کا 143واں یوم پیدائش ملی یکجہتی سے منایا جارہا ہے۔

بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا 143 واں یوم پیدائش آج ملی جوش و خروش سے منایا جارہا ہے، دن کا آغاز نماز فجر کے بعد خصوصی دعائوں سے ہوگا جس میں قائد اعظم کی روح کے ایصال ثواب کیلیے فاتحہ خوانی کی جائےگی۔

وفاقی دارالحکومت میں 31 جب کہ صوبائی دارالحکومتوں میں 21 ، 21 توپوں کی سلامی دی جائے گی اور مزار قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب منعقد ہوگی جس میں اعلی حکومتی، عسکری اور سیاسی شخصیات شرکت کریں گی جو مزار قائد پر حاضری دیکر پھول چڑھائیں گی اور فاتحہ خوانی کریں گی۔ یوم قائد اعظم کی مناسبت سے لاہور سمیت ملک بھر میں سیمینار اور کانفرنسز کا اہتمام کیا جائے گا۔

دوسری جانب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اقوام عالم میں ایک باعزت مقام حاصل کرنے کیلئے قائداعظم محمد علی جناح کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔

The post بابائے قوم قائد اعظم کا 143 واں یوم پیدائش ملی یکجہتی سے منایا جارہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


ایک گرام کی روبوٹ مکھی جو اپنے جسم سے 5 گنا وزن اٹھاسکتی ہے

$
0
0

پیرس: دنیا بھر میں کیڑے مکوڑوں سے متاثر ہو کر روبوٹ بنانے کی دوڑ جاری ہے اب فرانس کے ماہرین نے روبوٹ مکھی بنائی ہے جس کا وزن صرف ایک گرام ہے اور یہ اپنے وزن سے پانچ گنا زائد وزن اٹھاسکتی ہے۔

اب اگر اسے آپ مکھی مارنے والی چھڑی سے کئی دفعہ پچکانے کی کوشش کریں تب بھی یہ دب کر دوبارہ کھڑی ہوجاتی ہے اور چلنے لگتی ہے۔ اسے ڈینسیکٹ DEAnsect کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں مصنوعی پٹھوں کی مدد سے تین ٹانگیں بنائی گئی ہیں جو ایک سیکنڈ میں 400 مرتبہ حرکت کرتی ہیں۔

DEAnsect درحقیقت ’ڈائی الیکٹرک ایلاسٹومر ایکچوایٹرز‘ کا مخفف ہے جس پر بال سے باریک مصنوعی پٹھے لگے ہوئے ہیں جو ارتعاش سے مکھی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ روبوٹ مکھی اڑتی نہیں بلکہ یہ اونچے نیچے راستوں پر چلتی رہتی ہے۔ حیرت انگیز روبوٹ مکھی کا وزن ایک گرام سے بھی کم ہے لیکن یہ اپنے وزن سے پانچ گنا زائد بوجھ اٹھاسکتی ہے۔

مکھی کو نمائشی شے کہنے کی بجائے کئی اہم امور انجام دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ مکھی میں نصب فوٹوڈائیوڈز اس کے لیے آنکھوں کا کردار ادا کرتے ہیں اور مائیکرو کنٹرولر اس کے دماغ کا کام کرتے ہیں۔

ماہرین نے اس عجیب و غریب مکھی کو طرح طرح کے ٹیسٹ سے گزارا ہے۔ مکھی کو مکھی مار اسٹک سے کچلا گیا اور اسے موڑا گیا لیکن یہ نہیں مرتی اور اپنا کام کرتی رہتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مکھی خودکار انداز میں بھی کام کرسکتی ہے اور کسی مقررہ راستے پر چلتی رہتی ہے۔

The post ایک گرام کی روبوٹ مکھی جو اپنے جسم سے 5 گنا وزن اٹھاسکتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

صرف 9 ڈالر چرانے کے جرم میں 38 سال سے قید امریکی

$
0
0

البامہ: بظاہر یہ بیان ناقابلِ یقین لگتا ہے لیکن شاید امریکا کے کچھ علاقوں کا نظام لاقانونیت سے بھرپور ہے۔ خبر یہ ہے کہ صرف 9 ڈالر چوری کرنے والا شخص 25 سال کی عمر میں گرفتار ہوا اور اب 62 سال کی عمر میں بھی وہ سلاخوں کے پیچھے ہے۔

ولی سائمنز کا تعلق الابامہ سے ہے اور ریاست کے ایک کالے قانون ’ ہیبیچوئل آفنڈرلا‘ کے شکار ہوئے اور ان پر صرف نو ڈالر چرانے کا الزام ہے۔ ان کی تمام تفصیلات ٹویٹر پر شیئر ہوئیں تو پتا چلا ورنہ ولی کی افسوس ناک کہانی شاید ہی کبھی سامنے آسکتی۔

امریکی خبر رساں ادارے نے اپنے صحافی بیتھ شیلبرن کی ٹویٹس شیئر کی ہیں جس میں تین عشروں سے قید کے شکار وِلی کی تفصیلات پڑھی جاسکتی ہیں۔

ٹویٹ کے مطابق وہ 25 سال کی عمر میں قید ہوئے اور 1982ء سے انہیں پیرول پر رہائی نہیں مل سکی۔ ان پر چوری شدہ جائیدار خریدنے کا بھی الزام تھا جس پر وہ پہلے ہی سزا پاچکے تھے لیکن ولی کو یاد نہیں ان کے جرائم کیا کچھ ہیں مگروہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان سے کوئی جرم سرزد ضرور ہوا ہے۔ ان کے مطابق انہوں ںے ایک شخص کے بٹوے سے 9 ڈالر چرائے تھے۔

ان کی بہن کے انتقال کے بعد 2005ء سے ولی سے کوئی ملنے بھی نہیں آتا اور اسے امریکا کی سب سے خوفناک جیل میں رکھا گیا ہے جہاں عادی مجرم آپس میں لڑتے رہتے ہیں اسے جنگلی جیل بھی کہا جاتا ہے۔

The post صرف 9 ڈالر چرانے کے جرم میں 38 سال سے قید امریکی appeared first on ایکسپریس اردو.

گھٹنے کے 3 لاکھ آپریشن میں مدد کرنے والا روبوٹ

$
0
0

نیوجرسی: میکو دنیا کا کامیاب ترین روبوٹک بازو ہے جو اب تک گھٹنے کی لاکھوں سرجری میں مدد کرچکا ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ انسانوں کی طرح غلطی بھی نہیں کرتا۔

دنیا بھر کے 600 ہسپتالوں میں میکو کامیابی سے استعمال ہورہا ہے جسے اسٹرائیکر کمپنی نے برسوں کی محنت سے بنایا ہے۔ اس کا بصری نظام گھٹنے کی تھری ڈی شکل دکھاتا ہے اور آپریشن کی جگہ کا بغور معائنہ کرکے سرجری کے عمل کو آسان بناتا ہے۔

جدت اور حساسیت کی بنا پر یہ روبوٹ غلطی نہیں کرتا اور اب تک تین لاکھ سے زائد آپریشن انجام دے چکا ہے۔ روبوٹک بازو میں ہر طرح کی سرجری کے اوزار سما سکتے ہیں۔ میکو گھٹنے کے علاوہ کولہے کی ہڈی کے پیچیدہ آپریشن بھی انجام دے سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ گھٹنہ (یا اس کی گولہ نما ہڈی) بدلنی ہو تب بھی یہ جزوی آپریشن میں مدد دیتا ہے۔

اگرچہ میکو کی ٹیکنالوجی دس برس قبل منظرِ عام پر آئی تھی لیکن اسے مسلسل بہتر بنایا گیا اور اب یہ سائنس فکشن سے نکل کر حقیقت بن چکی ہے اور لاکھوں مریضوں کو علاج کی صورت میں سکون فراہم کرچکی ہے۔ روبوٹ کا بصری نظام سرجن کو گھٹنے کی مفصل ویڈیو اور تصاویر دیتا ہے جس کی بنا پر درست جگہ آپریشن کرنے میں سرجن کو مدد ملتی ہے۔

کسی بھی گڑبڑ کی صورت میں روبوٹ بازو فوری طور پر رک جاتا ہے کیونکہ غلط آپریشن مریض کو ہمیشہ کے لیے معذور بھی کرسکتا ہے۔ اگر سرجن اسے کسی ایک حصے پر کام کرنے کا حکم دیتا ہے تو یہ اسی جگہ محدود رہتا ہے اور بصورتِ دیگر کام کرنا بند کردیتا ہے۔

اپنی کئی خوبیوں کی بنا پر یہ روبوٹ دنیا بھر میں ہڈیوں کے سرجن کی اولین ترجیح بن چکا ہے تاہم اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے خاص تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو کمپنی فراہم کرتی ہے۔

The post گھٹنے کے 3 لاکھ آپریشن میں مدد کرنے والا روبوٹ appeared first on ایکسپریس اردو.

قائد کے دیس کا احوال

$
0
0

دسمبر کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کے حوالے سے سڑکوں پر جگہ جگہ شکریہ جناح کے بل بورڈز کی بہار دکھائی دینے لگی۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ زور و شور سے اس دن کے حوالے سے تقاریب کے انعقاد کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں، تاکہ قوم کے معمار وطن عزیز کو وجود میں لانے کےلیے کی جانے والی انتھک محنت اورجدوجہد کو یاد رکھیں۔ ایک علیحدہ ریاست پاکستان بنانے کےلیے عملی اقدامات کی یاد دہانی کرانے کےلیے لمبی لمبی پرزور تقاریر کی جاتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے بھی ہدایات دی جاتی ہیں کہ قائد ڈے بھرپور اور شایان شان طریقے سے منانے کےلیے تمام ادارے اقدامات کریں۔ لیکن عظیم لیڈر جس نے قوم کو غلامی سے نجات دلائی، جس کی بدولت ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اس کو یاد رکھنے کےلیے کیا صرف یہ سب کرنا کافی ہے؟

مہنگے مہنگے برانڈڈ اسٹورز پر قائداعظم ڈے کی مناسبت سے ڈسکاؤنٹ آفرز لگادی جاتی ہیں اور لوگوں کو صرف یہ آفرز ہی یاد رہتی ہیں، اس سے آگے وہ کچھ سوچ سمجھ نہیں پاتے۔ قیام پاکتسان کےلیے کتنی بڑی قیمت تھی جو قائداعظم محمد علی جناح نے ادا کی۔ اس کٹھن اور مشکل کام کےلیے انہیں کتنی محنت اور کوشش کرنی پڑی۔ لوگوں نے آگ اور خون کا دریا پار کیا تو آزادی ملی۔ قوم اس آزادی کےلیے دی جانے والی قربانیوں کو فراموش کرتی جارہی ہے۔ یہ ملک مسلمانوں کےلیے کن مقاصد کی بنیاد پر حاصل کیا گیا، یہاں تک سوچنے کی شاید کسی کے پاس فرصت ہی نہیں ہے۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ عظیم لیڈر کو خراج تحسین پیش کرنے کےلیے کیا صرف یہی اقدامات کرنا کافی ہیں؟ کیا بحیثیت قوم ہم اپنے قائد کے فرمان پر عمل پیرا ہیں؟

کیا ہم نے وہ سب حاصل کیا جس کےلیے ہم نے انگریزوں اور ہندوؤں سے جنگ کی تھی؟ کیا آج کے پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان کہا جاسکتا ہے؟ جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جسے تعبیر جناح کی کوششوں سے ملی۔ وہ پاکستان جس کا تصور قائداعظم نے اپنے اصولوں کی روشنی میں دیا تھا، کیا ہم سب آج اسی پاکستان کے رہائشی ہیں؟ کیا آج کے پاکستان کے موجودہ حالات جناح کی جدوجہد اور سوچ سے میل کھاتے ہیں؟

ماضی کے جھرونکوں میں دیکھیں تو پتا چلتا ہے جناح نے نئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کےلیے کن اصولوں پر چلنے کےلیے کہا تھا۔ قائداعظم نے قوم کو واضح پیغام دیا تھا کہ اتحاد، ایمان اور تنظیم ان چیزوں کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیجئے گا۔

کیا آج ہم سب اس اصول پر عمل پیرا ہیں؟ یہ اصول تو جیسے گزرے ہوئے زمانے کی باتیں لگتے ہیں۔ کام، کام اور کام کے ساتھ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے والے پاکستانیوں نے ہیراپھیری کو اپنا اہم ہتھیار سمجھنا شروع کردیا ہے۔ آج کل ہم سب شارٹ کٹ کے ذریعے ایک ہی جست میں نمبر ون بننے کی خواہش میں مبتلا نہیں ہیں کیا؟ لوٹ کھسوٹ ہمارے خون میں شامل ہوگئی ہے۔ بانی پاکستان نے ایک غلام قوم کو آزادی دلائی مگر آج اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہماری قوم غلامی کی رنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ہم اپنی خواہشات اور نفس کے غلام ہیں۔ حرص اور خودغرضی کی بدولت کسی کو خود سے آگے بڑھتا دیکھیں تو اس کی ٹانگیں کھینچنے لگ جاتے ہیں۔ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا فرق تو جیسے مٹ کر رہ گیا ہے۔

ایک الگ قوم ہونے کی بنیاد پر علیحدہ وطن حاصل کیا گیا تھا، لیکن کیا ہم سب آج ایک قوم ہیں؟ بنیادی حقوق سے محرومی، مہنگائی، غربت، بے روزگاری، ظلم و زیادتی، قتل و غارت گری، بے حسی، دہشت گردی، ناانصافی، کرپشن، یہ ہیں وہ تمام چیزیں جو مل جائیں تو بنتا ہے اکیسویں صدی کا پاکستان۔ کیا یہی تھا پاکستان بنانے کا مقصد؟

جناح کا خواب تو برداشت، اخوت اور بھائی چارے والا پاکستان تھا۔ جس کی تعبیر ممکن نہ ہوسکی۔ یہ ہم کس قسم کا پاکستان تشکیل دے رہے ہیں، جہاں ریاست مدینہ تو دورکی بات، یہ تو جناح کا پاکستان بھی نہیں ہے۔ اپنے وطن عزیز کا یہ حال دیکھ کر قائد کی روح بھی بے چین ہوتی ہوگی۔ کیا وہ پاکستان کا مستقبل ایسا دیکھنا چاہتے تھے؟

بجلی، گیس غائب، پانی ناپید، صحت کےلیے عوام پریشان، بچے تعلیم حاصل کرنے کے بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ قدرت نے پاکستان کو دنیا کی ہر نعمت سے نوازا ہے پھر بھی مسائل کا انبار کیوں؟ قدرتی وسائل کو بروئے کار لاکر ملک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کیوں نہیں کیا جارہا؟ کیا دانستہ ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں جو انتشار کا باعث بنیں اور دشمن کا کام آسان ہوجائے؟ یہ تمام باتیں ہمیں بحیثیت قوم ضرور سوچنی چاہئیں۔

آج پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا ہے، ان کا تقاضا ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں انقلابی تبدیلیاں کی جائیں۔ بچے، بوڑھے جوان سب ساتھ دیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے ملک ترقی کرے گا اور جدید ملکوں کی دوڑ میں شامل ہوگا۔ ہمیں اس بات کا عزم کرنا ہے کہ اس ملک کو ہم نے قائداعظم کے اصولوں کے عین مطابق چلانا ہے۔ معاشی، قومی اور جذباتی طور پر مضبوط بننا ہے۔ دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنے والا بننا ہے۔ نیا پاکستان نہ سہی ایسے پاکستان کی بنیاد رکھنی ہے جہاں سب کی عزت ہو تاکہ بیرون ممالک والے بھی ہماری عزت کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ یہی قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ قائد کا پاکستان لوٹانے کی ذمے داری اب آپ کی ہے۔ جناح کے پاکستان کا خواب ہمیں خود پورا کرنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post قائد کے دیس کا احوال appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک قائداعظم کے یقین کی تصدیق ہے،وزیراعظم

$
0
0

 اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک قائداعظم کے یقین کی تصدیق ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے قائد اعظم کے یوم پیدائش کے موقع پر پیغام میں کہا کہ مسلمانوں کے لیے آزاد وطن بنانے میں قائداعظم نے بے لوث مثالی کردار پیش کیا، انہوں نے پوری دنیا میں لاکھوں افراد کو متاثر کیا، قائداعظم نے جس فیصلہ کن تحریک آزادی کی سربراہی کی وہ ان کی سیاسی بصیرت کا مظہر ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پوری دنیا آج نام نہاد سیکولر بھارت کا چہرہ دیکھ رہی ہے، بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک قائد اعظم کے یقین کی تصدیق ہے، انہیں یقین تھاہندوستان کے انتہا پسند ہندو مسلم اقلیت کوعزت اور وقار کے ساتھ نہیں رہنے دیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ ہمیں فاشسٹ بی جے پی حکومت کے ظلم کا شکارکشمیری عوام کو نہیں بھولنا، قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی “شہ رگ” کہا تھا، آج ہم اپنے عہد کا اعادہ کرتے ہیں، ہمیں اپنے بانی کے نظریات کو سمجھنے اورمقصد کی تکمیل کے لئے طویل سفر طے کرنا ہے،اتحاد ، عقیدے اور نظم و ضبط کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر نیا پاکستان، قائد کا پاکستان بنا سکتے ہیں۔

The post بھارت میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک قائداعظم کے یقین کی تصدیق ہے،وزیراعظم appeared first on ایکسپریس اردو.

وزیراعظم کے دورہ کراچی کی اطلاع نہیں دی جاتی،وزیراعلیٰ سندھ

$
0
0

 کراچی: وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ انہیں وزیراعظم کے دورہ کراچی کی اطلاع نہیں دی جاتی۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گورنر سندھ عمران اسماعیل کے ہمراہ مزارِ قائد پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل کا طویل اجلاس ہوا جس میں بہت سی مثبت باتیں ہوئیں، وزیراعظم کے ساتھ کافی مسائل پرطویل گفتگو ہوئی، ملک کو آج اتحاد کی ضرورت ہے۔

گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا کہ میٹنگز کا سلسلہ جاری رکھیں گے، وزیراعظم 27 دسمبر کو کراچی آ رہے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ دورہ کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کے خواہشمند ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کے اس دورے کی اطلاع نہیں، وہ جب کراچی کا دورہ کرتے ہیں تو مجھے اطلاع نہیں دی جاتی، حالانکہ طریقہ کار یہی ہے کہ مجھے اس کی باقاعدہ اطلاع دی جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ 27دسمبر کو کراچی میں میری موجودگی ممکن نہیں، پیپلزپارٹی 27 دسمبر کو راولپنڈی میں جلسہ کر رہی ہے، وزیراعظم کو آگاہ کر دوں گا ہم 27 دسمبر کو بینظیر بھٹو کی برسی منا رہے ہیں۔

The post وزیراعظم کے دورہ کراچی کی اطلاع نہیں دی جاتی،وزیراعلیٰ سندھ appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی خراب ہے، امریکی رکن کانگریس

$
0
0

 واشنگٹن: امریکی رکن کانگریس پرامیلا جے پال کا کہنا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی خراب ہوگئی ہے اور اقلیتوں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔

امریکی رکن کانگریس پرامیلا جے پال نے بھارتی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی خراب ہوگئی ہے، بھارت بھر میں اقلیتوں پر حملے بھی بڑھ گئے ہیں۔

امریکی رکن کانگریس کا کہنا تھا کہ آسام کے 20 لاکھ باسیوں کو شہریت سے محروم کیے جانے کا خدشہ ہے جب کہ نئے قانون میں مسلمانوں کو تعصب کا شکار بنانا سیکولر پالیسیوں سےانحراف ہے، بدقسمتی سے اب شہریت کا نیا قانون متعارف کرایاجارہاہے۔

امریکی رکن کانگریس پرامیلا جے پال کا کہنا تھا بھارتی وزیرخارجہ نے مجھ سےملنےسے انکار صرف اس وجہ سے کیا کیوں کہ میں نے ایوان میں کشمیر پر قرارداد پیش کی، بھارتی وزیرخارجہ کا نہ ملنا بھارتی کمزوری کاعکاس ہے۔

رکن کانگریس پرامیلا جے پال نے کہا کہ خود بھارتی اراکین پارلیمنٹ کو بھی مقبوضہ وادی جانے کی اجازت نہیں ہے جب کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بلیک آؤٹ ختم کیاجائے۔

 

The post بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی خراب ہے، امریکی رکن کانگریس appeared first on ایکسپریس اردو.


سوات میں گھر کے کمرے میں گیس بھرنے سے 3 افراد جاں بحق

$
0
0

سوات: مینگورہ شہر میں ایک گھر کے کمرے میں گیس بھرگئی جس کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق ہوگئے۔

مینگورہ کے نواحی علاقہ طاہر آباد میں شدید سردی کے باعث گھر کے اندر موجود افراد ہیٹر جلاکر سو رہے تھے کہ اس دوران گیس خارج ہونے لگی۔

کمرے میں گیس بھرنے سے تین افراد جاں بحق ہوگئے۔ تینوں لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لئے سیدو اسپتال منتقل کردیا گیا۔ پولیس نے تحقیقات بھی شروع کردی ہیں۔

The post سوات میں گھر کے کمرے میں گیس بھرنے سے 3 افراد جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.

متنازع شہریت بل، بھارت میں نریندر مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دی جانے لگی

$
0
0

نئی دلی: بھارت میں متنازع شہریت بل کے حوالے سے نریندر مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دی جانے لگی ہے۔

بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج نے تحریک کی صورت اختیار کرلی ہے، نئی دہلی سمیت متعدد اہم شہروں میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں، قانون کے خلاف 12 دسمبر سے جاری احتجاجی تحریک میں سیکیورٹی اہلکاروں کے تشدد سے اب تک 8 سالہ بچے سمیت 25 سے زائد افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے جب کہ سیکڑوں گرفتار ہیں۔

مودی کی پالیسیوں سے پریشان بھارتی نریندر مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دینے لگے ہیں، بھارت میں شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا جس میں انہوں نے ہٹلر کے ہاتھوں میں مودی کو اٹھائے ہوئے پوسٹرز اٹھائے ہوئے تھے، پوسٹرمیں دکھایا گیا ہے کہ ہٹلر نے نریندرمودی کو ہاتھوں میں اٹھایاہے جب کہ بھارتی شہریوں کا کہنا ہے کہ اپنی پالیسیوں سے نریندرمودی نےعالمی سطح پر اپنا امیج انتہائی داغدار کرلیا ہے۔

The post متنازع شہریت بل، بھارت میں نریندر مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دی جانے لگی appeared first on ایکسپریس اردو.

Article 0

$
0
0

 لاہور: رہنما (ن) لیگ مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر قانون سازی کی ٹھیکے دار نہ بنے، سپریم کورٹ نے پارلیمان کو قانون سازی کے لیے کہا ہے۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں رہنما (ن) لیگ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ قائداعظم نے جمہوریت کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کے لیے پاکستان بنایا، قائد کا پاکستان امانت کے طور پر نوازشریف کو ملا، نوازشریف نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا اور سی پیک دیا جسے اب تالا لگ چکا ہے۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ کنٹینر پر ملک بند کرنے والوں کی دھمکیاں دینے والوں نے سچ مچ پاکستان بند کر دیا، سی پیک لانا اختیارات سے تجاوز ہے تو ایسا کرتے رہیں گے، نارووال میں اسپورٹس اسٹی بنانے پر احسن اقبال کو سزا دی جا رہی ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے رانا ثناء اللہ پر جھوٹے الزام لگائے وہ اپنا قلمدان واپس کریں، ثبوت پیش کرنے کا وقت آیا تو رہنماؤں کو ضمانت مل گئی، دوبارہ سے گرفتاریوں کا تسلسل جاری ہے، ن لیگ کسی دباؤ کا شکار نہیں ہو گی جب کہ سلیکٹڈ کی چھٹی ہونے والی ہے۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ مریم نواز اپنے والد کی تیمارداری کے لیے جانا چاہتی ہیں، مریم نواز کو روکنے کے لیے کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے تاہم  مہنگائی، لوڈشیڈنگ کے خلاف کابینہ کا اجلاس نہیں ہوتا، امید ہے مریم نواز کو انصاف ضرور ملے گا۔

ترجمان (ن) لیگ نے کہا کہ 2018ء میں بھی پرچی صرف ن لیگ کی تھی لیکن آر ٹی ایس بیٹھ گیا، عمران خان نے لوگوں کو 50 لاکھ گھر دینے تھے، لوگوں سے گھروں کے کرائے بھی نہیں دیے جا رہے۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان ملک اور قوم کے محافظ ہیں، حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر قانون سازی کی ٹھیکے دار نہ بنے، سپریم کورٹ نے پارلیمان کو قانون سازی کے لیے کہا ہے۔

The post appeared first on ایکسپریس اردو.

مقبوضہ کشمیر میں فوجی جیپ میں آتشزدگی سے 2 بھارتی فوجی ہلاک

$
0
0

کپواڑہ: مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں فوجی جیپ میں آتشزدگی کے نتیجے میں 2 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے شمال میں واقع ضلع کپواڑہ میں فوجی جیپ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں 2 بھارتی فوج ہلاک ہوگئے، دونوں اہلکار فوجی جیپ کے اندر سورہے تھے۔ حادثہ قابض بھارتی فوج کے چیرکوٹ آرمی کیمپ کے سیکٹر 8 کے اندر پیش آیا۔

پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے قابض فوجیوں کی شناخت سوراب کتاریہ اور اکشے ویرپرتاب کے نام سے ہوئی جن کا تعلق بالترتیب راجھستان اور کیرالا سے تھا اور دونوں بھارتی آرمی میں بطور ڈرائیور فرائض انجام دے رہے تھے۔

The post مقبوضہ کشمیر میں فوجی جیپ میں آتشزدگی سے 2 بھارتی فوجی ہلاک appeared first on ایکسپریس اردو.

سوری جناح!

$
0
0

قائداعظم محمد علی جناح کا مزار بہت بڑے سرسبز اور خشک میدان کے وسط میں تعمیر ایک گنبد نما عمارت ہے۔ جس کے اطراف لوہے کا جنگلہ لگایا گیا ہے اور ہر جانب دروازے بنائے گئے ہیں۔ جب میں اپنے شہر سے کراچی کےلیے نکلا تو پہلے سے کسی خاص جگہ جانے کا کوئی پلان نہیں تھا۔ میرے ذہن میں کراچی کا وہ خاکہ موجود تھا جسے میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ ہر طرف چہل پہل، موت کی رفتار سے تیز چلنے والے انسان اور بے ہنگم ٹریفک۔

میرا کراچی میں دوسرا دن تھا اور پہلی منزل مزار قائد تھی۔ مزار قائد کے اوقات جو ہمیں معلوم تھے وہ صبح 10 بجے سے رات 12 بجے کے تھے۔ جب میں کراچی کی لوکل سواری سے مزار قائد پر پہنچا تو سورج اپنی آب و تاب پر تھا۔ دور سے آرمی کے جوان پریڈ کرتے نظر آرہے تھے، جن کو دیکھ کر قدموں کی رفتار تیز ہوتی گئی اور ایک ہلکی سی پر مسکان سورج کو منہ چڑھانے لگی۔ مزار کے داخلی دروازے پر پہنچنے کے بعد علم ہوا کہ مزار قائد پر 25 دسمبر کے حوالے سے منعقد ہونے والی پریڈ کی ریہرسل کی وجہ سے لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ میں نے مزار کے اوقات انٹرنیٹ پر دیکھے تھے لیکن اب مزار 10 کے بجائے 3 بجے عوام کےلیے کھلنا تھا، جس میں ابھی بہت وقت باقی تھا۔

اب میں اپنے دوست کے رحم و کرم پر تھا، جس کے ساتھ شہر کی سڑکیں ناپنا شروع کیں۔ دوپہر 2:30 بجے کے بعد واپس مزار قائد کی طرف سفر شروع کیا۔ کراچی کی مشہور لوکل ٹرانسپورٹ سے بھی واسطہ اسی سفر کے دوران پڑا، جس کو ٹرک کی مانند سجایا گیا تھا اور رفتار بھی اسی کی طرح، یہ ایک بس نما ٹویوٹا تھی۔ کنڈیکٹر کو سمجھایا کہ مزار قائد پر اتار دینا، جس کے بارے میں نہ مجھے علم تھا اور نہ ہی میرے دوست کو۔ ہمیں معلوم ہورہا تھا کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں، سب سے بڑے دل والوں کا شہر ہے، جو باپ کی طرح بانہیں پھیلائے سب سے پیار سے بغل گیر ہورہا ہے۔

بس کے کنڈیکٹرنے ہمیں مزار قائد کے جس دروازے پر اُتارا وہ بند تھا اور ہمیں گھوم کر اب مرکزی دروازے تک جانا تھا۔ فٹ پاتھ کے بجائے مجھے مجبوراً سڑک پر چلنا پڑا کیونکہ فٹ پاتھ پر مٹی کی موٹی تہہ موجود تھی، جو جم کر تقریباً 6 سے 8 انچ تک جاپہنچی تھی۔ مٹی نے فٹ پاتھ کو پوری طرح ڈھانپ دیا تھا۔ مرکزی دروازے پر لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ پاس جانے پر علم ہوا کہ سب لوگ اندر جانے کےلیے ٹکٹ خرید رہے ہیں۔ میری آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔ میرا خیال تھا کہ انٹری فری ہوگی اور سیکیورٹی کے انتظامات سخت ہوں گے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ انٹری فیس 30 روپے مقرر کی گئی ہے، جو میری نظر میں کسی نظریے، طریقے اور منطق کے خلاف ہے۔

مزار کے مرکزی دروازے کے بائیں جانب ایک چھوٹا سا کیفے ٹیریا بنایا گیا ہے، جہاں پر لوگ مختلف اشیا کھارہے تھے۔ مرکزی عمارت کی جانب بہت سے راستے جاتے ہیں، کچھ ساختہ اور کچھ غیر ساختہ۔ آپ جس راستے پر مرضی چل پڑیں بدقسمتی اور لاپرواہی آپ کا استقبال کرے گی۔ بیشتر جگہوں پر موجود گھاس مردہ ہوچکی ہے، جس کی وجہ موسم نہیں پانی کا وقت پر نہ دیا جانا ہے۔ جس جگہ گھاس موجود ہے وہاں بے ترتیب بڑھی ہوئی نظر آئے گی۔ جو ساختہ راستے مرکزی عمارت کی طرف جاتے ہیں، ان کی حالت غیر ہے۔ پتھر بالکل بھی ہموار نہیں اور گندے بھی ہیں۔ گرد نے پورے راستے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ چلتے ہوئے آپ کے جوتے اور کپڑے گرد سے بھر جاتے ہیں۔

مرکزی عمارت کی سیڑھیوں سے نیچے ایک اسٹال سا لگایا گیا تھا جس پر آپ اپنے جوتے جمع کروا سکتے ہیں اور اگر آپ جوتوں سمیت جانا چاہیں تو بھی جاسکتے ہیں۔ جوتا جمع کروانے کے بھی آپ کو 10 روپے دینے پڑیں گے۔ جبکہ اسی عمل کی اجرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر 5 روپے ہے۔

مزار قائد پر لوگوں کا رش تھا اور طوفانِ بدتمیزی۔ لوگ دعا کرنے کے بجائے فانوس پر کام کرتے ہوئے کاریگروں کو دیکھ رہے تھے اور سیلفیاں لے رہے تھے۔ مزار کے اندر بھی گرد آپ اپنے پاؤں تلے محسوس کرسکتے ہیں۔ ایک غبارہ کسی بچے کے ہاتھ سے چھوٹ کر گنبد کی چھت پر جالگا تھا، جس سے مزار کے محافظوں کو شاید انسیت سی ہوگئی ہے کیونکہ کسی نے اسے وہاں سے ہٹانے کی زحمت نہیں کی۔

میں ابھی ان تمام صدموں سے اُبھرنے کےلیے خود کو تیار ہی کررہا تھا کہ ایک بچے کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی، جو اپنی والدہ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ کس کا مزار ہے۔ جس پر اس کی ماں نے کہا کہ ’’قائد اعظم کا‘‘۔ اس نے پلٹ کر سوال کیا ’’وہ کون ہیں؟‘‘ تو جواب آیا ’’جن کی نوٹ پر تصویر ہے۔‘‘ جوتے پہنتے ہوئے میرا دماغ سن ہوچکا تھا اور اپنی قوم پر افسوس ہورہا تھا۔

تمام ترصورتِ حال دیکھ کر سوالوں کا ایک انبار میرے ضمیر کو کوس رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ یہ کیسا سلوک ہم اپنے محسن سے کررہے ہیں؟ جس شخص نے اس ملک کو بنایا، اس قوم کو غرور کرنے کا حق دیا۔ جس شخص نے خودداری سکھائی۔ جس نے اپنا حق مانگنا بلکہ لینا سکھایا۔ جس شخص نے دنیا کو اپنے سامنے جھکایا۔ اس شخص کی آج ہم اپنے بچوں کو یہ پہچان بتاتے ہیں کہ نوٹ والے بابا جی!

ایک شخص جس کی روزانہ کی آمدن 1500 روپے تھی۔ جس کی وفات کے دن اس کی الماری میں 200 سے زائد سوٹ تھے۔ جس شخص نے زندگی میں ایک بار پہنی ٹائی دوبارہ نہیں پہنی اور جب پاکستان کے گورنر لگے تو اپنی تنخوا صرف ایک روپیہ مقرر کی۔ اس شخص کے دیدار کےلئے محض 30 روپے؟

کراچی کی بہت سی جگہوں پر میں نے سائن بورڈ دیکھے ’’Thank You Jinnah‘‘ اور مزار پر جاکر میرا ضمیر کہہ رہا تھا سوری جناح! آج ہم اپنے بچوں کو آپ کی پہچان بتاتے ہیں نوٹ والے بابا جی۔

سوری جناح! ہم آپ کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرپارہے جس کے آپ حق دار ہیں۔ ہمیں معاف کیجیے گا۔ ہم آپ کے ساتھ آپ کے شایان شان سلوک کر ہی نہیں سکتے۔ ہم اپنے محسن کو بھول گئے۔ اب آپ ہماری آنے والی نسلوں کےلیے صرف نوٹ والے بابا جی ہیں۔ جو غلط کام کرکے آپ کی وجہ سے سرخرو ہوکر نکل جاتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سوری جناح! appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 46672 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>