حضرتِ غالب نے نہ جانے کس کیفیت میں کہا تھا کہ
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سرِ رہگزار تھا
ظاہر ہے شاعروں کی اپنی کیفیات، جذبات اور محسوسات ہوتے ہیں، جو وقت، موسم اور حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔
انسان کو دیگر تمام مخلوقات سے اشرف و افضل بنانے میں آدمی کی عقل، شعور، فکر، تخیل، جذبے اور محسوسات کی ہی کارفرمائی ہے۔
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
شاعروں کا تخیل، تصور، فکر، جذبہ، احساس، کیفیت اور خواب کس وقت کن الفاظ میں ڈھل جائیں، خود شاعروں کو بھی پتہ نہیں ہوتا۔ مگر شاعروں کی یہی خوبی انہیں عام لوگوں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ جذبے کی شدت، احساس کی خوبصورتی، تخیل کی فراوانی، تصور کی وُسعت اور کیفیت کی سرشاری سے کسی بھی معمولی بات کو غیر معمولی بناسکتے ہیں۔
خوشبوئیں کپڑوں میں نادیدہ چمن زاروں کی ہیں
ہم کہاں سے ہو کے آئے ہیں بتا سکتے نہیں
۔۔۔۔۔
اسی جزیرۂ جائے نماز پر ثروت
زمانہ ہوگیا دستِ دعا بلند کیے
۔۔۔۔۔
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگ گئی آگ اُس عمارت میں
۔۔۔۔۔
اور پھر آدمی نے غور کیا
چھپکلی کی لطیف صنعت میں
شاعر بعض اوقات ایک ہی غزل میں یا مختلف اشعار میں مختلف کیفیات کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں، جو بعض اوقات ایک دوسرے سے نہ صرف قطعی مختلف ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے سے متصادم بھی ہوتی ہیں۔ جون ایلیا نے ایک جگہ کہا
حاصلِ کُن ہے یہ جہانِ خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
دوسری جانب وہ یہ بھی فرماتے ہیں
میں کیوں بھلا قضا و قدر سے بُرا بنوں
جو کچھ ہے انتظامِ خدایا، درست ہے
یعنی ایک جانب آپ کہتے ہیں کہ کُن کے نتیجے میں جلدی جلدی اور سرعت سے بننے والا یہ جہان نہ تو مکمل ہے اور نہ ہی اچھا ہے، بلکہ خراب ہے یعنی رہنے لائق نہیں ہے۔
کام نہیں کچھ کرنے لائق
خاک اُڑائی جاسکتی ہے
جبکہ دوسری جانب آپ اس انتظامِ خدایا کو درست قرار دیتے ہوئے خود کو ہر طرح کی ذمے داری سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ صوفیا کرام فرماتے ہیں کہ آدمی نے خدا کی پہچان کی جو ذمے داری اٹھا رکھی ہے، اسے اٹھانے سے زمین، پہاڑوں اور فرشتوں تک نے معذرت چاہی تھی۔
کوئی نہیں ہے انت کہ بے انتہا ہوں میں
یعنی ترے خیال سے یکسر جُدا ہوں میں
پھر ایک طرف سیدی جون ہی کا یہ دعویٰ بھی موجود ہے کہ
سب خدا کے وکیل ہیں لیکن
آدمی کا کوئی وکیل نہیں
اور دوسری جانب وہ یہ بھی فرماتے ہیں
آدم، ابلیس اور خدا
کوئی نہیں یکسُو مجھ میں
وکیل سے یاد آیا کہ لاہور کے اسپتال میں توڑ پھوڑ، دنگا فساد اور غنڈہ گردی کرنے والے وکلا تو آج کل خود پولیس سے چھپتے اور اپنے ضمانتی ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
آدمی کے حسد، انتقام، نفرت، وحشت، پاگل پن اور تعصب کی کوئی حد نہیں۔ اس کا ایک چھوٹا سا مظاہرہ حال ہی میں لاہور کے وکلا نے دکھایا۔ جبکہ تاریخ انسانی اس قسم کے بے شمار مظاہروں کی شاہد ہے، جب آدمی اپنے ہی جیسے دو ہاتھوں پیروں والے آدمیوں پر ظم و ستم اور تشدد کے پہاڑ توڑتا رہا اور اپنے دشمنوں کی لاشوں کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندتا رہا، اپنے دشمنوں کےسر کاٹ کر ان سے فٹبال کھیلتا رہا۔
اصلِ شہود، شاہد و مشہود ایک ہیں
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
جب آدمی کے پاس طاقت اور اختیار ہوتا ہے تو وہ بندے کو بندہ نہیں سمجھتا اور خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے، چاہے وہ طاقت اور اختیار اُس نے جھوٹ، دھوکے اور دغابازی سے ہی کیوں نہ حاصل کیا ہو۔ کراچی جسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، اس کی راتیں اگرچہ روشن ہوسکتی ہیں مگر اس کے سیاہ ترین دنوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ اسی شہرِ ناپُرساں کی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک دن 12 مئی کا بھی ہے، جس دن ایک جھوٹ، دھوکے اور دغابازی سے طاقت اور اختیار حاصل کرنے والا شخص ہوا میں مکے لہرا لہرا کر اپنے دشمنوں کو عبرت کا نشان بنادینے کا دعویٰ کرتا دکھائی دیتا تھا اور اس شہر کی سڑکوں پر تڑپتے سیکڑوں زخمی اور درجنوں مقتول کسی مسیحا کے انتطار میں تھے۔ مگر اس شہر کی مسیحائی کا دعویٰ کرنے والے کسی اور طرح کی دوائیں بانٹنے میں لگے تھے۔
اسی شخص نے، جس کی ایک امریکی اہلکار کے فون پر گھگھی بندھ گئی تھی، پرائی آگ کو اٹھا کر اپنے وطن میں لے آیا جس نے اس ملک کے سیکڑوں گھروں کو جلا کر راکھ کردیا۔ یہ اسی شخص کی پالیسیاں تھیں جن کے تحت بھتہ خوروں کو کھلی لوٹ مار کی اجازت دی گئی۔ اپنے ایئربیس طاقتوروں کے حوالے کیے۔ ملک میں ڈرون حملوں کی اجازت دی اور ایسے ہزاروں افراد کو ان قوتوں کے حوالے کیا گیا جن کا پسندیدہ مشغلہ آدمی کو تشدد کا نشانہ بنا کر اس کی بے بسی کا مضحکہ اڑانا ہے۔ ’’یور پین از مائی پلیژر‘‘ کا نعرہ لگانے والی ان قوتوں کے سامنے بھیگی بلی بن جانے والے منافقین اپنے ملک کے کمزور افراد کے سامنے مکے لہراتے اور دوسروں کو عبرت کا نشان بنادینے کی دھمکیاں دیتے دیکھے گئے۔
اسی شخص نے اپنے کئی بیانات میں کہا کہ اس کی ذاتی طور پر کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اس ملک میں جو قانون کی رِٹ کو چیلنج کرے گا اور آئین کی خلاف ورزی کرے گا، اس کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ مگر یہ وقت بڑا ظالم ہے اور یہ دنیا مکافاتِ عمل کا گھر ہے۔ بقولِ شاعر
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
آج ایک اور صاحب فرماتے ہیں کہ قانون کی رِٹ کو چیلنج کرنے اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کی لاش کو گلیوں میں گھسیٹا جائے اور تین دن تک لٹکا کر رکھا جائے تاکہ اسے عبرت کا نشان بنایا جاسکے۔
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سرِ رہگزار تھا
غالب نے تو یہ شعر نجانے کس کیفیت میں کہا تھا اور شاعروں کی باتوں میں تو چونکہ علامت، استعارے اور ابہام کی گھمن گھیریاں ہوتی ہیں، اس لیے غالب کے بارے میں حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ اس فکر کے پیچھے اس کے دماغ و دل میں کیا حقائق پنہاں تھے۔ مگر ایک ظالم ڈکٹیٹر کی لاش کو گلیوں میں گھسیٹنے کا حکم صادر کرنے والے شخص کی ذہنیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کے دوران ہمیں ادراک ہوا کہ ’’آدمی کے حسد، انتقام، نفرت، وحشت، پاگل پن اور تعصب کی کوئی حد نہیں‘‘
لاکھ اختلافات کے باوجود ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ اس طرح کسی کی لاش کو گلیوں میں گھسیٹا جائے یا کسی بھی انسان کے جسدِ خاکی کی بے حرمتی کی جائے۔ مگر یہ بات تو طے ہے کہ یہ دنیا مکافاتِ عمل کا گھر ہے اور یہاں کے معاملات اسی دنیا میں لوٹا دیئے جاتے ہیں۔ دوسروں کی لاشوں کو نالوں میں بہانے والوں اور خود سے اختلاف رکھنے والوں کی نسلیں مٹادینے کے دعوے کرنے والوں کے بارے میں آج اس قسم کے بیانات کا سامنے آنا اس بات کی ضمانت ہے کہ اس میں عقل والوں کےلیے نشانیاں ہیں۔
خدا کرے کہ تیسری دنیا کے اس پسماندہ ملک میں رہنے والے تنگ نظر اور متعصب لوگ، انسان کی اصل صورت دیکھ سکیں اور اس کی عظمت کا درست اندازہ لگاسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو appeared first on ایکسپریس اردو.