Quantcast
Channel: The Express News
Viewing all 46819 articles
Browse latest View live

جہاں گشت

$
0
0

 قسط نمبر 72

حنیف بھائی برسات کا طوفان بنے ہوئے تھے، اُن کی آنکھوں سے رنج و غم و ملال ساون کی جھڑی کی طرح بہہ رہے تھے۔ انہیں آہ و زاری روا تھی کہ بابا جی حضور نے انہیں انتہائی لاڈ پیار سے پالا تھا، ان کی ہر خواہش پوری کی تھی، وہ انہیں دوبارہ زندگی کی طرف لائے تھے، نہ صرف یہ بل کہ انہوں نے ان کی تلخ نوائی کو برداشت کیا تھا اور ہمیشہ ان کی گستاخی کو بھی درگزر کیا اور انہیں معصوم بچہ سمجھتے ہوئے معاف کیا تھا۔ وہ خود تو ان کی ہر تلخ بات کو خندہ جبیں سے سہتے تھے لیکن اگر کوئی حنیف بھائی سے گستاخی کا سوچتا بھی تو اسے بالکل برداشت نہیں کرتے تھے۔

فقیر کو تو اس کا تجربہ بھی تھا کہ جب اُس نے حنیف بھائی سے بدتمیزی کی تو اسے پابندِ زنجیر کیا گیا۔ فقیر اس کا بھی عینی شاہد ہے کہ بابا جی حضور اپنے اس دعوے میں کامل صادق تھے کہ انہوں نے حنیف بھائی کو ماں کی طرح پالا پوسا ہے، اور پھر حنیف بھائی کی زندگی کے سب سے بڑے خواب اُس ماہ وش سے جیون بندھن میں بندھنے کو بھی شرمندۂ تعبیر کیا تھا اور یہ سارے امور بہ حُسن و خوبی و اہتمام سر انجام دینے کے بعد بابا جی اس دنیائے ناپائیدار سے رخصت ہوئے تھے۔ اور بابا جی حضور نے ان کے لیے کیا کِیا تھا! فقیر آپ کو آگے بتائے گا۔

حنیف بھائی کا سنبھلنا مشکل ہوگیا تھا اور ان کی حالت دیکھ کر وہ ماہ وش بھی انتہائی آزردہ تھی۔ آخر لوہار بابا نے انہیں فقیر سے علاحدہ کیا اور پھر خود ان کا سہارا بنے۔ انہیں کچھ قرار آیا اور وہ گفت گُو کے قابل ہوئے تو فقیر سے بابا جی حضور کی رخصتی کی تفصیل معلوم کی، جو فقیر نے مختصر اُن کے گوش گزار کی۔

ان کا سب سے بڑا شکوہ کہ انہیں فقیر نے بروقت اطلاع کیوں نہیں دی تو فقیر نے بابا جی حضور کا خط انہیں دیتے ہوئے بتایا کہ یہ بھی بابا جی کا حکم تھا کہ آپ کو اس کی اطلاع نہیں دی جائے اور بس یہ خط آپ تک پہنچا دیا جائے سو فقیر یہ آپ کے حوالے کر رہا ہے۔ حنیف بھائی کے ہاتھ سے وہ خط اس ماہ وش نے اچک لیا تھا اور پھر تو منظر ہی بدل گیا۔ چوں کہ وہ خط بابا جی نے فقیر سے ہی رقم کرایا تھا تو فقیر اس کے مندرجات سے آگاہ تھا۔

بابا جی حضور نے انہیں نیک زندگی گزارنے اور اپنے سسرال سے انتہائی ادب و احترام کا درس دیتے ہوئے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ کسی بھی حالت میں اپنی ساس سسر کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گے، ان کی تلخ نوائی کو بھی برداشت کریں گے اور انہیں حقیقی ماں باپ سمجھتے ہوئے ان کے سامنے اُف بھی نہیں کہیں گے۔

بابا جی حضور نے انہیں اس ماہ وش سے انتہائی حسنِ سلوک کی تلقین کی تھی اور تنبہہ بھی کہ اگر انہوں نے ان کی حکم عدولی کی تو وہ روزِ قیامت ان کا گریبان پکڑیں گے، اس کے ساتھ انہوں نے حنیف بھائی کے لیے خطیر رقم بھی ایک صاحب کے پاس امانتاً رکھوائی تھی اور ان سے کہا تھا کہ وہ ان سے یہ خط دکھا کر وصول کرلیں، کسی پر بار نہ بنیں اور اس رقم سے ایمان داری سے اپنا کاروبار کریں تو رب تعالٰی برکت عطا فرمائے گا اور انہیں کسی کا بھی محتاج نہیں رکھے گا۔

انہوں نے انہیں انتہائی تلقین کی تھی کہ وہ اپنی آمدن کا ایک حصہ روزانہ کی بنیاد پر نادار خلقِ خدا کے لیے رکھیں۔ دیگر باتیں فقیر آپ کو بتانے سے قاصر ہے۔ بابا جی حضور کا خط جو وہ ماہ وش بہ آواز بلند پڑھ رہی تھی، سُن کر حنیف بھائی پر پھر دورہ پڑا جو پہلے سے زیادہ اذیّت ناک تھا، لوہار بابا کے ساتھ فقیر اور وہ ماہ وش بھی انہیں سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ اپنے حال سے باہر ہی نہیں آرہے تھے، آخر لوہار بابا نے فقیر اور اس ماہ وش کو کمرے سے باہر نکلنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ہی ہم دونوں باہر آگئے۔

اندر کیا ہوا فقیر نہیں جانتا۔ باہر نکل کر اس ماہ وش نے مجھے اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے کہا: بابا جی تو رہے نہیں، اب تم بھی ہمارے ساتھ چلو، یہاں کیا کروگے ۔۔۔۔ ؟ فقیر نے اس کی جانب دیکھا اور کہا: مجھے بابا جی حضور ہی لوہار بابا کے پاس چھوڑ گئے ہیں، اب وہی میرے سرپرست ہیں، انہیں چھوڑ کر میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ فقیر کی باتیں اس کے لیے ویسے ہی اجنبی تھیں اب تو حیرت بھی اس میں شامل تھی۔

خاصی دیر ہوچکی تھی کہ لوہار بابا نے ہمیں اندر بلایا، حنیف بھائی سنبھل چکے تھے۔ ماہ وش کو پیاس لگی تو اس نے فقیر سے پانی مانگا، فقیر نے گھڑے سے پیتل کے گلاس میں پانی نکال کر اسے دیا، اس نے ابھی اسے لب سے لگایا ہی تھا کہ وہ بولی: کیا پانی میں عرق گلاب ملایا ہوا ہے! اس سے پہلے کہ فقیر کچھ کہتا لوہار بابا بول پڑے: بیٹا کچھ ملایا ولایا نہیں ہے بس یہ آپ لوگوں کے آنے کی برکت ہے جو خُوش بُودار ہوگیا ہے، بس پی لو اسے اور شکر ربّی ادا کرو۔ اس نے بابا جی کی جانب دیکھا اور پانی پینے کے بعد تو وہ بابا جی سے بہ ضد تھی کہ اسے بتایا جائے کہ اس پانی میں کیا ملایا گیا ہے جو اتنا فرحت بخش ہے لیکن بابا جی مسکراتے ہوئے اپنی پہلی کہی بات ہی دہراتے رہے۔ پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔۔۔۔۔ !

حنیف بھائی نے لوہار بابا سے اصرار کیا کہ وہ ان کے ساتھ بابا جی حضور کی لحد پر فاتحہ خوانی کے لیے چلیں اور بابا جی نے ان کی بات مان لی تھی۔ کار وہ ماہ وش چلا رہی تھی ، حنیف بھائی نے بے حد اصرار کیا کہ بابا جی آگے بیٹھیں لیکن انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور پچھلی نشست پر بیٹھ گئے۔ ہم سب خاموشی سے بابا جی حضور کی جائے آرام کی جانب رواں تھے۔ مخبر صادق و امین، راحت عاشقین، رحمۃ اللعالمینؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ قبر کو صرف مٹی کا ڈھیر مت سمجھو، یہ جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنّم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔‘‘ پھر ہم سب جنّت کے باغ میں پہنچے سامنے کچی قبر میں بابا جی حضور محو آرام تھے۔

رنگ و خوش بُو کے، حُسن و خوبی کے

تم سے تھے، جتنے استعارے تھے

اب فقیر کہے بنا نہیں رہ سکتا کہ تھے نہیں جناب ! بہ فضلِ ربّی اب تک ہیں اور رہیں گے۔ حنیف بھائی پھر سے برسات بنے اور بابا جی حضور کی قبر اطہر سے لپٹ گئے، تھوڑی دیر بعد اس کے پہلو میں وہ سو چکے تھے۔ فقیر، بابا جی اور ماہ وش خاموش بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے چاروں اُور قبریں تھیں، کچھ تازہ بنی ہوئیں جن پر گلاب کی پتّیاں مرجھائی ہوئی پڑی تھیں اور زیادہ تر کے آثار ہی رہ گئے تھے۔

انسان کا انجام دیکھنا ہو تو قبرستان سے بہتر جگہ کوئی ہے ہی نہیں، وہ جو خلق خدا پر قہر بنے ہوئے تھے اب ان کی قبروں پر آوارہ کتّے لوٹتے رہتے ہیں اور فقیر کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ بعض کی تو ہڈیاں بھی بھنبھوڑتے ہیں اور کچھ ایسی بھی قبریں ہوتی ہیں جن کے قریب بھی نہیں بھٹکتے جی! آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرتا ہے، دیکھیے! کیا یاد آیا

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!

تُونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

لیکن کہنے دیجیے ناں کہ اُس سے کیا پوچھنا کہ انسان کو خود جاننا چاہیے ناں۔ کچھ قبریں تو زندہ بھی ہوتی ہیں جی، اب اس پر کیا بات کریں، جائیے قبرستان اور خود مشاہدہ کیجیے ناں۔

موت اُس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

حنیف بھائی کو بابا جی حضور کی قبرِ راحت سے لپٹے سوئے ہوئے خاصی دیر ہوچکی تھی۔ ماہ وش کو تشویش ہوئی تو اس نے بابا جی سے پوچھا، بابا جی مسکرائے اور اسے تسلی دی، لیکن زبانی تسلی سے کیا ہوتا ہے جی۔ حنیف ٹھیک تو ہیں ناں! اس مرتبہ اس نے فقیر سے پوچھا تھا۔ ہوں گے ٹھیک پتا نہیں، سنتے ہی وہ بے قرار ہوگئی۔

بابا جی نے اسے پھر تسلی دی اور صبر سے انتظار کا کہا، پھر شاید اس نے خود پر قابو پالیا تھا۔ حنیف بھائی جاگ گئے تھے تو اُسے کچھ سکون ملا تھا۔ وہ نم آنکھوں سے مُسکراتے ہوئے، کبھی دیکھے ہیں ایسے نین کہ نم ہوں اور مسکراتے ہوں جی! ہمارے قریب آکر بیٹھ گئے تھے کہ فقیر نے ان سے پوچھا: ہاں جی! حنیف بھائی تو بابا جی حضور بھی آپ کو چھوڑ کر چلے گئے ؟ وہ مجھ سے لپٹ گئے تھے، میں غلط سمجھا تھا میرے بھائی وہ ہمارے ساتھ ہی ہیں، بس وہ اتنا ہی کہہ سکے تھے۔

یہ سن کر اس ماہ وش کو تسلی تو ہوئی تھی لیکن اس کی حیرانی میں اضافہ بھی ہوا تھا۔ پھر بابا جی نے انہیں تسلی دیتے ہوئے واپس اپنے گھر جانے کا کہا تھا لیکن وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر بہ ضد تھے۔ بابا جی نے انہیں تنبیہ کی تھی کہ وہ آئندہ اس طرح کی ضد نہیں کریں گے اور اگر انہوں نے اور جب مناسب سمجھا مجھے ان کے گھر صرف ملاقات کے لیے ضرور بھیجیں گے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ٹھکانے تک چھوڑنے کی پیش کش بھی کی تھی، بابا جی نے اسے بھی رد کرتے ہوئے انہیں اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کردیا تھا۔

فقیر نے آپ کو بتایا تو تھا ناں کہ ایک درویش کی کرامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ تسلیم کا پیکر ہوتا ہے، اندیشہ ہائے گوناں گوں سے ناآشنا، رب کی ساری زمین اس کا گھر ہے جی! ہم پہلے تو قبرستان میں گھومتے رہے اور پھر باہر نکل آئے۔ بابا جی میرے سوالوں کو سُلجھاتے اور کبھی اور الجھاتے چلے جارہے تھے۔ ایک بستی سے گزرتے ہوئے ہمیں دور ایک جگہ کچھ لوگ نظر آئے۔ خالی میدان تھا وہ اور اس میں ایک بڑے پختہ کمرے کے باہر مرد و زن کا ہجوم۔ فقیر نے بابا جی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بابا جی نے فرمایا: جلدی کیا ہے چل کے دیکھ لیتے ہیں بیٹا۔ تین لوگ مالائیں پہنے کھڑے تھے، کمرے میں کون تھا یہ نظر نہیں آرہا تھا۔

ان تین لوگوں میں سے ایک کو فقیر پہچان گیا تھا وہ ہماری بستی میں ہی رہتا تھا، میں نے بابا جی سے اس کا بتایا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ ہمارے قریب پہنچتے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا، بابا جی اور پابند زنجیر گیسو دراز فقیر کو دیکھ کر ہجوم ہماری طرف متوجہ ہوا، اس سے پہلے کہ بابا جی ان سے بات کرتے پانچ لوگ ہمارے سامنے آن کھڑے ہوئے، ان میں سے ایک تنومند ادھیڑ عمر جو ان کا بڑا تھا، نے پہلے تو بابا جی اور پھر میری طرف قہر آلود نظروں سے دیکھا، فقیر تو ہے ہی بے صبرا جی! اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے کچھ کہتا میں اس سے مخاطب تھا: کیا دیکھ رہا ہے تُو، پہچانتا نہیں کیا فقیر کو، یہ کیا پاکھنڈ مچایا ہوا ہے تُونے، کیوں باز نہیں آجاتا اپنی خصلت سے، کیوں معصوموں کو گم راہ کرتا اور ان کے خون پسینے کی کمائی بھی لُوٹ رہا ہے، چل اب سیدھی طرح سے اپنی راہ لے۔

فقیر نہ جانے کس رو میں یہ سب کہتا رہا، بابا کھڑے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے۔ اس نے فقیر کو تو نظر انداز کیا اور بابا جی سے بولا: سرکار ہم بھی مرشد والے ہیں، آپ اپنا کام کریں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔ بابا جی نے اسے خاموشی سے ایک نظر دیکھا، اس سے پہلے کہ بابا جی کچھ کہتے ان میں جو ہماری بستی کا رہنے والا تھا آگے بڑھا اور بابا جی کے پاؤں پکڑ کر بیٹھ گیا، مجھے معاف کردیں سرکار! میں نے اسے بتا دیا تھا کہ آپ کے سامنے نہ آئے لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور آپ کے سامنے آگیا، اس سے جو سلوک کرنا ہو کریں، بس مجھے معاف کردیں، میں آئندہ اس کے پاس بھی نہیں آؤں گا۔

آس پاس کے لوگ ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے، بابا جی ان لوگوں سے مخاطب ہوئے: کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو، کیا تم لوگ خدا کو بھول بیٹھے ہو، وہی ہے بس سب کا مددگار، وہی ہے کارساز و نگہہ بان، وہی ہے سارے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے والا، وہی ہے جو ہر شے اور کام پر قادر ہے، اس کی مرضی کے بنا تو پتّا بھی نہیں ہل سکتا، وہ کبھی سوتا نہیں، ہر وقت ہر جگہ اپنی ہر مخلوق کو دیکھتا اور ان کی ہر بات سنتا ہے، وہ تو دلوں کا حال بھی جانتا ہے، بس اس سے لو لگاؤ، اسی سے مدد مانگو، اسی کے سامنے اپنا سر جھکاؤ، کوئی انسان کسی کو کیا دے گا، وہ تو خود محتاج و بے بس ہے، بس آج اور ابھی مجھ سے وعدہ کرو کہ صرف رب تعالٰی کے سامنے اپنی ہر مراد رکھو گے اور جلدی نہیں مچاؤ گے، صبر سے رہو گے اور اپنی جائز اور روا خواہش کے پورے ہونے کے لیے بس اس ذات باری تعالٰی پر یقین رکھو گے اور میں لوہار تم سب کو اس کی ضمانت دیتا ہوں کہ تم سب کی حاجات پوری ہوں گی انشاء اﷲ۔

مجمع میں سکوت تھا، پھر ان میں سے بعض نے بابا جی کے پاؤں چُھونے کی کوشش کی تو بابا جی نے سختی سے انہیں منع کرتے ہوئے فرمایا: میں بھی تم جیسا ہی ہوں، بے بس و بے کس و محتاج، میں بھی انسان ہوں، بس اپنے پالن ہار سے لو لگاؤ، بس اسے ہی اپنا کارساز سمجھو۔ لوگ منتشر ہوگئے تھے بس اکّا دکّا ہی رہ گئے تب بابا جی اس نوسرباز سے مخاطب ہوئے: اب بتاؤ تم کون سے مرشد والے ہو ؟ کیا اُس نے ہی یہ سکھایا ہے کہ خلق خدا کو گم راہ کرو، ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کھیسے کو بھرو، حرام کھاؤ اور حرام کاری کرو، یہی سکھایا ہے تمہیں تمہارے مرشد نے، بولو۔ بابا جی کا لہجہ دوٹوک تھا، وہ اپنے ساتھیوں سمیت زمین پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا۔

اس کا کوئی جواب نہ سن کر بابا جی نے اسے اپنا فیصلہ سنادیا: تمہارے پاس سورج غروب ہونے تک کا وقت ہے، اپنا سامان اٹھاؤ اور جاؤ اور سنو کسی اور جگہ پھر سے یہ مکروہ دھندا شروع کرنے کا سوچنا بھی مت، کام کاج کرو اور اپنا پیٹ رزق حلال سے بھرو، اگر تم نے ان باتوں پر عمل نہ کیا تو اپنے نقصان کے خود ذمّے دار ہوگے۔ بابا جی نے فقیر کا ہاتھ پکڑا اور ہم اپنی راہ لگ گئے۔ فقیر نے دور جاکر مڑ کر ان سب کو دیکھا تھا جو بُت بنے وہیں کھڑے ہمیں جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ راستے میں بابا جی نے فقیر کو چھیڑا: بیٹا جی! تم سے میں بہت خائف ہوگیا ہوں۔ میں نے پوچھا کیوں بابا جی، تو ہنس کر بولے تم جس لہجے میں اس سے بات کر رہے تھے تو لگا تھا کہ اب تو کسی کی خیر نہیں ہے۔ پتا نہیں کیسے اور کیوں بلا سوچے سمجھے بس بولتا چلا گیا میں بابا جی۔

وہ پورا دن حنیف بھائی کی نذر ہوگیا تھا اور وقت عصر کی ابتدا ہوچکی تھی کہ بابا جی نے فقیر سے کہا: تم گھر جاؤ میں کچھ دیر بعد آؤں گا۔ فقیر نے پہلی مرتبہ ان سے پوچھ لیا کہاں جاتے ہیں آپ روزانہ ؟ جواب تو کوئی نہیں دیا بس اتنا فرمایا: ہر حرکت کے پیچھے اک اسرار چُھپا ہے، تم ہمیشہ جلدی کرتے ہو، وقت کا انتظار کرنا سیکھو بیٹا! کہتے ہوئے بابا جی اُس کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.


کویت میں ایک بھیڑ دو کروڑ روپے میں نیلام، ویڈیو وائرل

$
0
0

کویت سٹی: کویت میں ایک غیر معمولی حجم والی بھیڑ 40 ہزار دینار یعنی 2 کروڑ روپے سے زائد رقم میں نیلام ہوئی ہے۔

کویتی میڈیا کے مطابق دنیا کی سب سے مہنگی سفید رنگ کی حامل بھیڑ کی نیلامی سوشل میڈیا پر براہ راست دکھائی گئی۔ سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس میں حصہ ڈالا تاہم سب سے زیادہ بولی 40 ہزار دینار لگائی گئی۔ جس پر بھیڑ کو بولی لگانے والے شخص کے حوالے کردیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کی سب سے انوکھی اور منفرد نیلامی تھی۔

نیلام ہونے والی سفید رنگ کی بھیڑ کی سب سے خاص بات اس کا حجم تھا جو کویت میں پائے جانے والے بکروں کے مقابلے میں کافی غیر معمولی ہے۔ لمبی، تگڑی اور گوشت سے بھری بھیڑ نے سب کی توجہ حاصل کرلی تھی اس لیے شرکاء بولی بڑھاتے رہے۔

کویت قیمتی اور مہنگے مویشیوں کے حوالے سے کافی شہرت رکھتا ہے اور اس حوالے سے کئی عالمی ریکارڈ اپنے نام کرچکا ہے۔ چند روز قبل ہی کویت میں  ’عرنون‘ نامی ایک اونٹ 16 ملین کویتی دینار ( 8 ارب روپے سے زائد) میں نیلام ہوا تھا۔ جس کے بعد اس اونٹ کا گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا کے مہنگے ترین اونٹ کے طور پر اندراج ہوا۔

The post کویت میں ایک بھیڑ دو کروڑ روپے میں نیلام، ویڈیو وائرل appeared first on ایکسپریس اردو.

مہران کا موتی سکھر

$
0
0

ضلع گھوٹکی، کشمور-کندھ کوٹ، شکار پور اور سانگھڑ کے درمیان واقع ”سکھر” نہ صرف سندھ دھرتی کا تیسرا بڑا شہر ہے بلکہ یہ ایک ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ دریائے سندھ، ضلع سکھر کی شمالی و غربی سمت میں بہتا ہے، جہاں اس کا پاٹ کافی چوڑا ہے اور اس میں کئی چھوٹے بڑے جزیرے موجود ہیں۔

5165 مربع کلومیٹر پر مُحیط ضلع سکھر کی آبادی 15لاکھ کے قریب ہے جس میں نیو سکھر، سکھر سٹی، صالح پٹ، روہڑی اور پنوں عاقل کی تحصیلیں شامل ہیں۔ سکھر، نہ صرف صوبہ سندھ کے مرکزی شہروں میں سے ایک ہے بلکہ یہ وادیٔ مہران کے تمام قدیم و مشہور آثارِقدیمہ کا نُقطہ آغاز بھی ہے۔

سکھر عربی زبان کے لفظ ”سقر ”سے نکلا ہے جس کا مطلب سخت یا شدید کے ہیں۔ 10 ویں صدی عیسوی میں عربوں نے سندھ فتح کیا تو سکھر میں انہوں نے شدید گرم و سرد موسم کا سامنا کیا جس پر اسے سقر کا نام دیا گیا اور یہی لفظ مقامی زبان میں بگڑ کر سکھر بن گیا۔ سکھر کو ’’دریا ڈنو‘‘ یا دریا کا تحفہ بھی کہا جاتا ہے۔1901 میں بنایا گیا ضلع سکھر ایک وسیع و عریض ضلع تھا جس سے 1977 میں شکارپور اور 1993 میں گھوٹکی کو کاٹ کر علیحدہ ضلع بنایا گیا۔ضلع کا صدر مقام سکھر شہر ہے، جو بالائی سندھ میں سب سے بڑی شہری آبادی کا حامل شہر ہے۔

یہاں کا سکھر بیراج سندھ کے نہری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ یہاں کا صنعتی علاقہ بالائی سندھ کی صنعتی ضروریات پوری کرتا ہے۔

پنو عاقل میں ملک کی بڑی عسکری چھاؤنیوں میں سے ایک واقع ہے اور یہ شہر اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ صالح پٹ زیادہ تر دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ ان 5 تحصیلوں میں سے بہ لحاظ آبادی و رقبہ روہڑی سب سے چھوٹی تحصیل ہے، لیکن تاریخی اعتبار سے اور اہم ریلوے جنکشن کے باعث اس کی اہمیت زیادہ ہے۔

طبعی خدوخال کے لحاظ سے اس ضلع کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک صحرائی اور دوسرا میدانی۔

ضلع کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں پاکستان کا سب سے بڑا ریگستان ”تھر” واقع ہے، جسے مقامی افراد ”نارا” بھی کہتے ہیں۔ یہ صحرا بھارت کی ریاست راجستھان تک پھیلا ہوا ہے اور ایشیا کے بڑے ریگستانوں میں شمار ہوتا ہے۔ مغربی اور شمالی حصوں میں زیریں سندھ کا زرخیز میدان واقع ہے، جسے گڈو اور سکھر بیراج سے نکلنے والی کئی نہریں سیراب کرتی ہیں۔ ضلع کے جنوبی کونے میں ”چونے کے پتھر” کی 25 میل لمبی اور 10 میل چوڑی ایک پٹی ہے جسے ”روہڑی ہلز” کہا جاتا ہے۔

اِن پہاڑیوں میں وادیٔ مہران کے چند تاریخی آثارِقدیمہ واقع ہیں۔ دریائے سندھ سکھر اور روہڑی کے شہروں کے درمیان سے گزرتا ہے جہاں اس پر سکھر بیراج تعمیر کر کے اس سے کل 5 بڑی نہریں نکالی گئی ہیں۔بھارتی شہر جیسلمیر کی طرح سکھر بھی ایک دِل کش نخلستانی شہر ہے جو کسی حد تک اپنے ثقافتی ورثے، طرزِتعمیر اور اسٹائل میں جیسلمیر کی مشابہت رکھتا ہے لیکن بلاشبہہ سکھر میں موجود پرانے زمانے کی خوب صورت عمارتیں اور حویلیاں اپنے شوخ رنگوں اور نقش و نگار کی بدولت ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔یہ شہر دیکھنے والوں کے لیے انتہائی کشش کا حامل ہے اور کسی بھی اچھے سیاح کو بالکل بھی مایوس نہیں کرتا۔ یہاں مسلم فنِ تعمیر کے علاوہ ہندومذہب سے جُڑی چند مشہور جگہیں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ آئیے اس شہر کے ورثے کو کھنگالتے ہیں۔

1۔ لینس ڈاؤن برج:
لینس ڈاؤن انیسویں صدی میں ”دریائے سندھ” پر بنایا گیا لوہے کا عالیشان پُل ہے جو سکھر کو روہڑی سے مِلاتا ہے۔ اس کا نام برطانوی ہند کے وائسرائے لارڈ لینس ڈاؤن کے نام پر رکھا گیا اور یہ 25 مارچ 1889ء میں تعمیر ہوا۔ اس زمانے میں یورپی طرز کی بھاری وردیاں سکھر کی شدید گرمی میں انتہائی تکلیف دہ لگتی تھیں، اس لیے پُل کی افتتاحی تقریب صبح سویرے رکھی گئی۔

اپنی تعمیر کے وقت یہ دنیا کا سب سے لمبا ”معلق آہنی پُل” تھا جو ریلوے کے زیرِانتظام تھا۔ تقریباً 3300 ٹن وزنی اس کا ڈھانچا لندن سے بن کہ آیا جسے ”الیگزینڈر میڈوز” نامی انجنیئر نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں 6 انسانی زندگیاں کام آئیں۔

پھر جب 6 مئی 1962ء میں ایوب پل تعمیر ہوا تو اس پل کو ٹرینوں کے لیے بند کر دیا گیا اور ریلوے ٹریفک نئے پل پر منتقل کردیا گیا۔ اب یہ پل صرف گاڑیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس پل سے متعلق ایک نہایت مزے دار قصہ آپ کو سناتا ہوں۔ سِندھ میں خوشی کی اکثر تقاریب کا آغاز اور اِختتام مشہور لوک گیت ”ہو جمالو” پر ہوتا ہے۔ اس گیت کی تخلیق کا سبب بھی سکھر کا یہ لینس ڈاؤن پُل ہے۔

1932 میں جب ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریائے سندھ پر لوہے کا یہ پُل تعمیر ہو چکا تب ریلوے کا کوئی بھی ڈرائیور اس پل پر ریل گاڑی چلانے کو آمادہ نہیں ہوا کیوںکہ یہ پُل بغیر کسی ”کھمبے” یا ستون کے تھا۔ اس مسئلے کا حل انگریز انتظامیہ نے ایسے نکالا کہ سکھر جیل میں قید سزائے موت کے قیدیوں کو ٹرین چلانے کی تربیت دی جائے اور ان سے ٹرین چلوائی جائے۔ سکھر جیل کے ایک قیدی ”جمالے” کے ساتھ یہ معاہدہ کیا گیا کہ وہ اس پل پر سے ریل گاڑی چلا کر لے جائے گا تو اس کی سزا معاف کردی جائے گی۔

پُل کے ٹرائل کی تقریب ہوئی اور جمالا ریل گاڑی کو پُل پر سے کام یابی سے گزار کر، سکھر سے روہڑی کی طرف لے گیا۔ اس کی سزا معاف کر دی گئی۔ بڑا میلا لگا اور جشن منایا گیا اور اس جشن میں جمالے کی بیوی نے یہ گیت گایا:

ہو منجھو کھٹی آیا خیر ساں
ہو جمالو
ہو جیکو روہڑی واری پُل تاں
ہو جمالو
ہو جیکو سکھر واری پُل تاں
ہو جمالو
ہو منجھو جمالو جتن ساں
ہو جمالو
ترجمہ: میرا وہ جیت کے آیا خیر سے، ہو جمالو۔
وہ جو روہڑی والے پل سے، ہوجمالو۔
وہ جو سکھر والے پل سے، ہو جمالو۔
میرا جمالو جیت کے آیا، ہو جمالو
اور اب ہو جمالو کا یہ گیت سندھی ثقافت کی روح اور سندھ میں خوشی کی پہچان بن گیا ہے۔

2۔ ایوب برِج :
ایوب خان کے دور میں سندھو ندی کو دوبارہ تسخیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور اِس بار ایک کمان دار اور خوب صورت محرابی پل سندھ دھرتی کے جڑواں شہروں، سکھر اور روہڑی کو ملا رہا تھا۔ اس پل کا نام پاکستان کے سابق صدر جرنل ایوب خان کے نام پر ایوب برِج رکھا گیا۔ اس کا سنگ بنیاد 9 دسمبر 1960ء کو رکھا گیا اور اس کا افتتاح 6 مئی 1962ء کو اس وقت کے صدر جرنل ایوب خان نے کیا۔ سِلور گرے رنگ کا چمچماتا یہ پل فولاد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ دنیا کا تیسرا پڑا محرابی پل تھا اور دنیا کا پہلا ریلوے پل ہے جو فولادی رسیوں سے لٹکا ہوا ہے۔ اس پل کو بنانے والی کمپنی وہی ہے جس نے آسٹریلیا کا مشہورِزمانہ ’’ سڈنی ہاربر برج‘‘ تعمیر کیا ہے۔

ایوب پل کی تعمیر سے پہلے ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے لینس ڈاؤن پل استعمال ہوتا تھا لیکن اس پل کی تعمیر کے بعد پرانے پل کو ٹرینوں کے لیے بند کر دیا گیا اور ریلوے ٹریفک کو ایوب پل پر منتقل کر دیا گیا۔ سو فٹ کے فاصلے پر بنے یہ دونوں شاہ کار دور سے دیکھنے پر ایک ہی دیوہیکل پُل لگتے ہیں۔

3۔ ستین جو آستان:
ہمارا اگلا شاہ کار روہڑی میں سندھو ندی کے بائیں کِنارے واقع سات سہیلیوں کا مزار ہے جسے عرفِ عام میں ”ستین جو آستان” کہا جاتا ہے۔ یہ اُن سات بہنوں یا سہیلیوں کی آخری آرام گاہ ہے جن کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں لیکن وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے کون سی کہانی حقیقت سے قریب ہے۔

پہلی روایت ہے کہ محمد بِن قاسم کے سندھ فتح کرنے کے بعد یہ سات سہیلیاں اس مقام پر رہائش پذیر ہوئیں۔

یہ ساتوں کی ساتوں نہایت نیک اور باپردہ خواتین تھیں جنہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی نامحرم مرد کو نہیں دیکھیں گی اور نہ ہی کسی نامحرم مرد کو خود کو دیکھنے کی اجازت دیں گی۔ راجا داہر کے دور میں ان سات بیبیوں نے اس کی بُری نظروں سے اپنی عزت بچانے کے لیے دعا مانگی کہ ’’اے اللہ! ہماری عصمت و آبرو محفوظ رکھ۔‘‘ ان کی دعا کے نتیجے میں کرشماتی طور پر ایک چٹان بیبیوں پر آکر گری اور وہ اپنی آبرو گنوانے سے محفوظ رہتے ہوئے چٹان میں دب کر دارفانی سے کوچ کرگئیں، آج بھی ان بیبیوں کی تربت والے کمرے میں کوئی مرد داخل نہیں ہوسکتا۔

اس روایت کی وجہ سے یہ مقام سندھ بھر میں ستین جو آستان (سات سہیلیوں کا آستانہ یا مزار) کے نام سے مشہور ہوا۔ تاہم تاریخ اس روایت سے متعلق کوئی مستند ثبوت یا شواہد پیش نہیں کرتی۔ لوگوں کی اکثریت ستین جو آستان سے منسوب سات بیبیوں کو آج بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور عوام اس مقام کو ستین جو آستان کے نام سے ہی جانتے، پہچانتے اور مانتے ہیں۔

اِس کے برعکس تاریخ نویسوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔ سات بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ’’قاسم خوانی‘‘ ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ’’صفحہ صفا‘‘ رکھا تھا، خان زمانہ چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔

ستین جو آستان کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے اس مقام کی تعمیر کے لیے بھارت کے علاقے راجستھان سمیت مختلف علاقوں سے قیمتی پتھر منگوائے گئے۔ آستان پر موجود قبروں کی تعمیر میں اسی پتھر اور کاشی کا استعمال کیا گیا، یہ پتھر مکلی، ٹھٹھہ، چوکنڈی، جام لوہار (تونگ) کیر تھر، سندھ و بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں تاریخی مقامات پر نظر آتا ہے۔ ستین جو آستان میں لائن اسٹون نرم پتھر کا استعمال بھی کیا گیا ہے، جب کہ دائیں ہاتھ پر اروڑ موجود ہے اور اس کی اکثر تعمیرات میں بھی یہ چیز نظر آتی ہے۔

4۔سکھر/لائیڈبیراج:
تقسیمِ ہند سے ساڑھے تین دہائی قبل برٹش گورنمنٹ نے سرزمینِ سندھ کو سرسبزوشاداب بنانے اور پانی کے ضیاع کو روک کر دور دراز علاقوں میں بسنے والے لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایک بیراج کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا، جس کے لیے سکھر کا علاقہ منتخب کیا گیا۔ اس جگہ بیراج تعمیر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے کی زمین بہت زرخیز ہے، جب کہ سیلابی صورت حال میں اس علاقے میں بے پناہ تباہی ہوتی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ دریا میں سیلابی کیفیت کے دوران علاقے کو پانی کی سرکشی سے محفوظ رکھنے اور زرخیز زمین کو وافر مقدار میں پانی بہ وقت ضرورت فراہم کرنے کے لیے سکھر بیراج قائم کیا گیا، تو بے جا نہ ہوگا۔

جنوری 1932ء کو بمبئی کے گورنر لارڈ لائیڈ نے سکھر کے نزدیک ایک بیراج کا افتتاح کیا، جس کا نام ان کے نام پر لائیڈ بیراج رکھا گیا۔ لائیڈ بیراج دنیا کے چند بڑے بیراجوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بیراج پاکستان کے نہری نظام کا فخر اور دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد آب پاشی کا نظام ہے۔ اس بیراج کی تعمیر 1923ء میں شروع ہوئی تھی اور آٹھ برس میں مکمل ہوئی تھی۔ یہ بیراج زردپتھر اور فولاد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی لمبائی 4725 فٹ ہے اور اس کے 46 دروازے ہیں۔

یہ بیراج دنیا میں اپنی نوعیت کا آب پاشی کا سب سے بڑا بیراج ہے۔ اس سے سات نہریں نکالی گئی ہیں (جن میں دادو کینال، رائس کینال، شمال مغربی کینال، خیرپور ویسٹ کینال، روہڑی کینال، نارا کینال اور خیرپور ایسٹ کینال شامل ہیں) جو سندھ کے دوردراز کے اضلاع (بشمول ڈیرہ مراد جمالی، بلوچستان) تک کو سیراب کرتی ہیں۔ ان نہروں کی مجموعی لمبائی تقریباً 5 ہزار میل ہے اور ان میں سے ایک نہر روہڑی نہر کی چوڑائی نہر سوئز اور نہرپانامہ سے بھی زیادہ ہے۔ ان نہروں سے تقریباً 75لاکھ ایکڑ رقبہ پر سیراب ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس بیراج کا نام تبدیل کرکے سکھر بیراج رکھ دیا گیا اور آج کل یہ اسی نام سے معروف ہے۔

بیراج کے بالکل پاس اس قدیم بیراج کی تعمیر سے متعلق ایک میوزیم بھی بنایا گیا ہے جہاں بیراج سے متعلق قیمتی دستاویزات، پرانی تصاویر، بیراج کے ماڈل اور اخباری تراشے رکھے گئے ہیں۔ تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو یہ میوزیم ایک بار ضرور دیکھنا چاہیے۔

5۔ سادھو بیلو کا مندر:
’’سادھو بیلو‘‘ سندھی زبان کے الفاظ ہیں، سادھ کے معنی سادھو اور بیلو کے معنی جنگل ہیں۔ اردو میں اسے سادھو بیلا کہا جاتا ہے، یہ ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں درختوں کے جھنڈ بھی ہیں اور پتھریلی چٹانیں بھی، جن پر مندروں اور سمادھیوں کی تعمیر کی گئی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابتدا میں یہاں صرف چٹانیں اور درخت ہی تھے جنہیں بعد میں تعمیر ہونے والی عمارتوں نے اپنے اندر چھپا لیا۔ اس کے باوجود اب بھی پیپل، نیم اور کئی دوسرے صدیوں پرانے درخت ان عمارتوں کو ڈھانپے ہوئے ہیں۔

جزیرے میں داخل ہونے کے لے ایک کشتی ہر وقت تیار رہتی ہے، بتایا جاتا ہے کہ 1823ء میں ایک سادھو ”مہاراج بان کھنڈی” سکھر شہر سے دور دریائے سندھ کے بیچ میں واقع اس ویران جزیرے پر آئے اور ایک کٹیا میں رہنے لگے، لوگوں کا بھی ان کے پاس آنا جانا شروع ہو گیا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اداسی فرقہ سے تعلق رکھنے والے سکھ ’’سادھو بیلو‘‘ کو انتہائی قدر کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں، کیوںکہ اس فکر سے تعلق رکھنے والوں کے مطابق بابا بان کھنڈی مہاراج سری چند مہاراج کی تعلیمات سے کافی متاثر تھے۔

تاریخی شواہد کے مطابق بابا بان کھنڈی نے 40 سال تک سادھو بیلا میں قیام کیا، ان کا انتقال1863 میں 100 سال کی عمر میں ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد ’’سادھو بیلا‘‘ میں ان کے آٹھ جانشین آئے، 9ویں جانشین کا نام بابا ہرنام داس تھا، جو تقسیم ہند کے بعد سادھو بیلا کو بند کر کے آنکھوں کے علاج کے سلسلے میں انڈیا کے شہر گوجرہ چلے گئے اور واپس نہ آئے۔ بعد میں انہوں نے یہاں کی چابی ایک دوسرے آدمی کے ہاتھوں بھجوا دی۔ انڈیا میں سادھو بیلا کے نام سے ہردوار، ممبئی اور دہلی میں تین دھرم شالے بنوائے، مگر ان کا مقابلہ پاکستان کے سادھو بیلا سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ ایک تو یہ تاریخی جگہ ہے، دوسرا دریا کہ بیچ میں ایک جزیرے پر آباد ہونے کی وجہ سے اس کا محل وقوع بہت خوب صورت اور قدرتی ہے۔ پہلے اس جزیرے پر 100 مور بھی پائے جاتے تھے، جنہیں یہاں آنے والے یاتری دانہ دنکا کھلاتے تھے، مگر بعد میں دیکھ بھال نہ ہونے سے وہ مر گئے۔

6۔ اروڑ:
اروڑ یا الور سندھ کا ایک قدیم شہر ہے جو روہڑی شہر کے پاس ہی واقع ہے۔ یہ شہر سندھ کے برہمن خاندان اور بعدازاں محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے بعد سندھ میں عرب حکومت کا دارالحکومت رہا۔ اس شہر کے آثار موجودہ روہڑی سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر جنوب مشرق کی جانب موجود ہیں۔ تمام عمارتیں تقریباً ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں سوائے” کالکن دیوی” کے ایک مندر کے جو آج بھی مقامی ہندوؤں کے زیرِاستعمال ہے۔

7- گھنٹہ گھر سکھر:
برطانوی دورِحکومت میں برِصغیر کے کئی چہروں کے عین وسط میں عوام کی سہولت کے لیے ”گھنٹہ گھر” بنائے گئے۔ پاکستان میں سیالکوٹ، ملتان، گجرانوالہ، پشاور، فیصل آباد اور سکھر جیسے بڑے شہروں میں آج بھی یہ گھنٹہ گھر موجود ہیں۔ اگرچہ سکھر کا کلاک ٹاور ایک ہندو سیٹھ وادھومل منجھاری نے برطانیہ کے کنگ جارج پنجم کی سلور جوبلی کی خوشی میں بنوایا تھا جس کا افتتاح سکھر کے اس وقت کے کلکٹر مسٹر مرچندانی نے 1937 میں کیا۔ وکٹوریہ مارکیٹ اور مہران مرکز جیسے مصروف کاروباری مراکز سے گھرا سکھر کا گھنٹہ گھر ہمارے شان دار ماضی کی زندہ لاش لگتا ہے جو انتظامیہ کی بے توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

8- معصوم شاہ مینارہ:
گھنٹہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر سکھر کی ایک اور تاریخی جگہ معصوم شاہ مینارہ موجود ہے جہاں بزرگوں کی قبریں موجود ہیں۔ اس گول مینار پر چڑھنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ جتنا مشکل اس مینار پر چڑھنا ہے اتنا ہی مشکل اس پر سے واپس اترنا ہے۔معصوم شاہ مینار سے سکھر شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

ایک دفعہ یہاں بھی چلے جائیں تو اچھا ہے مگر ایک بات کا خیال رکھیں اگر آپ کو جوڑوں کی تکلیف ہے تو اس جگہ نہ جائیں اور اگر آپ بہت موٹے ہیں تب بھی نہ جائیں کیوںکہ اس مینارہ پر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بہت چکنے پتھر کی ہیں جن سے پاؤں پھسلتا ہے دوسرا ان کی چوڑائی صرف دوفٹ ہے اور اتنی چوڑائی میں سے ایک انسان بہ مشکل دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر اوپر پہنچتا ہے۔ 1003ھ میں میر محمد معصوم بکھری صاحب نے سکھر والے معصومی مینارہ کی تعمیر کا کام شروع کرایا جسے میر صاحب کے انتقال کے بعد ان کے فرزند میر بزرگ نے 1027ھ میں مکمل کرایا۔ یہ مینارہ پہاڑی پر واقع ہے۔ اس مینارہ میں پکی اینٹیں اور چونے کا پتھر استعمال ہوا ہے۔ یہ مینارہ بنیاد سے 84 فٹ چوڑا ہے، لمبائی بھی 84 فٹ ہے اور گولائی میں سیڑھی کے قدموں کی تعداد بھی 84 ہے۔ مینارہ کی چوٹی گنبد نما ہے۔

ان کے علاوہ بکھر جزیرہ، دیو سماج اسکول، مکرانی مسجد، مہادیو مندر اور شاہی مسجد سکھر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

اب چلتے ہیں سکھر کی معاشی و معاشرتی زندگی کی جانب۔ سکھر کی معیشت کا تمام تر انحصار زراعت پر اور زراعت کا تمام تر انحصار دریائے سندھ اور اس سے نکلنے والی نہروں پر ہے۔ دریائے سندھ سکھر سے گزرنے والا واحد دریا ہے۔

اس ضلع میں کاشت کی جانے والی اہم فصلوں میں چاول، باجرہ، کپاس، گندم اور چنا شامل ہیں جب کہ آم، کھجور اور امرود کے باغات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کی آب و ہوا گرم، خشک لیکن خوش گوار ہے۔ مجموعی طور پر 88 ملی لیٹر بارش ہوتی ہے۔

سکھر بلوچستان اور افغانستان کے خشک میوہ جات کے لیے تجارتی مرکز مانا جاتا ہے اور یہ شہر بسکٹ اور اچار کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں کی بڑی صنعتوں میں کپاس کی صنعت، سیمنٹ، چمڑا، تمباکو، سگریٹ، رنگ، دوائیں، زرعی اوزار، نلکوں و تالوں کی صنعت، چینی، بسکٹ بنانے کی صنعت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

دوسری چھوٹی صنعتوں میں دھاگا، برتن اور دیگر صنعتیں شامل ہیں۔ صنعتوں کی زیادہ تعداد تحصیل سکھر میں ہے جب کہ سیمنٹ فیکٹری پنو عاقل میں ہے۔ ان کے علاوہ چھوٹی صنعتیں ضلع کے مختلف علاقوں میں قائم ہیں، جن میں پرنٹنگ، کشتی سازی، مچھلی کی ڈور اور پلاسٹک وغیرہ شامل ہیں۔ خواتین گھروں میں خوب صورت کھیس اور دریاں بناتی ہیں۔

یہ ضلع معدنیات کی دولت سے مالامال ہے۔ نمک اور پتھر یہاں پائی جانے والی دو معدنیات ہیں۔ سکھر اور روہڑی میں پتھر کی بھٹیاں لگائی گئی ہیں ان سے حاصل ہونے والا پتھر سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہوتا ہے۔

اس ضلع کی دھرتی نے سیاست میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کی مشہور سیاسی شخصیات میں عبد الستار پیرزادہ (سابق وفاقی وزیر قانون) ، حفیظ پیرزادہ (سابق وفاقی وزیر قانون)، اسلام الدین شیخ ( سابق وفاقی وزیر تعلیم) اور خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر، راہنما پاکستان پیپلز پارٹی) شامل ہیں۔ ان کے علاوہ میر محمد معصوم (ادیب) اور ہیمو کالانی (انقلابی راہ نما) بھی اس ضلع کی اہم شخصیات ہیں۔

The post مہران کا موتی سکھر appeared first on ایکسپریس اردو.

آج کا دن کیسا رہے گا

$
0
0

حمل:
21مارچ تا21اپریل

آپ ذہنی طور پر خاصے الجھ سکتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ عرصے سے حالات کا رخ منشاء کے خلاف ہے اور غیر متوقع حالات کے پیش آنے کی وجہ سے اپنے مستقبل کو درخشاں نہیں دیکھ رہے ہیں۔

ثور:
22 اپریل تا 20 مئی

بے مقصد سوچوں کو من پسند نتیجہ بخش کر مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب جانا عقلمندی تو نہیں، بندہ خدا اپنا حال تو درست رہنے دو اور جو تھوڑے بہت چانسز مل رہے ہیں ان سے استفادہ کرنے کی کوشش کیجیے۔

جوزا:
21 مئی تا 21جون

کاروباری اسکیموں پر اس حد تک ہی عمل کریں کہ جلد ہی فائدہ ہو سکے جو لوگ ملازمت کرتے ہیں وہ بہت زیادہ احتیاط برتیں، ان کے مخالف انھیں اس مقام پر دیکھنا قطعی پسند نہیں کرتے۔

سرطان:
22جون تا23جولائی

اگر کاروباری سلسلے میں اس اسکیم پر عمل کریں جو کہ گزشتہ معرض وجود میں آئی تھی تو یقینا مزید ترقی ہو سکتی ہے، کاروبار نو کا آغاز سودمند ثابت ہو سکتا ہے لیکن شراکتی کاروبار میں شمولیت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

اسد:
24جولائی تا23اگست

شریک حیات سے تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں اور ان کی محبت میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ آپ بھی خود کو بدل کر دکھا دیجئے کہ یہی آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔

سنبلہ:
24اگست تا23ستمبر

کاروبار سے تعلق رکھنے والے حضرات اگر احتیاط سے تمام امور کا جائزہ لے کر اقدامات کرتے رہے تو خاصے فائدے کی توقع رکھی جا سکتی ہے لیکن بداحتیاطی نقصان کا موجب بھی بن سکتی ہے۔

میزان:
24ستمبر تا23اکتوبر

ایسی خواہشات پوری ہو سکتی ہیں جو طویل عرصے سے آپ کے دل و دماغ میں بسی ہوئی تھیں ۔ کاروباری سلسلے میں بھی وقت آپ کا بہت حد تک ساتھ دے سکے گا۔

عقرب:
24اکتوبر تا22نومبر

اگر کاروبار میں ذاتی دلچسپی نہ لے سکے تو پھر مخالفوں کی سازش کامیاب ہو سکتی ہے، کاروباری معاہدہ کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے، لہٰذا اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر ہر کام کیجیے، سابقہ نقصانات پورے کر سکیں گے ۔

قوس:
23نومبر تا22دسمبر

عشق و محبت کے مسائل بھی توقع کے مطابق حل نہ ہو سکیں گے فضول قسم کے جذبوں کو دبانے کی کوشش کیجیے کسی مقتدر شخصیت کے ساتھ مراسم قائم ہو سکتے ہیں، بسلسلہ تعلیم شاندار کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔

جدی:
23دسمبر تا20جنوری

زنگ آلود صلاحیتوں کا حقیقی رنگ ابھر کر سامنے آ سکتا ہے، کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے لیکن یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ کبھی کبھی تاریکی اور اجالا دونوں ملکر بھی چلتے ہیں ۔

دلو:
21جنوری تا19فروری

آپ جب بھی کسی اہم معاملے کا فیصلہ کریں جذباتی نہ ہوں بلکہ ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھائیں، جلد بازی کے تحت کیا گیا ہر فیصلہ پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

حوت:
20 فروری تا 20 مارچ

کوئی قریبی دوست بھی پریشانیوں میں اضافہ کر سکتا ہے اولاد کی جانب سے حصول خوشی کا امکان ہے غیر شادی شدہ افراد کا رشتہ کسی مناسب جگہ طے پا سکتا ہے ، صحت جسمانی قدرے بہتر رہے گی۔

The post آج کا دن کیسا رہے گا appeared first on ایکسپریس اردو.

سندھ اور بلوچستان میں تیل و گیس کے دو بڑے ذخائر دریافت

$
0
0

 کراچی: قوم کے لیے ایک اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں گیس اور تیل کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں جس سے گیس کے بحران میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔

پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) کے مطابق تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کی مہم میں متعلقہ اداروں کو دو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جس سے ملک میں قدرتی گیس کی کمی پر قابو پانے میں مدد مل سکے گی۔ ان کامیابیوں کے بارے میں پی پی ایل کی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج کو بھیجے گئے خط میں آگاہ کردیا گیا ہے۔

خط میں بتایا گیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں 152 بیرل یومیہ خام تیل اور مجموعی طور پر 39اعشاریہ 30 ملین کیوبک فٹ یومیہ قدرتی گیس کے نئے ذخائرکی دریافت کی گئی ہے۔

پی پی ایل نے اپنے خط میں بتایا ہے کہ سندھ کے علاقے خیرپور لطیف بلاک کے بٹرو ون کنوئیں میں 2 کروڑ 86 لاکھ کیوبک فٹ یومیہ گیس کے ذخائرکی دریافت ہوئی ہے اور یہ دریافت پی پی ایل نے دیگر کمپنیوں لطیف ایکسپلوریشن کمپنی، ای این آئی پاکستان لمیٹڈ اور یونائیٹڈ انرجی پاکستان شامل کے اشتراک سے کی ہے۔  خط میں بتایا گیا ہے کہ خیر پورکے اس کنویں سے یومیہ 152 بیرل خام تیل کی بھی پیداوارحاصل ہوگی۔

پی پی ایل انتظامیہ نے بتایا ہے کہ بلوچستان میں بھی ذخائر کی تلاش کے دوران مہم کے تحت قدرتی گیس اور مائع شے کے ذخائرکی دریافت ہوئی ہے۔ بلوچستان کے علاقے قلات میں واقع چکتن لائم میں مرگینڈ کنویں سے ایک کروڑ 7 لاکھ کیوبک فٹ گیس دریافت ہوئی ہے اور مرکنڈ کے ہی کنویں سے یومیہ 132 بیرل پیداوار کی حامل ایک ایسے مائع شے کی بھی دریافت ہوئی ہے جسکی ساخت اور استعمال کے بارے میں لیبارٹری جانچ کی جارہی ہے۔

خط میں بتایا گیا ہے کہ بٹرو ون کنوئیں میں کام جاری ہے، ذخائر دریافت کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہاں سے گیس کے مزید ذخائر کی دریافت متوقع ہے۔ خیرپور بٹرو ون کنوئیں کی کھدائی کا آغاز 6 اکتوبر 2019ء سے کیا گیا تھا جس کی گہرائی 11 ہزار854 فٹ ہے جبکہ بلوچستان کے مرگینڈ کنوئیں کی کھدائی کا کام 30 جون 2019ء سے شروع کیا گیا تھا اس کنوئیں کی گہرائی 4 ہزار 500 میٹر ہے۔

The post سندھ اور بلوچستان میں تیل و گیس کے دو بڑے ذخائر دریافت appeared first on ایکسپریس اردو.

فراعنۂ مصر ؛ ایک تاریخی پس منظر

$
0
0

ایک روایت کے مطابق حضرت یعقوبؑ 1888 ق م اور دوسری ایک روایت کے مطابق 1706 ق م اپنے چہیتے بیٹے حضرت یوسف ؑ کی دعوت پر اپنے70اہل خانہ کے ہمراہ کنعان (عراق) سے مصر تشریف لائے۔ اس وقت حضرت یوسف ؑ عزیزمصر کے منصب پر فائز تھے۔

موجودہ دستور کے مطابق یہ منصب یا عہدہ آج کے وزیر مال یا وزیر خزانہ کے ہم پلہ تھا۔ اس دور میں مصر پر فراعین مصر حکم راں تھے۔ یہ لفظ فراعنہ بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے جو فرعون کی جمع ہے۔ لغت میں اس کے معنی شریر، سرکش لکھے ہوئے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں جو فرعون حکم راں تھا وہ خصائل کے اعتبار سے انتہائی شریف اور نیک حکم راں کے طور پر جانا پہچانا جاتا تھا۔

توریت کی ایک روایت کے مطابق حضرت یوسف ؑ نے اپنے خاندان کی رہائش کی خاطر جشن یا جاشان کا علاقہ اس سے مانگا جس پر فرعون نے کہا ’’تیرا باپ اور تیرے بھائی تیرے پاس آگئے ہیں مصر کا ملک تیرے آگے پڑا ہے، یہاں کے اچھے سے اچھے علاقے میں اپنے باپ اور بھائیوں کو بسا دے، یعنی جشن کے ہی علاقہ میں انہیں رہنے دے۔‘‘ (توریت پیدائش باب 47آیات5-6) یہ بہترین زمین یا علاقہ رعمیس کا تھا۔ (آیت11)

حضرت یعقوب ؑ کا لقب اسرائیل تھا۔ اسرائیل ایک عبرانی لفظ ہے جو دو الفاظ کا مرکب ہے۔ یعنی اسرا +ایل ۔ اسرا کے معنی عبد اور ایل کے معنی اللہ۔ گویا اسرائیل کے معنی عبداللہ ہوئے۔ اگلے وقتوں میں خاندان کے سربراہ کے نام یا لقب سے نسل چلا کرتی تھی اور اسی طرح علاقے یا خطے کا نام بھی سربراہ کے نام سے رکھا جاتا تھا یا اس کے لقب سے، جیسے قوم نو ح قوم صالح قوم ہود قوم لوط قوم شعیب اور قوم بنی اسرائیل۔ اسی طرح علاقوں میں کنعان اور رعمیس وغیرہ کے علاقے ہیں جو شخصیات کے ناموں سے مشہور ہیں۔ یہ شخصیات اپنی اپنی الگ شناخت اور تاریخ رکھتی ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی پاکستان کے ہر صوبے کے نواحی اور قبائلی علاقہ جات میں مثال بنا ہوا ہے۔

بنی اسرائیل کو عرف عام میں قوم یہود بھی کہا جاتا ہے ۔ یہودا حضرت یعقوب ؑ کے ایک بیٹے کا نام تھا بعض مؤرخین یہودی قوم کو اسی کی نسل بتاتے ہیں جو اصلاً اور نسلاً حضرت ابراہیم ؑ سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا شجرۂ نسب یوں ہے یوسف ؑ بن یعقوبؑ بن اسحاقؑ بن ابراہیم ؑ۔

حضرت یوسف ؑ نے جا شان کا علاقہ فرعون سے رہائش کے لیے اس لیے مانگا تھا کہ بودوباش کے اعتبار سے ان کا خاندان بدویانہ زندگی گزارنے کا عادی تھا۔ دوم یہ کہ حضرت یعقوب ؑ نے اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد سے توحید پر قائم رہنے کا وعدہ لے لیا تھا جس کو قرآن حکیم نے اس طرح بیان کیا ہے۔

ترجمہ’’کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت تھا جب کہ اس نے اپنی اولاد سے کہا میرے بعد کس کی پرستش (عبادت) کروگے تو انہوں نے جواب دیا ہم اسی ایک خدا کی پرستش کریں گے جو تیرا اور تیر ے باپ دادا ابراہیم ، اسمٰعیل اور اسحق کا خدا ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔ (سورہ البقرہ آیات132-133)

حضرت ابراہیم ؑ کی نبوت سے لے کر حضرت یعقوب ؑ کے دنیا سے پردہ فرمانے تک قوم یہود یا آل ابراہیم ؑ میں شرک وبت پر ستی نہ تھی۔ اگرچہ دیگر قبائل اس میں مبتلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے اپنے خاندان کے لیے مصر میں ایک الگ جگہ کا مطالبہ فرمایا تاکہ مصریوں کے ساتھ رہ کر ان کے عقائد میں مشرکانہ تبدیلی رونمانہ ہوجائے۔

اس کے علاوہ اس وقت مصریوں میں کئی ایک بد اخلاقیاں بھی تھیں جیسے وہ لوگ چرواہوں، کاشتکاروں اور بدوؤں کو اپنے سے کمتر اور نجس جانتے تھے اور ان سے اختلاط کو معیوب گردانتے تھے حضرت یعقوب ؑ کی نسل میں یہ بیک وقت یہ تینوں چیزیں یکجا تھیں۔ مشاہدات عالم میں یہ ایک بات بڑی حیرت سے دیکھی گئی ہے کہ پیغمبر ان کرام کی اکثریت نے بکریاں چرائی ہیں۔

آل ابراہیم ؑ حضرت یوسف ؑ اور حضرت موسٰی ؑ کے درمیانی عرصے میں مصر میں آباد ہوئے تھے جو بعد میں حضرت موسٰی ؑ کے ساتھ مصر سے ہجرت کر کے انبیاء کی سرزمین چلے گئے۔ یہ سر زمین مذہبی کتب تاریخ میں جبرون ، مکفیلہ اور نابلس کے نام سے ہے جب کہ توریت میں یہ جگہ ارض فرائیم لکھی ہے جسے قدیم زمانہ میں شکیم کہتے تھے یہ تمام اراضی فلسطین ہی میں واقع ہیں۔

حضرت موسٰی ؑ کی پیدائش کے وقت کون سا فرعون سلطنت مصر پر حاکم تھا اس کے بارے میں دورجدید اور قدیم میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے کہ فرعون کسی بھی مخصوص بادشاہ یا حکم راں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ مصر پر حکم رانی کرنے والوں کا لقب ہے جیسا کہ عصرحاضر میں ہم سربراہ مملکت کو شاہ، صدر، چانسلر اور ہیل سلاسی کے منصب سے پکارتے ہیں۔

تین ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہو کر عہد سکندر اعظم تک فراعنہ کے اکتیس 31 خاندان مصر پر حکم رانی کر چکے ہیں سب سے آخری خاندان فارس کی شہنشاہی کا جو 332ق م سکندر کے ہاتھوں مفتوح ہوگیا تھا ان میں سے حضرت یوسف ؑ کے وقت کا فرعون ہیکسوس (مصعب بن ریان) عمالقہ کے خاندان سے تھا جو دراصل عرب ہی کی ایک شاخ ہے عام مؤرخین عرب اور مفسرین اس کو بھی عمالقہ ہی کے خاندان کا، فرد لکھتے ہیں کوئی اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان کوئی معصب بن ریان کہتا ہے ، جب کہ ایک روایت میں اس کا نام پتا من جب کہ دوسری روایت میں قابوش بن مصعب بن ریا ن آیا ہے۔

ارباب تحقیق نے اس کا نام ریان ابا بتایا ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کنیت ابو مرہ تھی۔ جدید تحقیق کے مطابق جو پتھر کے کتبے ماہرین کھدائی یا ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے دریافت کیے ہیں اس کے مطابق موسٰی کے زمانے کا فرعون رعمیس دوم کا بیٹا منفتاح (منفطہ) ہے جس کا دورحکومت 1292ق م سے شروع ہوکر 1225ق م ختم ہوتا ہے (قصص القرآن)

ایک اور محقق احمد یوسف آفندی جو مصری دارلآثار کے مصور ہیں اور عصری حجری تحقیق کے بہت بڑے عالم ہیں ان کے ایک مستقل مضمون کا خلاصہ عبدالوہاب نجار نے قصص الانبیاء میں نقل کیا ہے ترجمہ’’یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ یوسف ؑ جب مصر میں داخل ہوئے تو یہ فراعنہ کے سولہویں خاندان کا زمانہ تھا اور اس فرعون کا نام ابابی الاوّل تھا۔ میں نے اس کی شہادت اس پتھر کے کتبے سے حاصل کی جو عزیزمصر فوطیفار کے مقبرے میں پایا۔ وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت یوسف ؑ سے تقریباً 27 سال بعد مصر میں داخل ہوئے جس کا ذکر قرآن حکیم اور توریت میں کیا گیا ہے۔‘‘

توریت میں مذکور ہے کہ ’’جس فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ عداوت کا معاملہ کیا اور ان کو سخت مصائب میں مبتلا رکھا اس نے بنی اسرائیل سے دو شہروں رعمیس اور فیثوم کی تعمیر کی خدمت لی اور انہیں مزدور بھی بنایا۔‘‘ اب ان پرانے کھنڈرات کی کھدائی سے ان دونوں شہروں کا پتا لگ چکا ہے اور ایک کے کتبے سے معلوم ہوا ہے کہ اس کا نام پر توم یا فیثوم ہے جس کا ترجمہ ہے ’’خدائے توم کا گھر‘‘ اور دوسرے کا نام بر رعمیس ہے جس کا ترجمہ قصر رعمیس ہوتا ہے۔

شہر کی چاردیواری کے جو کھنڈر معلوم ہوئے ہیں وہ بلاشبہہ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ دونوں شہر مصر کے بہترین حفاظتی قلعہ تھے، جس فرعون نے بنی اسرائیل کو مصائب میں مبتلا کیا وہ اغلب گمان کے مطابق یہی رعمیس دوم ہوسکتا ہے یہ مصر کے حکم رانوں کا انیسویں (19) خاندان تھا۔ حضرت موسٰی اسی کے زمانے میں پیدا ہوئے اور اسی کی آغوش میں پرورش پائی۔ اسویہ قبائل جو مصر کے اطراف آباد تھے ان کے اور فرعون کے اس خاندان کے درمیان نو سال تک سخت جنگ و پیکار رہی جس کے بارے میں یہ بھی قیاس ہے کہ رعمیس دوم نے اس خوف سے کہیں بنی اسرائیل کا یہ عظیم الشان قبیلہ جو لاکھوں نفوس پر مشتمل تھا اندرونی بغاوت پر آمادہ نہ ہوجائے بنی اسرائیل کو ان مصائب میں مبتلا کرنا ضروری سمجھا۔

عصرحاضر کے ایک مفسر ڈاکٹر غلام مرتضی ملک نے اپنی کتاب ’’وجود باری تعالیٰ اور توحید‘‘ میں ڈاکٹرغلام جیلانی برق اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے درمیان اس موضوع پر خط و کتابت کا حوالہ دیا ہے۔

ڈاکٹرغلام جیلانی برق اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں ’’عہد رسالت میں عرب اقوام عالم کی تاریخ، تہذیب، تمدن ان کے آثار اور علوم و فنون سے قطعاًناآشنا تھے۔ انہیں یہ قطعاً معلوم نہ تھا کہ فرعون کتنے تھے اور وہ کب سے مصر پر حکومت کر رہے تھے۔ رہی کھدائیاں تو مصر میں ان کا آغاز پچھلی صدی یعنی انیسویں صدی کے اواخر میں ہوا اور فرعون (حضرت موسٰی ؑ کے وقت) کی لاش 1907ء؁ میں ایک انگریز سر گرافٹن اسمتھ کی کوششوں سے بر آمد ہوئی۔‘‘

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ڈاکٹر برق کے خط کے جواب میں لکھتے ہیں ’’برٹا نیکا کے مضمون میں ممی کا ذکر ہے کہ 1906ء؁ میں ایک انگریز ماہر علم و تشریح سر گرافٹن ایلیٹ اسمتھ نے ممیوں کو کھول کھول کر دیکھا اور ان کے حنوط کی تحقیق شروع کی اور چوالس (44) ممیوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ گولڈنگ لکھتا ہے کہ 1907ء؁ میں استمھ کو منفطہ کی لاش ملی تھی یہ منفطہ وہی ہے جو حضرت موسٰی ؑ کے زمانے میں غرق ہوا تھا۔ جب اس کی پٹیاں کھولی گئیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔

اس کے جسم پر نمک کی ایک تہہ جمی ہوئی تھی جو کسی اور ممی کے جسم پر نہیں تھی۔ گولڈنگ یہ بات بھی بیان کرتا ہے کہ فرعون، بحیرات مرّہ میں غرق ہوا تھا جو اس زمانے میں بحیرۂ احمر سے ملی ہوئی تھی وہ آگے چل کر لکھتا ہے کہ جزیرہ نما سینا کے مغربی ساحل پر ایک پہاڑی ہے جسے مقامی لوگ جبل فرعون کہتے ہیں۔ اس پہاڑی کے نیچے ایک غار میں نہایت گرم پانی کا ایک چشمہ ہے جسے لوگ حمام فرعون کہتے ہیں اور سینہ بہ سینہ روایت کی بنا یہ کہتے ہیں کہ اسی جگہ فرعون کی لاش ملی تھی۔

قرآن حکیم نے ڈیڑھ ہزار سال قبل اس واقعے کے بارے میں بتلا دیا تھا جس کی تائیدوتوثیق آج کا ہر محقق کررہا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے ارادہ سے چلا یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں (اللہ نے جواب دیا) اب ایمان لاتا ہے اور پہلے سر کشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔

سو آج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ ‘‘ (سورہ یونس آیات 90 تا 92) فرعون کا ذکر قرآن حکیم میں 7مقامات پر آیا ہے۔ سورہ یونس آیات 83، 88 تا92 سورہ ہود آیات 96 تا 99 سورہ القصص آیات1تا 9 اور 38 تا40 سورہ المومن آیات36-37 سورہ النازعات آیات 15تا 26 مزید معجزات انبیاء میں ملاحظہ فرمائیں۔

جب فرعون غرق ہوگیا تو لوگوں کو اس کی موت کا یقین نہ آیا تب اللہ نے سمندر کو حکم دیا اس نے اس کی لاش کو خشکی پر پھینک دیا پھر سب نے اس کی لاش کا مشاہدہ کیا۔ آج بھی یہ لاش مصر کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔

The post فراعنۂ مصر ؛ ایک تاریخی پس منظر appeared first on ایکسپریس اردو.

برطانوی انتخابات: کشمیر کا مسئلہ چھایا رہا

$
0
0

برطانوی انتخابات نے ثابت کردیا کہ یورپ ابھی تک خوف اور نفرت کی سیاست کی زد میں ہے۔

2015ء سے مغرب کی سیاست مہاجر ین کے مسئلے کے گرد گھومتی رہی ہے۔نصف صدی کی کوششوں سے بننے والی یورپین یونین کی تشکیل کے ڈیڑھ عشرے کے اندر ہی اس کی شکست و ریخت کی باتیں ہونے لگیں۔ تفصیلات کے مطابق انتخابات میں بریکزٹ یعنی برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی کے مسئلہ کو استعمال کرکے کنزرویٹو پارٹی اپنی حریف لیبر پارٹی کو اس کے گڑھ میں پچھاڑتے ہوئے365 سیٹیں لینے میں کامیاب ہوگئی۔

یہ1980ء کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی سب سے بڑی فتح ہے۔ کنزرویٹوز نے یہ انتخاب بریکزٹ یعنی برطانیہ کی یوروپین یونین سے علیحدگی کے وعدے پر لڑا اور کامیاب ہوگئی۔ دوسری طرف ان کی حریف لیبر پارٹی صرف 203 نشستیں لینے میں کامیاب ہوسکی۔ لیبر نے پچھلے الیکشن کے مقابلے میں 59 نشستیں کھو دی ہیں جبکہ کنزرویٹو کی سیٹوں میں48کا اضافہ ہواہے۔

یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد لیبر پارٹی کی سب سے بڑی شکست ہے۔ انتخابات میں کچھ دوسری جماعتوں نے بھی خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کیں جن میں اسکاٹ لینڈ میں کامیابی حاصل کرنے والی اسکاٹش نیشنل پارٹی ایس این پی اور لبرل ڈیموکریٹ ایل ڈی نمایاں ہیں۔ انھوں نے بالترتیب 48 اور گیارہ سیٹس حاصل کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کنزرویٹو ووٹ میں صرف ایک اعشاریہ دو فیصد اضافہ جبکہ لبرل ووٹ شئیر میں سات اعشاریہ نو فیصد کم ہوئی ہے لیکن یہ تبدیلی سیٹوں میں بڑی تبدیلی کا باعث بن گئی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگلی دہائی بورس جانسن اور کنزرویٹو پارٹی کی دہائی ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ اتنے بڑے مینڈیٹ کے بعد بریکزٹ جیسے پیچیدہ ایشو سے کیسے نمٹتے ہیں۔ ادھر آئر لینڈ میں اکثریتی سیٹیں لینے والی اسکاٹش نیشنل پارٹی کی لیڈر نکولا آسٹرجین نے بیان دیا ہے کہ یو کے اسکاٹ لینڈ کو اس کی مرضی کے بغیر برطانیہ میں شامل نہیں رکھ سکتا اور 2014ء کا اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کا ریفرنڈم کوئی حتمی فیصلہ نہیں۔ ان کی بات سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ علیحدگی تو نہیں چاہتیں لیکن علیحدگی کارڈ کو مسلسل استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

سن2016 ء سے قبل برطانوی انتخابی سیاست ہیلتھ سسٹم، جرائم کی روک تھام اور امیگریشن کے گرد گھومتی رہتی تھی لیکن اس الیکشن میں برطانیہ کے شہریوں نے واضح کردیا کہ یورپین یونین سے علیحدگی سب سے بڑا ایشو ہے اور وہ اس اتحاد کے تحت زندگی گزارنے پر آمادہ نہیں۔

یورپ کے دوسرے حصوں سے بھی اس اتحاد کے خلاف آوازیں اٹھتی رہی ہیں لیکن ان آوازوں کو وہاں وہ پزیرائی حاصل نہیں ہوئی جو برطانیہ میں ہوئی ورنہ بریکزٹ کے فوراً بعد بعض رجاعیت پسند Frexit (فرانس کی علیحدگی)، Grexit یعنی یونان کی علیحدگی، Hrexit یعنی ہنگری کی علیحدگی اور DREXIT یعنی جرمنی کی علیحدگی کے بارے میں بات کرنے لگے تھے۔

برطانیہ میں یوروپی اتحاد کے بارے میں عوام الناس کی آراء شروع سے متقسم رہی ہے۔ اس کی حمایت کرنے والے یورو فائل جبکہ اس کی مخالفت کرنے والے یا اسے شک کی نگاہ سے دیکھنے والے ’یوروسکیپٹک‘ کہلاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ مغربی یورپ کی واحد یوروپی طاقت تھی جسے ہٹلر زیر نہیں کرسکا تھا۔

برطانیہ بھی اپنے آپ کو باقی یوروپی طاقتوں سے افضل سمجھتا رہا۔ اسی لئے جب سرد جنگ کے آغاز پر کمیونزم کے نظریے کا مقابلہ کرنے کے لئے فرانس میں امریکی سر پرستی میں یوروپی اتحاد کے خواب دیکھنے شروع کئے گئے تو برطانیہ نے ابتدا میں اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا۔ بعد ازاں اس معاشی اتحاد کی کامیابی کے اثرات دیکھنے کے بعد برطانیہ نے اس میں شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کی تو فرانس کے صدر ڈیگال نے اسے تین دفعہ ویٹو کیا کیونکہ برطانیہ کی شمولیت سے اس اتحاد پرفرانس کا غلبہ متاثر ہو سکتا تھا۔

یاد رہے امریکا کے مارشل پلان کے زیر سایہ، اس اتحاد کے لئے کوششیں دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوئیں اورمختلف مراحل سے گزر کر یہ آدھی صدی بعد سن 2000ء کے بعد اس سیاسی اور معاشی شکل میں پایہ تکمیل تک پہنچا کہ یورپ کے بڑے حصے میں ممالک کے درمیان ویزا کی پابندی ختم ہوگئی، ایک کرنسی اور اس اتحاد سے باہر دنیا سے اجتماعی معاشی ڈیلز کا طریقہ اپنایا گیا یعنی اس اتحاد کے اندر موجود ملکوں کا واحد معاشی اور کسی حد تک سیاسی بلاک وجود میں آیا ۔

لیکن روس کے ٹوٹنے کے بعد 2003ء میں مشرقی یورپ کی ریاستیں بڑی تعداد میں اس اتحاد میں شریک ہوئیں تو یوروپی یونین کے قانون کے مطابق یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح برطانیہ کو بھی اپنی سرحدیں مشرقی یورپ کی آبادی کے لئے کھولنا پڑیں۔ برطانیہ کا شمار چونکہ یورپ کی مضبوط معیشتوں میں ہوتا ہے۔

اس لئے یہاں مہاجرین کی بڑے پیمانے پر منتقلی ہوئی جس سے مقامی آبادی کو اپنا روزگار اور معاشی مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگے اور یوں برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی کی راہ ہموار ہوئی۔ شامی مہاجرین کی یوروپی یونین کے ممالک میں آمد بریکزٹ کے مخالفین کے لئے دوسرا بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ برطانوی شہریوں کوخوف ہے کہ مشرق وسطیٰ سے مہاجرین جو اس وقت جرمنی اور مغربی یورپ کے دوسرے ملکوں میں موجود ہیں، بڑی تعداد میں برطانیہ میں داخل ہوںگے۔ انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں کہ2016ء کے ریفرنڈم کے مقابلے یہ خوف اب کئی گنا بڑھ چکا ہے۔

اسلامو فوبیا اور برطانوی مسلمان
دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں بھی جمہوریت اکثریت کے استبداد کا شکار ہو رہی ہے جس میں اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بھارت، امریکا اور اب برطانیہ میں یہ عفریت پوری طرح کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ اکثریتی ووٹ لینے کے لئے نسل پرست سیاست دان اقلیتوں کے خوف اور نفرت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

اس کے لئے جعلی خبروں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ برطانوی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اسلاموفوبیا یعنی مسلمانوں کا خوف اور نفرت برطانیہ میں مسلمانوں کا اولین مسئلہ ہے۔ یہ باتیں مختلف ذرائع سے پھیلائی جاتی ہیں کہ مسلمان برطانیہ پر قبضہ کرنے والے ہیں اور شریعت نافذ کرنے والے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حقیقت میں مسلمان کسی بھی مسلم اکثریتی ملک میں شریعت نافذ نہیں کرسکے۔

دنیا کی ایک تہائی آبادی خود برطانیہ کے قانون کے تحت زندگی بسر کر رہی ہے جسے عرف عام میں کامن لاء کہا جاتا ہے لیکن نفرت پھیلانے والوں کو ایسی باتیں پھیلانے سے کون روک سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد دو دہائیوں میں مغرب میں مقیم مسلمان اور جرمی کوربین جیسے بائیں بازو کے سیاست دان ایک مضبوط متبادل بیانیہ سامنے لیکر آئے ہیں۔ مغربی انتخابات میں نفرت اور خوف کی سیاست میں اضافے کی ایک بڑی وجہ دہشت گرد حملے ہیں اور اس کا فائدہ عموماً کنزرویٹوز اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ہوتا رہا ہے۔

بورس جانسن کون ہیں؟

جیتنے والے بورس جانسن لندن اسکول آف اکنامکس اور آکسفورڈ کے تحصیل یافتہ ہیں۔ انہوں نے صحافت سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا تھا۔ یہی نہیں بورس کے بارے میں سب سے دلچسپ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ یہ سلطنت عثمانیہ کے ایک وزیر اور صحافی علی کمال کے پڑپوتے بھی ہیں۔ ان کے پردادا کے مسلم نام سے کسی کو غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ راقم کے نزدیک علی کمال نامی صحافی جو1909ء میں سلطان عبدالحمید کو معزول کرکے وجود میں آنے والی ’ینگ ترک‘ کی حکومت کے وزیر تھے کا تعلق دونمے فرقے سے ہونا قریب از امکان ہے کیونکہ ’ینگ ترک‘ تنظیم کے بیشتر کرتا دھرتا اصل میں دونما تھے۔

ہم ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ کے لئے اپنے ایک سابق مضمون میں دونما فرقے کے بارے میں تفصیل سے معلومات دے چکے ہیں۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا کے مطابق دونما در اصل یہود کے ایک خفیہ فرقے کا نام ہے جو بظاہر سترھویں صدی میں عثمانوی بادشاہ کی سزا سے بچنے کے لئے مسلمان ہوگیا تھا لیکن چھپ کریہودی مذہبی روایات کی پریکٹس کرتے رہے۔ یہ موجودہ یونان کے شہر سلونیکا جسے تھیسا لونیکا کہا جاتا ہے اور جو بیسویں صدی کے آغاز تک یونان کے ساتھ عثمانوی کنٹرول میں تھا، میں رہائش رکھتے تھے۔

انہوں نے اپنی مسجدیں الگ بنائیں، اپنے تعلیمی ادارے بنائے، یہ حج پر بھی جاتے اور اپنے بچوں کو قران بھی پڑھاتے، یہود کے برعکس ہفتے کے دن کاروبار اور کام بھی کرتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے خفیہ طور پر یہودی مذہبی روایات پر عمل بھی جاری رکھا۔ یہ تعلیم یافتہ بھی تھے اور انہیں ٹیکسٹائل کے شعبے میں سلطنت عثمانیہ نے بہت سی مراعات بھی دیں۔

بعد ازاں انیسوی صدی میں یہیں فری میسن لاجز کا قیام عمل میں آیا اور ینگ ترک تنظیم کا قیام بھی یہیں عمل میں آیا جس نے آئینی اصلاحات اور جمہوریت کے نام پر سلطان عبدالحمید کو معزول کرکے سلطنت کی گدی پر ایک کٹھ پتلی حکمران بٹھایا۔ بورس جانسن کے پردادا ینگ ترک کی اس حکومت میں وزیر رہے۔ بعد ازاں انہیں قتل کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ آرمینیائی جینو سائیڈ جس کا الزام سلطنت عثمانیہ پر لگایا جاتا ہے وہ بھی انہی کے ادوار میں ہوئی۔ احمد کمال کے پوتے اور بورس جانسن کے والد کولمبیا کے فارغ التحصیل ہیں اور ورلڈ بینک اور یورپین یونین سے وابستہ رہے۔ بورس انگلش کے ساتھ ساتھ فرنچ اور یونان سے بھی وابستہ رہے۔ بچپن سے ہی ان کی سرگرمیاں انٹلیکچوئل تھیں۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز انہوں نے صحافت سے کیا۔

پاکستان میں ہارنے والے پارٹی جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام یا خلائی مخلوق کی سر پرستی کا الزام لگاتی ہیں، پاکستانی سیاست دانوں کے برعکس جیریمی کوربین اور مک ڈونالڈ نے اپنی شکست کی ذمہ داری باوقار طریقے سے قبول کی۔ دومین اسٹریم اخبارات میں کالموں کے ذریعے جیریمی نے اعلان کیا کہ وہ اس ڈیزاسٹر یعنی آفت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں لیکن انھیں اپنے منشور اور اپنی اصولی الیکشن کیمپین پر فخر ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے مستقبل میں آنے والی انتخابی مہمات کی سمت کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کرکے رکھ دیا ہے تاہم وہ اپنا منشور عوام تک بہتر طور پر پہنچانے میں ناکام رہے۔

پاکستان کے برعکس پارٹی قیادت کی تبدیلی بھی ایک قدرتی عمل ہے جس کے لئے امید وار پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ ہارنے والی پارٹی کی قیادت کرنے والے دونوں قائدین نے ایک سے دو مہینے میں قیادت کی تبدیلی کے امکان کی بات کی ہے۔ ہماری موروثی اور شخصیت پسندانہ سیاست کے پس منظر میں، اس میں بھی ہمارے لئے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے کہ برطانیہ میں ہارنے کے بعد بھی پارٹی قیادت میں جمے رہنے کی روایت موجود نہیں۔

جیریمی کوربین پچھلے چند برسوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بہت اصولی اور جرات مندانہ موقف کے اظہار کے لئے مشہور رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس الیکشن مہم میں کشمیر پر ان کے بیان نے ان کی انتخابی مہم کو بہت نقصان پہنچایا۔

جس سے انڈیا کا پرو مودی ووٹر ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس طرح کشمیر کے ایشو نے بھی لیبر پارٹی کی شکست میں خاطر خواہ کردار ادا کیا۔ اس سے یہ بات بھی ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ بر صغیر ہندو پاک کا ڈیاسپورا یعنی امیگرینٹس کا برطانوی سیاست میں وزن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے قبل لندن کے میئر کے انتخابات میں اس ڈیاسپورا کی طاقت کھل کر سامنے آئی تھی جب پاکستانی نژاد صادق خان کے مخالف امیدوار نے اپنا انتخابی ترانہ اردو، ہندی، پنجابی، بنگالی، چینی زبان میں تقسیم کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ صادق خان کے مخالف امیدوار عمران خان کے سابق برادر نسبتی اور جمائما کے بھائی تھے جنھیں مودی کی حمایت بھی حاصل تھی اور جنہوں نے مسلمان پاکستانی نژاد امیدوار کے خلاف نسل پرستی کا کارڈ بھی کھیلنے کی کوشش کی۔2016ء میں اس کارڈ کو عوام نے مسترد کردیا تھا لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس دوران نفرت اور خوف کی سیاست بڑھتی چلی گئی ہے۔ ایسے میں انسان دوستی کا اصولی موقف رکھنے والے جیریمی جیسے سیاست دانوں کو مسترد کردینا ایک قدرتی امر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیریمی کوربین جیسے سیاست دانوں کی شکست بد قسمتی ہے۔ انسان دوستی پرمبنی ایسے اصولی موقف رکھنے والوں کی برطانیہ کو ہی نہیں دنیا کو بھی ضرورت ہے۔

The post برطانوی انتخابات: کشمیر کا مسئلہ چھایا رہا appeared first on ایکسپریس اردو.

جھاڑ کھنڈ کے ووٹرز نے مودی کی جماعت کو جھاڑ پلا دی، بی جے پی کو شکست فاش

$
0
0

رانچی: مسلم مخالف متنازع بل کی منظوری کے بعد سے مودی سرکار کی خود ساختہ مقبولیت اوندھے منہ آن گری ہے جس کا پہلا مظاہرہ گلی گلی ہوتا احتجاج ہے تو وہیں ریاست جھاڑ کھنڈ میں ہونے والے انتخابات نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست جھاڑ کھنڈ کی اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات میں 81 سے 30 نشستیں جھاڑ کھنڈ مکتی مورچہ (JMM) نے حاصل کرلیں جب کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو 25 سیٹوں پر ہی کامیابی مل سکی، کانگریس کے 16 امیدواروں نے انتخابی معرکہ اپنے نام کرلیا۔

جے ایم ایم نے کانگریس اور آر جے ڈی کے ساتھ انتخابی اتحاد بنایا تھا، اس طرح اتحاد کی مجموعی نشستوں کی تعداد 47 ہوگئی جبکہ حکومت بنانے کے لیے 41 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ حکمراں جماعت کو شکست فاش کے بعد وزیر اعلیٰ رگھوورداس نے گورنر دروپدی کو استعفیٰ پیش کردیا تاہم نئی حکومت کی تشکیل تک وہی کام کرتے رہیں گے۔

گزشتہ انتخابات میں مودی کی جماعت کو اس ریاست سے سادہ اکثریت حاصل ہوئی تھی اور اس نے 5 سال بلا شرکت غیرے جھاڑ کھنڈ میں حکومت کی تاہم بری کارکردگی اور متعصبانہ پالیسیوں کے باعث بی جے پی کو اپنے مضبوط گڑھ سے شکست کی ہزیمت اُٹھانی پڑی اور بی جے پی کے وزیر اعلیٰ رگھوور داس بھی اپنی نشست نہیں بچاسکے۔

The post جھاڑ کھنڈ کے ووٹرز نے مودی کی جماعت کو جھاڑ پلا دی، بی جے پی کو شکست فاش appeared first on ایکسپریس اردو.


ویرات کوہلی نے جیک کیلس کو پیچھے چھوڑ دیا

$
0
0

کٹک: بھارتی کپتان ویرات کوہلی ون ڈے کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے دنیا کے ساتویں کرکٹر بن گئے۔

ویرات کوہلی نے جنوبی افریقہ کے جیک کیلس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف تیسرے ون ڈے میں 85 رنز اسکور کرنے والے کوہلی کے مجموعی ایک روزہ رنز11609 ہوچکے ہیں، ان سے اوپر چھٹے نمبر پر انضمام الحق 11739 رنز کے ساتھ موجود ہیں۔

واضح رہے کہ 18326 رنز کے ساتھ سچن ٹنڈولکر سرفہرست ہیں۔

The post ویرات کوہلی نے جیک کیلس کو پیچھے چھوڑ دیا appeared first on ایکسپریس اردو.

حارث رؤف نے 5 وکٹیں لینے والی گیند بھارتی سیکیورٹی گارڈ کو دیدی

$
0
0

سڈنی: پاکستانی رائٹ آرم پیسر حارث رؤف نے بگ بیش میچ میں جس گیند سے 5 وکٹیں لیں وہ ایک بھارتی سیکیورٹی گارڈ کو دے دی۔

حارث رؤف نے اتوار کے روز ہوبارٹ ہوریکنز کے خلاف میلبورن اسٹارز کی جانب سے 27 رنز کے عوض 5 وکٹیں لے کرٹیم کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

حارث رؤف نے کہاکہ جب میں میچ کیلیے آنے لگا تو بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک سیکیورٹی گارڈ سے ملاقات ہوئی۔ جب میں نے اسے بتایا کہ پاکستانی ہوں تو وہ کافی جذباتی ہوااور رونے لگا، اس نے مجھے گلے سے لگا لیا، میں نے میچ میں جس گیند سے وکٹیں لیں وہ اسی کو دے دی۔

The post حارث رؤف نے 5 وکٹیں لینے والی گیند بھارتی سیکیورٹی گارڈ کو دیدی appeared first on ایکسپریس اردو.

رنز کے انبار؛ عابدعلی نے پہلی ٹیسٹ سیریز ہی یادگار بنالی

$
0
0

 لاہور:  عابد علی نے رنز کے انبار لگاتے ہوئے پہلی ٹیسٹ سیریز ہی یادگار بنالی، اوپنر نے 160.50کی اوسط سے 321رنز جوڑے۔

راولپنڈی میں ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری بنانے والے عابد علی نے اپنے کیریئر کی اولین سیریز میں ہی تسلسل کے ساتھ رنز بناتے ہوئے روشن مستقبل کی نوید سنا دی۔

اوپنر نے 160.50کی اوسط سے 321رنز جوڑے،انھوں نے سب سے بڑی174 اننگز کی کراچی ٹیسٹ میں کھیلی، بابر اعظم 262 رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے، وہ 3میں سے 2 اننگز میں ناقابل شکست رہے،اس وجہ سے اوسط 262رہی، انھوں نے سب سے بڑی اننگز 102ناٹ آؤٹ کی کھیلی، کراچی ٹیسٹ میں سنچری کی بدولت اظہر علی پاکستان کے تیسرے کامیاب ترین بیٹسمین رہے،انھوں نے 51.33 کی ایوریج سے 154رنز بنائے، شان مسعود نے 46.66 کی اوسط سے ایک سنچری سمیت 140رنز اسکور کیے۔

اسد شفیق کو ایک ہی اننگز کھیلنے کا موقع ملا جس میں انھوں نے 63رنز بنائے، محمد رضوان 2اننگز میں 25رنز بنا سکے،حارث سہیل کو ایک ہی بار کریز پر آنے کا موقع ملا جس میں وہ صرف 9رنزتک محدود رہے۔

دوسری جانب بولنگ اٹیک کی قیادت نوجوان پیسرز نے سنبھالی، شاہین شاہ آفریدی 23.25کی اوسط سے 8شکار کرکے دونوں ٹیموں میں شامل تمام بولرز کو پیچھے چھوڑ گئے۔ ان کی بہترین بولنگ 77رنز کے عوض 5وکٹیں رہی،نسیم شاہ نے 27.71 کی ایوریج سے 7شکار کیے، بہترین کارکردگی 31رنز کے عوض 5وکٹیں رہی،محمد عباس 26.66کی اوسط سے 6شکار کرنے میں کامیاب ہوئے،بہترین بولنگ 71رنز دے کر 4وکٹیں رہی۔

حارث سہیل نے 16.50کی ایوریج سے 2پلیئرزکو پویلین بھیجا، یاسر شاہ ایک بار پھر فارم کے متلاشی رہے، انھوں نے ہوم کنڈیشنز کے باوجود 63.50کی اوسط سے صرف 2وکٹیں حاصل کیں، علالت کے سبب دوسرا ٹیسٹ نہ کھیل پانے والے عثمان شنواری نے راولپنڈی ٹیسٹ کی ایک اننگز میں 54رنز دے کر ایک شکار کیا تھا۔

The post رنز کے انبار؛ عابدعلی نے پہلی ٹیسٹ سیریز ہی یادگار بنالی appeared first on ایکسپریس اردو.

سرفراز احمد کراچی کے نہیں پاکستان کے کپتان تھے، چیئرمین پی سی بی

$
0
0

کراچی: چیئرمین پی سی بی احسان مانی کا کہنا ہے کہ سرفراز احمد کراچی کے نہیں پاکستان کے کپتان تھے۔

احسان مانی نے کہا کہ سرفراز احمد کراچی کے نہیں پاکستان کے کپتان تھے، میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ مستقل کپتان ہیں،بس یہ کہا تھا کہ ورلڈکپ تک برقراررہیں گے، وہ پرفارم کرتے ہی قومی ٹیم میں واپس آجائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ بورڈ کے معاملات میں کسی کی مداخلت نہیں، میراخود سلیکشن کمیٹی کے فیصلوں میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، مصباح الحق تن تنہا فیصلے نہیں کرتے، صوبائی کوچز کی مشاورت شامل ہوتی ہے،کوارڈینیٹر ندیم خان بھی موجود ہیں۔

The post سرفراز احمد کراچی کے نہیں پاکستان کے کپتان تھے، چیئرمین پی سی بی appeared first on ایکسپریس اردو.

وہاب ریاض کی نو بال پر آؤٹ بیٹسمین کو ڈریسنگ روم سے واپس بلالیا گیا

$
0
0

ڈھاکا:  بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں وہاب ریاض کی نوبال پر آؤٹ قرار پانے والے بیٹسمین بھانوکا راجا پکسے کو ڈریسنگ روم سے بیٹنگ جاری رکھنے کیلیے بلالیا گیا۔

وہاب ریاض کی نوبال پر آؤٹ قرار پانے والے بیٹسمین بھانوکا راجا پکسے کو ڈریسنگ روم سے بیٹنگ جاری رکھنے کیلیے بلالیا گیا۔ یہ واقعہ ڈھاکا پلاٹونز کے خلاف میچ میں کومیلا واریئرز کی اننگز کے پانچویں اوور میں پیش آیا، جب راجاپکسے کو وہاب ریاض کی گیند پر ڈیپ اسکوائر میں مہدی حسن کے ہاتھوں کیچ قرار دیا گیا تو وہ ڈریسنگ روم واپس لوٹ گئے۔

بعدازاں نئے بیٹسمین یاسر علی کریز پر پہنچ گئے تاہم اس موقع پر تھرڈ امپائر نے وہاب کی گیند کو نوبال قرار دیتے ہوئے راجاپکسے کو واپس آکر بیٹنگ جاری رکھنے کاکہہ دیا۔

The post وہاب ریاض کی نو بال پر آؤٹ بیٹسمین کو ڈریسنگ روم سے واپس بلالیا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

کھیل 13منٹ میں ختم، تماشائی راستے سے ہی گھروں کو واپس لوٹ گئے

$
0
0

کراچی:  کراچی ٹیسٹ کے آخری روز کا کھیل 13منٹ میں ختم ہونے پر تماشائی راستے سے ہی گھروں کو واپس لوٹ گئے۔

میچ شروع ہونے سے قبل تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد نیشنل اسٹیڈیم پہنچ چکی تھی لیکن مجموعی دورانیہ 13 منٹ تک محدود رہا، کئی تماشائی راستے سے ہی واپس گھروں کو لوٹ گئے۔

فتح کے بعد میزبان کرکٹرز نے مختلف انکلوژرز کا دورہ کیا، تماشائیوں سے ہاتھ ملائے، آٹوگراف دیے اور سیلفیز بنائیں،کھلاڑیوں نے گراؤنڈ اسٹاف کے پاس جاکر بھی شکریہ ادا کیا، سیکیورٹی اہلکار بھی قومی کرکٹرز کے ساتھ سیلفیز بنواتے رہے۔

نیشنل اسٹیڈیم میں ہر اسٹینڈ سے عابد، عابدکے نعرے گونجتے رہے

سری لنکا کیخلاف پاکستان کی فتح کے بعد نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہر اسٹینڈ سے عابد، عابدکے نعرے گونجتے رہے،کوئی میچ کھیلنے کا موقع نہ پانے والے فواد عالم کا بھی تماشائیوں نے خیر مقدم کیا اور ان کے حق میں نعرے بازی بھی کی، تماشائی سرفراز احمد کو واپس لاؤکے نعرے بھی لگاتے رہے۔

 

The post کھیل 13منٹ میں ختم، تماشائی راستے سے ہی گھروں کو واپس لوٹ گئے appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان کرکٹ کے لیے200 فیصد محفوظ ملک قرار

$
0
0

کراچی:  سری لنکن کپتان ڈیموتھ کرونارتنے نے پاکستان کو کرکٹ کیلیے 200 فیصد محفوظ ملک قرار دے دیا۔

ڈیموتھ کرونارتنے نے کہا کہ بحیثیت مجموعی یہ دورہ ہمارے لیے بہت اچھارہا،ہم بھرپور میزبانی سے بہت لطف اندوز ہوئے، سیکیورٹی سمیت دیگر انتظامات انتہائی شاندار تھے، بنگلہ دیش سمیت ہر ملک کو یہاں کھیلنے کے لیے آنا چاہیے۔

کراچی ٹیسٹ میں شکست کے بعد پریس کانفرنس میں کرونارتنے نے کہا کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے عمدہ کارکردگی سے ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا، ہماری شکست کی بنیادی وجہ کھلاڑیوں کا ناتجربہ کار ہونا تھا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمیں گھر جیسا ماحول ملا،سیکیورٹی بھی بہت اچھی تھی،ہم دوسری ٹیموں کو کہہ سکتے ہیں کہ انھیں یہاں ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کھیلنے میں کوئی عار نہیں محسوس ہونی چاہیے۔

پاکستان کرکٹ کیلیے 200 فیصد محفوظ ملک ہے،کرونارتنے نے کہا کہ ٹیسٹ سیریز میں میزبان ٹیم نے ہر شعبے میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا،کراچی ٹیسٹ کی پہلی اننگزمیں سبقت حاصل کرنے والی ہماری ٹیم دباؤ برقرار نہ رکھ پائی،پاکستان نے دوسری اننگز میں بہت ہی ذمہ دارانہ انداز میں بیٹنگ کی اور چار سنچریوںکی بدولت ہم پر مکمل طور پر حاوی ہوگیا۔

The post پاکستان کرکٹ کے لیے200 فیصد محفوظ ملک قرار appeared first on ایکسپریس اردو.


سٹیزن پورٹل: انصاف کی فراہمی یا ٹرک کی لال بتی

$
0
0

وزیراعظم عمران خان نے انتخابات 2018 سے قبل پاکستان میں رہنے والے عام شہری کو انصاف کی فراہمی کا وعدہ کیا اور اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے کےلیے انقلابی فیصلہ کیا۔ انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کے زیر نگرانی ایسا نظام متعارف کروایا جس سے سائلین محکموں کے دھکے کھانے کے بجائے گھر بیٹھے ہی اپنے موبائل سے نہ صرف شکایات درج کروا سکتے ہیں، بلکہ اس پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں۔ شکایت حل نہ کیے جانے پر اپنا ردعمل بھی ظاہر کرسکتے ہیں۔

اس انقلابی اقدام سے عام شہریوں کو بھی حکومتی معاملات کو دیکھنے کا موقع میسر ہوا۔ اس جدید سسٹم کو سٹیزن پورٹل نامی ایپلی کیشن کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اس اقدام کو ناصرف پورے ملک میں سراہا گیا بلکہ دنیا میں بھی اسے مثبت سنگ میل قرار دیا گیا ہے۔

کوئی بھی شخص رجسٹریشن کرنے کے بعد، جس میں انتہائی آسان اور بنیادی معلومات فراہم کرنا ہوتی ہیں، شکایات درج کرواسکتا ہے۔ جب کوئی شہری ایپلی کیشن کے ذریعے کسی محکمے یا فرد کے حوالے سے شکایت درج کرتا ہے، یہ خودکار نظام کے تحت متعلقہ محکمے تک پہنچ جاتی ہے۔ جہاں فوکل پرسن اس پر کارروائی شروع کرتا ہے۔ فوکل پرسن اپنے محکمے کے حوالے سے کمپیوٹر پر تمام شکایات دیکھ سکتا ہے۔ بیس دن تک معاملہ حل نہ ہونے کی صورت میں شکایت ایک درجہ اوپر چلی جاتی ہے، جہاں اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے اور یہ شکایات سینئر فوکل پرسن تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر معاملہ اکتالیس دن تک بھی حل نہ ہو تو شکایت ایک درجہ اور اوپر پہنچ جاتی ہے اور اس کا رنگ سیاہ ہوجاتا ہے۔ جس پر یہ شکایت براہ راست وزیراعظم آفس میں موجود فوکل پرسن مانیٹر کرتا ہے۔ اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ وزیراعظم محکموں کو مانیٹر کررہے ہیں۔

اگر کوئی شکایت آئی جی یا کسی اہم عہدیدار کے پاس پہنچتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ افسر شکایت خود مانیٹر کررہا ہے، بلکہ اس کے آفس میں موجود سٹیزن پورٹل کےلیے مختص فوکل پرسن اس کو مانیٹر کرتا ہے۔ شکایت کو اپنے سینئر کے علم میں لانا فوکل پرسن کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ شکایات موصول ہونے کے بعد فوکل پرسن کی جانب سے اپنے ادارے یا سینئر عہدیداران کو بچانے کےلیے حیلے بہانوں اور فرضی رپورٹس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ چند اہم اور انتہائی مخصوص شکایات کے علاوہ فوکل پرسن شکایت کنندہ کو اپنی درخواست واپس لینے پر حد درجہ مجبور کرتے ہیں تاکہ وہ سینئر افسران تک نہ پہنچ سکے۔ اگر ایسا ہو تو متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر نہ صرف سوالات اٹھتے ہیں بلکہ شکایات کے ازالے کےلیے مزید دباؤ بھی بڑھ جاتا ہے۔

وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق سرکاری افسران کے خلاف شکایات کی تحقیقات ان سے ایک درجہ سینئر افسران کو تفویض کی جاتی ہیں۔ جن افسران کے خلاف شکایات موصول ہوں، اس کے پاس وہ معاملہ انکوائری کےلیے نہیں بھیجا جاتا، لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اس ایپلی کیشن کے استعمال کے دوران میرا ذاتی تجربہ کافی پریشان کن رہا، جبکہ چند قریبی احباب کے علاوہ کئی افراد سے سٹیزن پورٹل کے حوالے سے لی گئی رائے میں بھی چند ایسے حقائق سامنے آئے جو کہ حکومتی دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔

انتہائی قریبی دوست، جو کہ پنجاب کے دوردراز کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتا ہے، نے پولیس کے خلاف ایک شکایت رجسٹر کروائی جو کہ ابتدائی طور آئی جی پنجاب کے پاس گئی۔ پھر خودکار نظام کے تحت آر پی او اور ڈی پی او کے پاس پہنچی۔ ڈی پی او کی جانب سے متعلقہ تھانے سے رپورٹ طلب کی گئی۔ اس تھانے کے غیر مجاز افسران نے شکایت کنندہ سے رابطہ کیا اور تھانے میں پیش ہوکر اپنا موقف دینے پر اصرار کیا۔ جس پر اس نے بتایا کہ وہ بسلسلہ کام کسی دوسرے شہر میں ہیں۔ غیر مجاز افسران کی جانب سے ایک فرضی رپورٹ ڈی پی او کو ارسال کردی گئی، جس کے بعد انہوں نے متعلقہ اہلکاروں کو ریلیف فراہم کرنے کے بعد شکایت کو ختم کردیا۔

یہ ایک واقعہ نہیں، بلکہ اس جیسی سیکڑوں شکایات ہیں، جنہیں فرضی رپورٹس بناکر ختم کیا جاچکا ہے۔ یہاں ایک پہلو انتہائی اہم ہے کہ جن کے خلاف شکایت درج کروائی جائے ان ہی افسران کو انکوائری سونپی جاتی ہے۔ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ کسی افسر کا ماتحت عملہ یا وہ خود کس طرح اپنے خلاف ثبوت فراہم کرسکتا ہے۔ ایسے نظام میں انصاف کی توقع کرنا صریحاً بے وقوفی ہوگا۔

کسی بھی شکایت پر ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شکایت درج کروائی جائے اور اکتالیس دن یا اس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی کوئی پیش رفت نہ ہو تو اس کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ شکایت کنندہ کو روز و شب فوکل پرسنز کی جانب سے موصول ہونے والی کالز میں بار بار اصرار کیا جاتا ہے کہ آپ کی شکایت پر کارروائی کردی جائے گی، لیکن اپنا فیڈ بیک دے دیں۔ اس پیش رفت سے بوجھل ہوکر شکایت کنندہ فیڈ بیک دینے میں ہی بھلائی محسوس کرتا ہے، تاکہ آئے روز موصول ہونے والی کالز سے چھٹکارا مل سکے۔ واضح رہے کہ فیڈ بیک دینے کے بعد شکایت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق شہری کی شکایات سے متعلق غلط بیانی یا کوتاہی کا ذمے دار ادارے کا مجاز افسر ہوگا، غیر مجاز افسران کی جانب سے شہریوں کی شکایات کے حل کی رپورٹ بدنیتی اور غفلت تصور ہوگی۔ اگر فرضی رپورٹس کی بات کی جائے تو صورتحال جوں کی توں موجود ہے۔ چند روز ایک سرکاری دفتر میں ایک عزیز کے ساتھ براجمان تھا۔ ان کے ساتھی کمپیوٹر پر کوئی تحریر لکھ رہے تھے اور ساتھ ہی ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنے سینئر افسران کو کوس بھی رہے تھے۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ سٹیزن پورٹل پر شکایت موصول ہوئی ہے اور انچارج نے انہیں جواب لکھنے کا ٹاسک سونپا ہے۔ یہی صورتحال مجموعی طور پر تمام اداروں کے خلاف درج ہونے والی شکایات کی ہے۔

شہریوں کی طرف سے درج شکایات کو وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق نہ نمٹائے جانے اور اداروں کی جانب سے تاخیری حربے اپنائے جانے کا اعتراف خود وزیراعظم عمران خان نے بھی کیا ہے۔ وزیراعظم دفتر کی جانب سے تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو لکھے گئے مراسلہ کے مطابق چند افسران کی کارکردگی کے جائزے کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ شکایات کو نہ ہی وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق نمٹایا گیا اور نہ ہی مناسب سطح پر ان کے ازالے کےلیے کوئی فیصلہ کیا گیا۔ شکایات کے ازالے کےلیے شہریوں کو دیے گئے ردعمل کے معیار سے یہ ثابت ہوا کہ پورے کا پورا نظام ماتحت عملے کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا اور جنہوں نے زیادہ تر فیصلے بھی کیے۔ وزیراعظم دفتر کی طرف سے نشاندہی کی گئی کہ شہریوں کی حل شدہ شکایات کے حوالے سے ثبوت طلب کرنے پر معلوم ہوا کہ بہت ساری حل شدہ شکایات محض فرضی کارروائیوں پر محدود تھیں۔ شکایات کو غلط درخواستوں کا نام دے کر چھوڑ دیا گیا اور کئی درخواستوں کو غیر متعلقہ یا غیر مجاز سطح پر نمٹایا گیا۔ شہریوں کو کہا گیا کہ انہیں ریلیف یا جزوی ریلیف دے دیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت میں صورتحال اس کے برعکس تھی اور شکایات کے ازالے کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کہ سٹیزن پورٹل پر موصول ہونے والی شکایات پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لے گی، لیکن ملکی تاریخ میں اداروں کے سامنے ایسی کمیٹیاں عموماً بے بس پائی گئی ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سٹیزن پورٹل سے شہریوں کو مسائل حل کروانے میں آسانی ہوئی ہے اور وہ اپنی شکایات متعلقہ محکموں کے افسران تک پہچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی اس منصوبے میں کافی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے ایک غیر جانبدار اور شفاف اتھارٹی کا قیام عمل لایا جانا چاہیے، جو نہ صرف تمام شکایات کا ریکارڈ مرتب کرے بلکہ اس پر ہونے والی پیش رفت اور کارروائیوں کا جائزہ لے۔ اگر حکومت موجودہ نظام کے تحت سٹیزن پورٹل سے انصاف فراہم کرنے کا دعویٰ کرے تو وہ یقیناً عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سٹیزن پورٹل: انصاف کی فراہمی یا ٹرک کی لال بتی appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستانی ٹیم کے دورہ ہالینڈ اور آئرلینڈ کا شیڈول جاری

$
0
0

 لاہور: پاکستانی ٹیم کے جولائی 2020 میں دورہ ہالینڈ اور آئرلینڈ کا باقاعدہ شیڈول جاری کردیاگیاہے۔

پی سی بی نے اکتوبر میں دورہ انگلینڈ سے پہلے ان ٹیموں کے خلاف میچز کھیلنے کا اعلان کیاتھا۔ اب میزبان بورڈ ز نے اپنا شیڈول باقاعدہ طورپر آئی سی سی کو بھی بھجوادیاہے جس کے تحت پاکستان کرکٹ ٹیم 4، 7 اور 9 جولائی کو ہالینڈ کے خلاف ایمسٹرڈیم میں ون ڈے میچ کھیلے گی۔ ان میچوں کے بعد گرین شرٹس آئرلینڈ کا دورہ کریں گے۔

پاکستان اور آئرلینڈ کے درمیان دو ٹی ٹوئنٹی میچ بارہ اورچودہ جولائی کو رکھے گئے ہیں۔اس سے پہلے آئرلینڈ کی ٹیم بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کھیلے گی۔

The post پاکستانی ٹیم کے دورہ ہالینڈ اور آئرلینڈ کا شیڈول جاری appeared first on ایکسپریس اردو.

’ہندوستان کسی کے باپ کا نہیں ہے‘، اداکارجاوید جعفری کی بھارتی حکومت پرکڑی تنقید

$
0
0

نئی دلی: بالی ووڈ اداکارجاوید جعفری نے مودی حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے شہریت کے متنازع بل پرکڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کسی کے باپ کا تھوڑی ہے۔

بھارت میں شہریت کے متنازع ترمیمی بل کواپوزیشن سمیت دیگر سماجی حلقوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا ہے جب کہ بھارتی صدر کی جانب سے بل کی منظوری کے بعد ملک بھرمیں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

خاص طور پر دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلموں کی جانب سے بل کی مخالفت میں کیے جانے والے مظاہرے اور جوابی کارروائی میں دہلی پولیس کے طالبعلموں پر تشدد نے دنیا بھر کی توجہ کھینچ لی ہے اوراس تشدد کے بعد سے ہی بھارت میں مظاہروں میں شدت دیکھنے میں آئی۔

شہریت کے متنازع ترمیمی بل کے خلاف نہ صرف بھارت میں موجود مسلم اقلیتیں احتجاج اورمظاہرے کررہی ہیں بلکہ بالی ووڈ اداکار وں نے بھی اس بل کے خلاف سخت ردعمل دیا ہے۔ حال ہی میں بالی ووڈ کے مسلمان اداکارجاوید جعفری نے مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اپنی تقریرکا آغازاس شعرسے کیا ’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام، وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا۔‘

اس خبرکوبھی پڑھیں: حق کیلئے آوازاٹھانیوالے نوجوانوں کوسلام پیش کرتا ہوں، ہرتھیک روشن

جاوید جعفری نے جامعہ اسلامیہ کے طالبعلموں کی بہادری کوسراہتے ہوئے کہا کہ ان نوجوانوں کی بہادری ہی ہمارے ملک کی طاقت ہے۔  انہوں نے بھارتی ٹی وی کے مشہورپروگرام ’’ساودھان انڈیا‘‘ کے میزبان سشانت سنگھ کو متنازع شہریت کے بل کی مخالفت کرنے کی وجہ سے شو سے باہر کرنے پرانتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ حالانکہ انتظامیہ نے انہیں شو سے نکالنے کی وجہ نہیں بتائی لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ کس وجہ سے انہیں نکالا گیا۔

جاوید جعفری نے کہا یہ ملک ایسے نہیں بنا ہے بلکہ کئی لوگوں نے اس کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں اور وہ قربانیاں کہیں نہ کہیں ہمارے خون میں آئی ہیں ہمیں کب تک چپ رکھوگے۔ اداکار جاوید جعفری نے بھارت کے اندرونی مسائل بیان کرتے ہوئے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اس وقت معاشی و اقتصادی بحران اوربے روزگاری سمیت مختلف مسائل کا شکار ہے پہلے ان مسائل کو تو حل کرلو، ہندو مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے میں لگے ہو۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: جامعہ ملیہ معاملے پرخاموش بالی ووڈ خانز تنقید کی زد میں آگئے

جاوید جعفری نے مودی حکومت سے  کہا یہ کھیل بند کروبات کروکہ آگے کیا کرنا ہے لوگوں کو روٹی، کپڑا مکان دو۔ آپ نے کہا کانگریس کرپٹ پارٹی تھی چلومان لیا لیکن آپ کیا کررہے ہو۔ آپ آکر سب سے بات کریں کہ ہم اسکول بنائیں گے، تعلیم کے فروغ، صحت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کام کریں گے لیکن آپ آکر سیدھا بولتے ہیں ہم مندر بنائیں گے، اور کچھ ہے نہیں کیا بنانے کے لیے، ملک کو بناؤ۔

اداکار جاوید جعفری نے شہریت کے متنازع ترمیمی بل کو نہایت خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل بھارتی آئین کے بالکل خلاف ہے۔ بہت ہی شرمندگی کی بات ہے کہ آپ نے  ایک اقلیت کو بالکل ہی نظرانداز کردیا جب کہ باقیوں کو آپ شہریت دے رہے ہو۔

جاویدجعفری نے اپنی تقریر کا اختتام بھارتی شاعر راحت اندوری کے اس شعر سے کیا

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا گھر تھوڑی ہے

سب ہی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

واضح رہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے شہریت کے متنازع بل کے تحت 3 ممالک پاکستان ، بنگلہ دیش اورافغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن جن میں ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اوربدھ مت شامل ہیں انہیں بھارت کی شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو بھارتی شہریت سے محروم رکھا جائے گا۔

The post ’ہندوستان کسی کے باپ کا نہیں ہے‘، اداکارجاوید جعفری کی بھارتی حکومت پرکڑی تنقید appeared first on ایکسپریس اردو.

26 دسمبر کو ہونیوالے سورج گرہن کے حوالے سے ماہرنجوم کی اہم پیشگوئیاں

$
0
0

لاہور: پاکستان سمیت دنیا کے بیشترممالک میں 26 دسمبرکوسورج گرہن ہوگا یہ گرہن اس لحاظ سے منفردہے کہ یہ 118 برس بعد ہونے جارہا ہے۔

26 دسمبر کو ہونے والا سورج گرہن اپنی نوعیت کا منفرد دائرہ نما سورج گرہن ہوگا 97 فیصد گرہن ہوگا، ماہرین علم نجوم کا کہنا ہے کہ سورج گرہن کے اثرات 15 دن پہلے ہی شروع ہوگئے تھے جو گرہن لگنے کے 15 دن بعدتک ہوں گے، پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں تلخی کی ایک وجہ سورج گرہن بھی ہے، مذہبی اسکالرکہتے ہیں سورج اورچاند گرہن اللہ کی نشانیاں ہیں، یہ کوئی فائدہ اورنقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں۔

ڈائریکٹرمحکمہ موسمیات پنجاب میاں اجمل نے بتایاکہ سورج گرہن پاکستانی وقت کے مطابق صبح 7 بج کر 30 منٹ پر شروع ہوگا، 8 بج کر 37 منٹ پر یہ اپنے عروج پر ہوگا، گرہن دوپہر1 بج کر 6 منٹ تک مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا جب چاند گردش کرتا ہوا زمین اور سورج کے درمیان آجاتا ہے تو اُس وقت سورج گرہن واقع ہوتا ہے لیکن جب زمین گردش کرتی ہوئی اپنے مدار میں سورج اور چاند کے درمیان آجاتی ہے تو چاند گرہن واقع ہوتا ہے۔

یہ سورج گرہن رواں برس کا چوتھا سورج گرہن ہے۔ سال 2019 میں پہلا سورج گرہن 6 جنوری کو ہوا تھا جو جزوی تھا۔ سال کا دوسرا اور تیسرا مکمل سورج گرہن 2 اور 3 جولائی کو ہوا تھا۔ پہلے تینوں سورج گرہن کا نظارہ پاکستان میں نہیں دیکھا گیا تھا۔

میاں اجمل نے بتایا کہ سورج گرہن کے وقت سورج سے خطرناک شعائیں نکلتی ہیں اس لئے گرہن کے وقت سورج کی طرف کھلی آنکھ سے نہیں دیکھنا چاہیئے بلکہ کوئی مخصوص چشمہ یا ایکسرے فلم استعمال کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سورج اورچاند گرہن کے انسانی مزاج اور زندگی پرکیا اثرات مرتب ہوتے ہیں سائنس تواسے نہیں مانتی ہے مگرجولوگ ستاروں کے علوم کومانتے ہیں ان کے مطابق سورج اورچاندگرہن کے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

علم نجوم کے ماہرسید مصدق زنجانی سے جب اس حوالے سے پوچھاگیا توانہوں نے کہا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مختلف آسمانی برجوں کا ذکرکیاہے۔ اللہ تعالی نے ان کا باقاعدہ ایک نظام بنایاہے۔ انہوں نے کہا سورج گرہن کے وقت یا اس دن جوبچے پیداہوں گے ان پراس کے اثرات مرتب ہوں گے، حاملہ خواتین کو گھرسے باہرنہیں نکلناچاہیے اورکوشش کریں کہ گرہن کے وقت کمرے کے اندرہی رہیں۔

انہوں نے مزیدکہا کہ سورج گرہن کے اثرات ملک پربھی مرتب ہوتے ہیں۔یہ اثرات  10 دسمبرکے بعدسے شروع ہوگئے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ لاہورمیں رونما ہونے والا پی آئی سی کا سانحہ، جنرل مشرف کوسنائی گئی سزا اورخطے کی عمومی صورتحال میں کشیدگی کی ایک وجہ سورج گرہن بھی ہے۔ سورج گرہن کے بعدمزید15 دن تک اثرات رہتے ہیں۔ مصدق زنجانی نے کہا برج قوس، حمل اور اسد کے حامل افرادپرسورج گرہن کے زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔

جامعہ نعیمیہ کے سربراہ اوراسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ڈاکٹرراغب نعیمی کہتے ہیں کہ سورج اورچاند گرہن اللہ کی نشانیاں ہیں، گرہن انسانوں کوکوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں سورج گرہن رونماہواتھا، بعض لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات سورج گرہن کی وجہ سے ہوئی ہے تو آپ ﷺ نے انہیں ایسا کہنے سے منع فرمایا اورکہا کہ ایسا نہیں ہے، زندگی، موت، تندرستی اوربیماری اللہ کی طرف سے ہے۔

ڈاکٹرراغب نعیمی نے بتایا کہ آپ ﷺ کی سنت مبارکہ  ہے کہ جب سورج گرہن ہوتواس وقت اللہ تعالی سے دعامانگی جائے اورنمازکسوف اداکی جائے، اس نمازمیں رکوع، قیام اورسجودطویل کیے جاتے ہیں اوراس وقت تک اللہ تعالی سے دعا مانگی چاہیے جب تک گرہن ختم نہ ہوجائے۔

The post 26 دسمبر کو ہونیوالے سورج گرہن کے حوالے سے ماہرنجوم کی اہم پیشگوئیاں appeared first on ایکسپریس اردو.

خیبرپختونخوا حکومت پشاور میٹرو کی تحقیقات رکوانے سپریم کورٹ پہنچ گئی

$
0
0

 اسلام آباد / پشاور: خیبر پختونخوا حکومت نے پشاور میٹرو کی تحقیقات رکوانے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے مخدوم علی خان ایڈوکیٹ کی وساطت سے سپریم کورٹ اسلام آباد اور پشاور رجسٹری میں الگ الگ درخواستیں دائر کی ہیں جن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بی آر ٹی پشاور کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ نے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا، اس لئے عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے، درخواست پر فیصلے تک ایف آئی اے کو انکوائری سے روکا جائے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے بی آر ٹی کے حوالے سے دائر درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے کو 45 دن میں انکوئری کا حکم دیا تھا۔ جس پر ایف آئی اے نے تحقیقات بھی شروع کردی ہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے منصوبے کو ویژن کے بغیر فیس سیونگ کے لیے شروع کیا، ناقص منصوبہ بندی کے باعث منصوبے کی لاگت میں 35 فیصد کا اضافہ ہوا اور پشاور کے رہائشوں کے لیے تکلیف کا باعث بنا، منصوبے نے 6 ماہ کی مدت میں مکمل ہونا تھا لیکن سیاسی اعلانات کے باعث تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت بھی بڑھ گئی اور فی کلومیٹر لاگت 2 ارب 42 کروڑ، 70 لاکھ روپے ہے جو بہت زیادہ ہے، کیا منصوبے کے لیے اتنا بڑھا قرضہ لینے کی ضرورت تھی؟ بی آر ٹی کے قرضہ سے صوبے کی معاشی خوشحالی بھی ممکن تھی۔

The post خیبرپختونخوا حکومت پشاور میٹرو کی تحقیقات رکوانے سپریم کورٹ پہنچ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 46819 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>